|

وقتِ اشاعت :   22 hours پہلے

ملک میں ٹیکس وصولی ایک بڑا چیلنج بنتا جارہا ہے جس سے قرضوں کی ادائیگی میں حکومت کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا ہے۔
ملک میں اشرافیہ ٹیکس دینے کو تیار ہی نہیں، جتنے اثاثے دکھائے جاتے ہیں اس سے کئی گنا زیادہ ان کے پاس جائیدادیں اور کاروبار ہیں بیشتر تو اپنی رقم بیرون ملک منتقل کرتے ہیں اوروہاںسرمایہ کاری بھی کرتے ہیں جس میں سیاستدانوں سمیت دیگر بھی شریک ہیں جو ملک کی بدقسمتی ہے ۔
ہمارے ہاں بیرونی سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کی دعوت دی جاتی ہے جبکہ ہماری اشرافیہ اور دیگر طبقہ بیرونی ممالک میںسرمایہ کاری کو ترجیح دیتے ہیں اور وہاں کے قوانین کے مطابق ٹیکس باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں ۔
یہ بھی ایک بڑا المیہ ہے کہ ملک میں ٹیکس کی موجودہ پالیسیوں کا ہدف صرف وہ لوگ ہیں جو پہلے سے ہی ٹیکس نیٹ میں شامل ہیں جبکہ قانون سازی کا بنیادی ہدف ان لوگوں کو ہونا چاہیے جو ابھی تک اس نیٹ میں شامل نہیں ہیں۔
آئی ایم ایف کی جانب سے بارہا مطالبہ کیا جارہا ہے کہ ٹیکس نیٹ کو وسعت دی جائے۔
پاکستان میں آئی ایم ایف کے ریزیڈنٹ چیف نے قرضوں کے بوجھ کو پاکستان کے لیے بڑا چیلنج قرار دیا ہے۔
گزشتہ دنوں پاکستان ریٹیل بزنس کونسل کے زیراہتمام منعقدہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان میں آئی ایم ایف کے ریزیڈنٹ چیف ماہیر بنجی نے کہا کہ پاکستان کی اقتصادیات کو جن سنگین چیلنجز کا سامنا ہے ان میں سرفہرست قرضوں کا بوجھ ہے جس کی بنیادی وجہ ٹیکس اکٹھا کرنے کی صلاحیت میں کمی اور آمدن پیدا کرنے میں ناکامی ہے۔ ٹیکسوں کا بڑا دبائو روایتی شعبے پر ہے، رسمی شعبے پر مالی بوجھ کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ کئی مخصوص سیکٹرز قومی خزانے میں اپنا حصہ نہیں ڈال رہے۔
بزنس کونسل سے خطاب میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ملک بے جا مراعات کا متحمل نہیں ہو سکتا، رائٹ سائزنگ کا مکمل پلان تیار کرلیا ہے، معیشت میں ریٹیل سیکٹر کا حصہ 19 فیصد جب کہ ٹیکسوں میں ایک فیصد ہے، مصنوعی ذہانت استعمال کرکے ٹیکس بڑھائیں گے، مینو فیکچرنگ خدمات اور تنخواہ دارطبقے پر ٹیکسوں کابوجھ غیر متناسب ہے، تمام شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں آنا ہوگا، زراعت‘رئیل اسٹیٹ اور ریٹیل کے شعبوں کوبھی اپنا کردارادا کرنا ہوگا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ 9400 ارب روپے کیش کو دستاویزی شکل دینی ہے، قومی ائیر لائن کی نجکاری دوبارہ کرنے جارہے ہیں، 30 جون تک تمام اداروں کی رائٹ سائزنگ کا عمل مکمل کریں گے۔
معیشت درست سمت میں جا رہی ہے، اصلاحات سے ٹیکس وصولیوں میں اضافہ ہوا ہے، اپنے معاشی اہداف کا مکمل ادراک ہے، پائیدار معاشی استحکام کے لیے تمام اقدامات کیے جائیں گے، اس وقت 2 ماہ کی درآمدات کیلئے زرمبادلہ موجود ہے، کائیبور جو 23 فیصدتک پہنچ چکا تھا اب 11فیصد کی سطح پر آگیا ہے۔
بہرحال ملک میں اس وقت بھی مہنگائی کی شرح میں کمی کے ثمرات عوام کو نہیں پہنچ رہے جبکہ ٹیکسز کا بڑا بوجھ نچلے طبقے کو مالی حوالے سے بہت زیادہ متاثر کررہا ہے اورجو شعبے بھرپور منافع کمارہے ہیں وہ ٹیکسز میں اپنا حصہ بہت کم ڈال رہے ہیں جس سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں اور قومی خزانہ پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا جارہا ہے۔
جب تک موثرمنصوبہ بندی سمیت اصلاحات پر سختی سے عملدرآمد نہیں کیا جائے گا ٹیکس اہداف کی وصولی میں مشکلات برقرار رہیں گی اور شرح سود میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا جس سے معاشی تنزلی پیدا ہوگی ۔
حکومتی سطح پر سخت اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے وگر نہ ملک قرضوں تلے آئندہ کئی دہائیوں تک چلتا رہے گا لہذا سرمایہ کاری کو بڑھانے، آمدن میں اضافہ، ٹیکس نیٹ میں وسعت لانے کیلئے سنجیدگی کے ساتھ اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں قرضوں سے نجات کے ساتھ ملک اپنی معیشت کے سہارے چل سکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *