|

وقتِ اشاعت :   12 hours پہلے

اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن، یونیورسٹی آف تربت اور ایڈمنسٹریشن اسٹاف نے حکومت بلوچستان کی جانب سے جاری کردہ ایک مبینہ غیر آئینی اور غیر قانونی نوٹیفکیشن کے خلاف تربت یونیورسٹی میں ایک احتجاجی مظاہرہ کیا۔ اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن اور ایڈمنسٹریشن اسٹاف نے ایک پُرامن ریلی کیبورڈ چوک سے نکالی، جو یونیورسٹی کے ایڈمنسٹریشن بلاک پر پہنچ کر دھرنے کی صورت اختیار کر گئی۔

ریلی میں شریک ملازمین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے، جن پر ان کے آئینی و قانونی مطالبات درج تھے۔ یونیورسٹی کے تمام ملازمین نے اس احتجاج میں بھرپور شرکت کی اور حکومت بلوچستان کو واضح پیغام دیا کہ وہ اپنے جائز حقوق سے کسی صورت دستبردار نہیں ہوں گے۔

یونیورسٹی آف تربت کی اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن کے نمائندوں نے حکومت بلوچستان کے اُس فیصلے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے، جس کے تحت تمام سرکاری جامعات کے آپریٹنگ اخراجات کی مالی معاونت ختم کر دی گئی ہے۔ اس فیصلے کے مطابق جامعات کو اب اپنی بنیادی ضروریات، جیسے بجلی، انٹرنیٹ، لیبارٹریز، تحقیق، امتحانات، ٹرانسپورٹ اور کیمپس کی دیکھ بھال کے اخراجات، اندرونی ذرائع سے پورے کرنے ہوں گے۔ بلوچستان جیسے وسائل سے محروم صوبے میں، جہاں صنعتی و نجی تعاون نہ ہونے کے برابر ہے، یہ پالیسی نہ صرف غیر حقیقت پسندانہ ہے بلکہ تعلیم دشمن بھی ہے۔

اس غیر دانشمندانہ اقدام کا سب سے بڑا اثر صوبے کے غریب طلبہ پر پڑے گا، جن کی اکثریت دیہی علاقوں سے تعلق رکھتی ہے اور جن کے لیے سرکاری یونیورسٹیاں ہی اعلیٰ تعلیم کا واحد ذریعہ ہیں۔ فیسوں میں بے تحاشا اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، جو موجودہ سالانہ 14,000 روپے سے بڑھ کر 60,000 روپے یا اس سے بھی زائد ہو سکتی ہے۔ یہ اضافہ ہزاروں طلبہ کے لیے تعلیم چھوڑنے یا ان کے مستقبل کے دروازے بند ہونے کے مترادف ہوگا۔

احتجاجی دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن اورایڈمنسٹریشن کے نمائندگان نے حکومت بلوچستان کے فیصلے کو تعلیمی اداروں کے وقار، خودمختاری اور ملازمین کے بنیادی حقوق پر سنگین حملہ قرار دیا۔ مقررین کا کہنا تھا کہ جامعات کے ملازمین کے الاؤنسز کا خاتمہ نہ صرف ان کے معاشی استحکام کے خلاف ہے بلکہ یہ تعلیمی نظام کی بنیادوں کو بھی کمزور کرے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب حکومتی نمائندے خود بے تحاشہ مراعات سے مستفید ہو رہے ہیں، تو اعلیٰ تعلیمی اداروں کے ملازمین کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنا سراسر ناانصافی ہے۔ ایک تعلیم یافتہ معاشرہ ہی ایک باوقار قوم کی بنیاد رکھتا ہے، اور اگر جامعات کو نظرانداز کیا گیا تو یہ قومی ترقی کے لیے ایک سنگین خطرہ بن جائے گا۔

مقررین نے اعلان کیا کہ اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن، ایڈمنسٹریشن اسٹاف اور تمام ملازمین اس فیصلے کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں اور اپنے آئینی و قانونی حقوق کے حصول کے لیے ہر فورم پر آواز بلند کرتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ جدوجہد پُرامن، آئینی اور قانونی دائرہ کار میں جاری رہے گی، جب تک حکومت بلوچستان اپنا فیصلہ واپس نہیں لیتی۔

آخر میں، مظاہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر اس متنازعہ نوٹیفکیشن کو منسوخ کرے اور تعلیمی اداروں کو درپیش مالی بحران کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے۔ بصورت دیگر، احتجاج کا دائرہ وسیع کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے تمام والدین، اساتذہ، طلبہ تنظیموں اور سول سوسائٹی سے اپیل کی کہ وہ متحد ہو کر اس تعلیم دشمن پالیسی کے خلاف آواز بلند کریں، تاکہ بلوچستان کے نوجوانوں کا مستقبل تاریک ہونے سے بچایا جا سکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *