|

وقتِ اشاعت :   December 10 – 2024

وومن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ و شہید بینظیر بھٹو کرائسس سینٹر کوئٹہ، لوکل گورٹمنٹ و یونیسف نے خواتین پہ تشدد کی روک تھا کے حوالے سے سولہ روزہ مہم کے سلسلے سے ایک اگاہی سیمنارکا انعقاد کیا۔ پروگرام سے سماجی ورکرز، صحافی، وکلاء، اساتزہ، گورنمنٹ افیسرز، یواین کے نمائندے، این جی اوز اور شہید بینظیر بھٹو کرائسز سنٹر کے بینفشریز نے بھرپور شرکت کی۔
پروگرام کی مہمان خاص (چیف گیسٹ) میڈم سائرہ عطاء سیکرٹری وومن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کے مسائل حل کرنے کے لیے ادارہ موجود ہے، ابھی خواتین کو بلا جھجک اگے انا ہے اور مقابلہ کرنا ہے۔ میرے ساتھ بھی ناانصافیاں ہوئی ہیں مگر میں نے فائٹ کیا ہے اور اپنا حق لیا ہے۔ ہراسمنٹ ہر لیول پہ ہوتا ہے، مگر جو لوگ پڑھے اور اگاہ ہیں تو اواز اٹھاتے ہیں اور اپنا حق لے لیتی ہیں۔
پروگرام کے میزبان روزینہ خلجی نے پروگرام کو خوبصورتی سے چلایا اور وقتاً فوقتاً اگاہی میسچز دیتی رہی۔

پروگرام سے روبینہ زہری مینجر بینظیر بھٹو وومن کرائسس سینٹر کوئٹہ نے اپنے سنٹر کی 20 سالا کارکردگی پیش کیا، اور کہا کہ ان کا ادارہ خواتین کے کیسز جیسے کہ خواتین پہ جسمانی تششدد، کم عمری کی شادی، ہراسمنٹ، جائداد اور فیملی کیسز اور متائثرین کو سروسز دیتے ہیں۔ ان 20 سالوں میں ہمارے سنٹر نے 749 خواتین کو قانونی معاونت کیا اور 108 خواتین کو شیلٹر دیا، 5900 خواتین کی کونسلنگ کی اور انہے نفسیاتی مسائل سے چھٹکارا دلایا۔
صغیر احمد سینئر ایجوکیشن افیسر یونیسف نے کہا مختلف اسٹیک ہولڈرز خواتین کے حقوق پہ کام کررہی ہیں۔ مگر مسائل ابھی بھی توجہ طلب ہیں۔ بلوچستان میں بچیوں کے سکول کی تعداد کم ہیں۔ ہماری بچیاں کسی سے بھی کم نہی، ہم نے نوٹس کیا ہے کہ ہماری بچیوں میں ٹیلنٹ بہت زیادہ، مگر ان کو مواقع دینا چاہیے۔ ان سب مسائل کا حل تعلیم ہے۔
اشفاق مینگل مینجر ہیلپ لائن وومن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ حکومت بلوچستان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہیلپ لائن کا سروس موجود ہے، جہاں پہ خواتین رابطہ کرسکتے ہیں، ان کے مسائل حل کئے جاہیں گیں۔ ہمیں سب کو مل کر خواتین پہ تشدد کے لیے اگے انا ہوگا اور مسائل کو اجاگر کرنا ہوگا۔
پروگرام سے میر بہرام لہڑی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں ہماری خواتین دوران زچگی سب سے زیادہ فوت ہورہی ہیں۔ ان فوتگی کی سب سے بڑی وجہ کم عمری میں شادی ہے، بلوچستان میں کم عمری میں شادی کا ممانعت کا قانون کمزور ہے، لہزا پچھلے 14 سالوں سے پنڈنگ بل موجود ہے، جسے ہمارے صوبائی اسمبلی کے نمائندے اہمیت نہی دے رہے۔ جب تک ہماری پچاس فیصد حصے کو نمائندگی نہی دی جائے گی، ہماری ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہی ہوسکتا۔
پروگرام سے بینظیر شیلٹر ہوم سے فائدہ اٹھانے والی ایک سرواوئیر نے اپنی کہانی سنائی اور کہا کہ والدین کو چاہیے کہ اپنی بچیوں پہ اعتماد کرنا چاہیے۔
ایک اور سرواوئیر نے اپنی کہانی سنائی اور کہا میری شادی ایک مس میچ تھا، اور اپنی شوہر سے خلع لینے کے لیے وکیل دیا اور میرا مدد کیا، بینظیر شیلٹر ہوم میری زندگی میں تبدیلی لأی اور میرے زندگی میں ایک کرن ثابت ہوا۔
سائرہ کاکڑ شریک بانی (Co Founder) شہید باز محمد کاکڑ فائنڈیشن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میرا سفر بہت سارے مشکلات سے گزرتا ہوا، اس مقام تک پہنچا ہے، بچیوں کو پڑھانا ہمارے خاندان میں اچھا نہی سمجھا جاتا تھا، مگر میرے والدین اور بھائیوں نے بہت سپورٹ کیا اور سب معاشرے کا پروا کئے بغیر مجھے علم دیا، اور اج میں ایک کامیاب پروفیشنل خاتون ہوں اور اپنے بھائی کے مشن کو اکے بڑھا رہی ہوں۔
پروگرام سے پروفیسر فائزہ میر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مختلف سروے اور ریسرچ سے یہ ثابت ہوا ہے کہ خواتین پہ زیادہ تشدد گھروں میں ہوتا ہے۔ گھر ایک خوبصورت جگہ اور حفاظت کا جگہ سمجھا جاتا ہے اور گھر میں سب اپنے رہتے ہیں اور اپنے اپنوں پہ تشدد کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے سوچ اور روئیوں پہ کام کرنا چاہیے اور خواتین کی اہمیت کو تسلیم کرنا ہوگا۔
پروگرام سے ہمافولادی و دیگر نے خطاب کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ ابھی بھی ہمیں خواتین کے مسائل پہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔
پروگرام کے اختتام میں مہمان خاص فوزیہ شاہین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم صرف اپ کو اگاہی نہی دے رہے، ہم اپ کے لیے مختلف ادارے بنا دئے ہیں، ہم خواتین کو ان سروسز اور ادارہ سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ہمیں اپنے تعمیلمی اداروں میں جینڈر بیسڈ وائلنس کو بھی پڑھانا چاہیے۔ پروگرام سے طاہرہ بلوچ وفاقی محتسب برائے بلوچستان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہراسمنٹ ہر شعبے میں ہوتا ہے اسے ہمیں رپورٹ کرنا ہوگا، میرا ادارہ خواتین کے لیے ہروقت موجود ہے، اور ایک سادہ کاغذ پہ ہمیں درخواست جمع کریں اور ہم محدود وقت میں متائثرین کو فائدہ دیں گیں۔ پروگرام کے اختتام میں مہمانوں اور بینفشریز میں سرٹیفکٹس اور شیلڈ تقسیم کئے گئے۔