|

وقتِ اشاعت :   23 hours پہلے

مستونگ ؒبلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی رہنماؤں صبغت اللہ شاہ گودی ڈاکٹر سمیہ بلوچ و دیگر مرکزی و ضلعی رہنماؤں نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ مستونگ شہر جو کبھی علم و ادب کا گہوارہ سمجھا جاتاتھا، مگر آج یہ دھرتی سماجی مسائل کے ساتھ ساتھ منشیات کا گڑھ بن چکا ہے، ضلع مستونگ خاص طور پر پڑنگ آباد ولی خان تھانہ کے عقب میں منشیات فروشی کا صوبائی اڈہ بن چکا ہے

اور سرعام منشیات فروشی ہورہی ہیں، اور یہ زہر انتہائی کم قیمت پر ہر خاص و عام کو دستیاب ہے،پڑنگ آباد میں نہ صرف مستونگ کے مقامی لوگ بلکہ نوشکی کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر سے لوگ آکر منشیات فروشی اور نشہ کرتے ہیں اور کھلے عام سرعام یہ دھندہ ہورہا ہے اور پولیس و انتظامیہ مکمل طور پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں اور بعض اوقات یہی انتظامیہ معاون کا کردار بھی ادا کرتے ہیں،

بلوچستان میں اب بھی ماورائے آئین لوگوں کو جبری طور پر غائب کرنے کا سلسلہ جاری ہیں لیکن جب بات معاشرے کی اصلاح کی کی جاتی ہے یا منشیات فروشوں کو پکڑنے کی ہوتی ہے تو انتظامیہ اور ادارے اندھے قانون کی تصویر بن جاتے ہیں، نہ کوئی کاروائی ہوتی ہے۔نہ کسی پر پرچہ کٹتا ہینہ چھاپہ مارا جاتا اس سے واضع ہوتا ہیکہ ریاست اور ادارے صرف اپنے مشنری کو چلانے کیلئے بنے ہیں

ان کا بلوچ قوم اور اس کے سماجی مسائل سے کوئی سروکار نہیں انہوں نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں قاتل ازاد گھومتی ہیں منشیات فروش بیخوفی سے اپنا کاروبار چلاتے ہیں چوروں کا کوئی تعقب نہیں کیا جاتا اور عام شہریوں کو انصاف کی کوئی امید نظر نہیں آتی لیکن یہی قانون جبری گمشدگیوں کے لیے یا عوام کو دبانے کے لیے فورا متحرک ہو جاتا ہے یہی قانون فورتھ شیڈول کے نام پر سینکڑوں لوگوں کو روزانہ ہراساں کیا جاتا ہے اور انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جاتاہے انہوں نے کہا کہ ہم میڈیا کی توسط سے عوام کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں

کہ اپنی آواز ہمیں خود بننا ہوگا منشیات اور دیگر سماجی برائیوں کے خلاف ہمیں خود کھڑا ہونا ہوگا یہ کوئی عام سماجی مسئلہ نہیں بلکہ ہماری نسل کشی کا ایک تسلسل ہے اپنے لوگوں کو اس ناسور سے نہ صرف بچانا ہوگا بلکہ اس کے خلاف متحد ہو کر منظم جدو جہد بھی کرنی ہوگی عوام سے گزارش ہے کہ ہر اس شخص کی نشاندہی کرے جو گلی محلوں میں منشیات کا کاروبار کر رہا ہے ان کے خلاف متعلقہ تھانوں میں ہفتہ وار درخواستیں جمع کرائیں اگر درخواست قبول نہ کی جائے تو بلوچ یکجہتی کمیٹی بی وائی سی انتظامیہ کے کردار کو ثبوتوں کے ساتھ جو دنیا کے سامنے لے آئے گی بلوچ نسل کشی کے خلاف اس جنگ میں ہمیں متحد ہو کر ہر اس عمل کے خلاف جدوجہد بھی کرنی ہوگی جو براہ راست یا بالواسطہ ہماری نسل کشی سے جڑا ہوا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *