وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ بلوچستان کے دانشوروں کو تاریخ کے تلخ حقائق سے سیکھنے اور آنے والی نسلوں کو صحیح سمت دکھانے کی ضرورت ہے ہمیں اس سوچ کا جائزہ لینا ہوگا کہ آزادی کی جنگ حاصل ہے یا لاحاصل ؟ کیونکہ پاکستان ایک ایسی ریاست ہے جس نے ہمیشہ ملک توڑنے کی سازشوں کا مقابلہ کیا اور متحد رہا بلوچستان میں دہشت گردی کی موجودہ لہر کا آغاز بھی عدالتوں کے سامنے سے ہوا جہاں جسٹس نواز مری کو شہید کیا گیا اور بعد ازاں ان کے ورثاء نے نواب خیر بخش مری اور ان کے بیٹوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی نواب مری نے تو گرفتاری دے دی لیکن ان کے بیٹے بھاگ گئے یہیں سے ناراض بلوچ کا سلسلہ شروع ہوا جس نے صوبے کو دہشت گردی کی آگ میں جھونک دیا ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو بلوچستان ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا اس موقع پر صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن پاکستان میاں روف عطاء، صدر بلوچستان ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن میر عطاء اللہ لانگو نے بھی خطاب کیا
اپنے خطاب میں وزیر اعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ کوئٹہ میں اسکول، کالج، عدالتیں آج آباد ہیں لیکن دہشت گرد غائب و برباد ہیں یہ ہماری ریاست کی کامیابی ہے انہوں نے کہا کہ میری ہمیشہ خواہش رہی کہ قانون کے رکھوالوں سے براہ راست ملاقات ہو بلوچستان کے وکلاء نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے پناہ قربانیاں دی ہیں اور ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ علیحدہ ریاست کا خواب نظریاتی بنیادوں پر پروان چڑھایا گیا اور شدت پسندی کے ذریعے بلوچستان کو قتل و غارت گری کا سامنا کرنا پڑا اس کے برعکس غوث بخش بزنجو جیسے رہنماؤں نے سیاسی جدوجہد سے حقوق حاصل کرنے کی روایت ڈالی ہمیں ان جیسے رہنماؤں سے سیکھنا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ پاکستان کا قومی پرچم جلایا گیا، اور بی وائے سی جیسی تنظیموں کی تقاریب میں آزادی کے ترانے گائے گئے جو آئین پاکستان کی صریح خلاف ورزی ہے افسوس ناک امر یہ ہے کہ جب ان تنظیموں کے خلاف کارروائی ہوتی ہے تو وکلاء ان کی وکالت کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں کیا آئین یہ کہتا ہے کہ دہشتگردوں کی نمائندگی کی جائے؟ میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا گیا، اقوام متحدہ میں پاکستان کی مخالفت کی گئی اور پشتون زلمے کے نام پر پراکسی وار چھیڑی گئی موساد اور را جیسی ایجنسیاں پاکستان میں بدامنی کے لیے متحرک رہیں اور اس میں ہمارے ہی بعض دانشوروں کو استعمال کیا گیا
وزیر اعلیٰ نے واضح کیا کہ بھارت کا انجام بتاتا ہے کہ پاکستان کو تشدد سے توڑا نہیں جا سکتا بلوچ علیحدگی تحریک کا انجام بھی ترکی کی کردستان تحریک جیسا ہو گا ایک دن بلوچ نوجوان خود سوال کرے گا کہ اسے بندوق کی طرف کیوں دھکیلا گیا ؟ انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ غلط تصور ختم کرنا ہوگا کہ جتنے پنجابی یا فوجی مارے گئے وہ سب ایجنٹ تھے۔ معصوم شہریوں کا قتل کسی بھی بلوچ ثقافت کا حصہ نہیں ہو سکتا ہم حکومت کی حیثیت سے ہمیشہ مظلوم کے ساتھ کھڑے ہیں بی وائی سی کے جلسے آئین کے مطابق نہیں وزیر اعلیٰ نے سوال کیا کہ بشیر زیب جیسے افراد کو یہاں آ کر تقریر کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ یقیناً پاکستان کا قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا وزیر اعلیٰ نے کہا کہ سعید بادینی جیسے دہشتگرد نے خود کش حملے کیے میں نے اس کا انٹرویو کیا اس نے ہمیں مرتد کہا اور ہمارے قتل کی سازش کا اعتراف کیا میر سرفراز بگٹی نے اس موقع پر بلوچستان ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکلاء کے لئے پانچ کروڑ روپے کی گرانٹ، وکلاء ہاؤسنگ اسکیم، ہیلتھ انشورنس، لائیبریری، خواتین وکلاء کے لیے پنک سکوٹیز اور پنک وین، اور وکلاء کے لیے شٹل سروس بسوں کی فراہمی کا اعلان بھی کیا جبکہ بلدیہ پلازہ میں مناسب کرائے پر چیمبرز اور دفاتر کی فراہمی کی یقین دہانی بھی کرائی
انہوں نے کہا کہ اندرون بلوچستان وکلاء کی بہبود کیلئے قابل عمل اقدامات اٹھائے جائیں گے انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ترقی کا سفر جاری ہے سڑکیں تعمیر ہو رہی ہیں فاصلے سمٹ رہے ہیں بیڈ گورننس اور کرپشن دہشت گردی کو جنم دیتی ہے اس کا خاتمہ ہماری ترجیح ہے احتجاج ہر شہری کا حق ہے لیکن اس کے لیے جگہ کے تعین کا اختیار حکومت کا ہے وزیر اعلیٰ نے وکلاء پر زور دیا کہ وہ قانون و انصاف کے علمبردار بنیں اور انتہا پسندی کے بجائے آئینی راستوں کو اپنائیں تاکہ بلوچستان میں پائیدار امن اور ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے تقریب میں صوبائی وزیر صحت بخت محمد کاکڑ، ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان عدنان بشارت بھی موجود تھے
Leave a Reply