کیا انسان کو ایک دوسرے سے مکالمہ کرنا چاہیے کہ نہیں۔ وہ مکالمہ ہی بہتر ہوگا جو دلائل کی بنیاد پر ہو جو منطقی انجام تک پہنچانے کا راستہ فراہم کر سکے۔ جب تک مکالمہ نہیں ہوگا،ایک دوسرے کو سمجھیں گے کیسے، جانیں گے کیسے ،پھر ایک راستہ کیسے نکلے گا، ورنہ دور بیٹھ کر کسی کا خاکہ ذہن میں لانا اور اسے بیان کرنا ایک آسان کام ہے پھر تو کوئی راستہ ہی نہیں نکل سکتا۔ مکالمہ اس وقت ممکن ہوگا جب کوئی پلیٹ فارم ہوگااور اس پلیٹ فارم کا بہتر انداز میں استعمال معاشرے پر ایک مثبت اثر ڈال سکتا ہے۔ سوچنے کا بھی موقع ملے گا سمجھنے کا اور مطالعے کا بھی۔ لکھنے کا شوق بچپن سے ہی تھا ،لکھتے تھے، پھر مٹاتے تھے تب جا کر کوئی مختصر سی تحریر بن جاتی تھی۔ ایک خواہش ہوتی تھی کہ لوگ اس تحریر کو پڑھیں۔ پھر لوگوں تک رسائی کا واحد ذریعہ اخبارات اور میگزین ہو اکرتے تھے۔ جب تحریر بھیجتے تھے،کبھی اخبار میں چھپ جاتی تھی تو کبھی ردی کی ٹوکری کی نذر ہوتی تھی۔ پھر ہمیں بتایا جاتا تھا کہ ایڈیٹر کی مرضی کہ وہ اس کو چھاپ دے یا پھینک دے۔ یعنی سارا کام ایڈیٹر کے رحم و کرم پر ہوتا تھا۔ میں جس ایریا میں رہتا تھا ،وہاں صرف ایک ہی اخبار آتا تھا ۔ میں اپنی تحاریر اسے ارسال کرتا تھا۔ ایک دفعہ ظلم ہوا کہ مذکورہ ایڈیٹر نے نام کے ساتھ ہی عجیب و غریب قسم کا تخلص لگا کر میری حیرانی میں اضافہ کر دیا۔ میں نے جب احتجاج کیا تو بعد میں، میں نے جتنی بھی تحاریر ارسال کیں، ان میں سے کوئی بھی نہ چھپا۔ ایک مایوسی سی ہوتی تھی کہ محنت کیا کرتے ہیں ،پر وہ کیوں نہیں چھپتی ۔ یا تو ایڈیٹر کی مرضی کے خلاف ہوتی تھی یا پالیسی کی۔ دونوں صورتوں میں تحاریر کا گلہ گھونٹ کر قتل کیا جاتا تھا۔ پھر آج تک ہمیں پتہ نہیں چلا کہ اس اخبار کی پالیسی کیا ہے اور ایڈیٹر کی خوشی کس بات میں پنہاں ہے جسے مدنظر رکھتے ہوئے ہم اپنا کام پورا کر سکیں۔کافی عرصے سے دوستوں کی خواہش تھی کہ ایک ایسے پلیٹ فارم کا قیام عمل میں لایا جائے جو نوجوان لکھاریوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کر سکے۔ آج کل تو نوجوانوں کو ایک پلیٹ فارم سوشل میڈیا تو دے چکا ہے۔ لیکن سوشل میڈیا پر جہاں کل کر بولنے کا موقع ملتا ہے تو وہیں اس پلیٹ فارم پر بے دھڑک بولنے کا نظام رائج ہے ہماری کوشش تھی کہ وہ نوجوان جن میں لکھنے اور مطالعہ کرنے اور بحث مباحثہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے کیوں نہ ان کو ایک پلیٹ فارم دیا جائے تاکہ وہ مکالمہ کر سکیں۔ ایک مثبت سوچ کے ساتھ اپنے قلم کا استعمال کر سکیں اور نئے لکھاری متعارف کرائے جا سکیں۔ اسی خیال کے تحت’’حال حوال‘‘ کے نام سے دوستوں کی کاوشوں سے آن لاائن اردو جریدے کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس جریدے کے قیام کا مقصد ان نوجوانوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے جو سماجی ناانصافیوں، تعلیم، صحت اور بلوچستان سے متعلق دیگر مسائل کا احاطہ کرسکے۔ ایک ایسا قافلہ تیار کرنا مقصود ہے جو آگے جاکر دانشورانہ رائے رکھتا ہو۔ ادارے کی پالیسی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔وہ نوجوان جو ادارے کی پالیسی سے اتفاق کرتے ہیں وہ ضرور قلم اٹھائیں،انہیں یہ ادارہ چھاپے گا۔ حال حوال کی ویب سائٹ کی تقریب رونمائی یوم آزادی صحافت کے موقع پر کوئٹہ پریس کلب میں منعقد کی گئی۔ حال حوال کی ٹیم نے اس پروگرام کی تقریبی ذمہ داریاں خود سنبھالیں۔ کوئٹہ کی سینئر صحافی برادری اور مختلف شعبوں سے جڑے افراد نے شرکت کی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔اس پروگرام کے مہمان خاص دنیا نیوز ٹی وی کے بیورو چیف عرفان سعید تھے۔ اسٹیج سیکرٹری کی ذمہ داری کے فرائض حال حوال ویب سائٹ کے ایڈیٹر عابد میر نے سنبھالے۔ تقریب کا آغاز اس اعلان کے ساتھ ہوا کہ حال حوال کی ٹیم ویب سائٹ کا افتتاح کرے۔ ٹیم کی جانب سے ویب سائٹ پہ کلک کے ساتھ ہی یہ ویب سائٹ آن لائن ہو گئی۔ سینئر صحافی اور ڈان نیوز پیپر کے بیورو چیف سلیم شاہد نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں اردو آن لائن جرنلزم کا قیام وقت کی اہم ضرورت تھی جسے نوجوانوں نے پورا کیا۔ بلوچستان میں صحافت ایک مشکل اور کٹھن راستہ ہے۔ اس پر چلنے کے لیے نہایت احتیاط سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ صحافی کا کام ہی یہی ہے کہ حقائق کو سامنے لائے۔ آپ اس وقت معاشرے میں معتبر ہو سکتے ہیں جب آپ حقائق بیان کریں گے۔ صحافت کی آزادی کا مقصد ہی ذمہ داری ہے۔ امید کرتے ہیں نوجوانوں نے جو مشکل راستہ چنا ہے اسے ذمہ داری کے ساتھ نبھائیں گے۔اور یہ کہ لوگوں میں برداشت پیدا کرنے کی کوشش کریں گے نہ کہ انہیں اشتعال دلانے کا کام کریں گے ، نیز خبر اور رپورٹ بناتے وقت زبان اور جذبات کا خیال رکھا جائے گا۔ پولیٹیکل ایکٹویسٹ شازیہ لانگو کا کہنا تھا بلوچستان کے وہ لوگ جو حال حوال سے محروم تھے ان تک بلوچستانی خبریں پہنچ نہیں پا رہی تھیں۔ امید ہے یہ پلیٹ فارم انہیں حال حوال ضرور دے گی۔ حال حوال کی ٹیم کی کوشش ہونی چاہیے کہ سچائی پر مبنی خبریں لوگوں تک پہنچا ئیں۔ ڈائریکٹر ادارہ ثقافت عبداللہ بلوچ کا کہنا تھا کہ حال حوال کی ٹیم مبارک باد کا مستحق ہے جنہوں نے بلوچستان آن لائن لکھاریوں کو ایک پلیٹ فارم دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بحیثیت رپورٹر اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا اور ہماری کوشش تھی کہ لوگوں تک حقائق پہنچائیں جس کے لیے ہمیں سخت محنت کرنا پڑتی تھی۔ امید ہے حال حوال کی ٹیم محنت سے کام لے کر خبریں اور معلومات لوگوں تک پہنچائیں گی۔
کوئٹہ پریس کلب کے صدر شہزادہ ذوالفقار کا کہنا تھا کہ نوجوان معاشرے کو آئینہ دکھانے کے لیے اکٹھے ہو گئے ہیں۔ صحافی کا سب سے اہم کام سچ کو عوام تک پہنچانا ہے۔ کنفلکٹ زون میں رہتے ہوئے صحافی چاروں طرف سے بندوق برداروں کے درمیان گھرا ہوا ہے۔ صحافیوں کو چاہیے کہ وہ اپنے جذبات پر قابو رکھیں اور کسی پارٹی کا حصہ نہ بنیں جو کل ان کی جان پر آجائے۔ صحافی کو نہ نظر آنے والی ریڈ لائن کو اپنی آنکھوں سے نہیں دماغ سے دیکھنے کی ضرورت ہے ۔امید کرتے ہیں حال حوال کی ٹیم بلوچستان کی درست تصویر کشی اور حقائق کی بنیاد پر اپنا معیار برقرار رکھے گی۔ دانشوروحید زہیر کا کہنا تھا پچھلے زمانے میں سرکاری سطح پر محتاط رپورٹنگ کی ضرورت ہوتی تھی لیکن اب وہ مشکل نہیں رہی۔ پرائیویٹ میڈیا کی رسائی ایوانوں تک پہنچ گئی ہے لیکن خبر اور رپورٹنگ میں وہ معیار نظر نہیں آتا جو کسی زمانے میں ایڈیٹر کا خاصا ہوا کرتا تھا۔ اب اداروں میں ایڈیٹر برائے نام رہ گئے ہیں۔ اس لیے اب وہاں خبریت کی اثر بھی کم ہو گئی ہے۔ امید ہے حال حوال میں ان چیزوں کا خیال رکھا جائے گا۔
سینئر صحافی ایوب ترین کا کہنا تھا کہ اگر ہمیں دنیا کے ساتھ چلنا ہے تو اس جدید ٹیکنالوجی کو استعمال میں لانے کی ضرورت ہے جو سب کی ضرورت بن چکی ہے۔ یقیناًآن لائن جرنلزم کی اہمیت اب شدید ہے جو اردو کے سیکشن میں بلوچستان میں پہلی مرتبہ متعارف ہو رہی ہے جو خوش آئند ہے۔ نوجوان صحافی عدنان عامر کا کہنا تھا کہ آن لائن جرنلزم کا استعمال پاکستان کی سطح پر اتنا نہیں ہو رہا جتنا باہر ممالک میں اس کا استعمال عام ہو چکا ہے۔ بہت سے اخبارات اب پرنٹ سے نکل کر آن لائن کی طرف آچکے ہیں یعنی انہوں نے اس کی اہمیت کو بھانپ لیا ہے۔ حال حوال ادارے کا قیام ایک مثبت اقدام ہے امید کرتے ہیں کہ بلوچستان کی اردو جرنلزم میں یہ اپنا کردار ادا کرے گا۔ یونیورسٹی آف تربت کے پبلک ریلیشنگ آفیسر اعجاز بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں صحافت نئی جہتوں کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ حال حوال اس سلسلے میں ایک مثبت اقدام ہے ۔امید رکھتے ہیں کہ وہ خبر پر تبصرہ کریں گے ،خبر کو تبصرہ نہیں بنائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آزادی صحافت کی با ت تو سب کرتے ہیں اس کے لیے بنیادی ذمہ داری میڈیا مالکان پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اس آزادی کی پاسداری کریں۔ تقریب کے مہمان خاص عرفان سعید نے کہا کہ آج خوشی ہو رہی ہے کہ صحافت کتابت سے نکل کر اسکرین پر آرہی ہےِ جو بیسویں صدی میں مشکل کام ہوتا تھا وہ اب ٹیکنالوجی نے اسے آسان کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم جس طرح جدت کی طرف جا رہے ہیں غلطیاں اتنی ہی زیادہ ہو گئی ہیں۔ امید ہے ٹیم حال حوال ان چیزوں کا خیال رکھے گی۔ بلوچستان کلچر کے لحاظ سے ایک زرخیز زمین ہے، جسے سامنے لانے کے لیے حال وحوال اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔ ’حال حوال‘ کے اعزازی مدیر عابد میر نے تمام شرکا ء اور مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم خود کو اْس تسلسل سے جوڑتے ہیں، جس کی بنیاد یوسف عزیز مگسی نے رکھی ، جسے محمد حسین عنقا، نسیم تلوی، بابو شورش نے نبھایا، اور جس کا تسلسل ارشاد مستوئی جیسے ساتھیوں کی صورت ہم تک پہنچا ہے، اسی لیے اس ادارے کو ارشاد مستوئی کے نام سے ہی منسوب کیا گیا ہے، اس عہد کے ساتھ کہ جب تک یہ ہاتھ قلم نہیں ہوتے ان میں امن اور محبت کا پرچارک قلم ہی رہے گا، نہ کہ انتشاریا لفافہ۔ راقم الحروف نے ادارتی پالیسی جب کہ خالد میر نے حال حوال کا اداریہ پڑھ کر سنایا۔ حال حوال کے حوالے سے شرکا نے بھی نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جدید صحافتی تقاضوں کو سامنے رکھنے تو ہوئے یہ ادارہ حق و سچ اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرے گی۔
ویب ایڈریس:haalhwal.com
آئیے حال حوال کرتے ہیں!
وقتِ اشاعت : May 10 – 2016