|

وقتِ اشاعت :   May 24 – 2016

کوئٹہ : بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی ترجمان نے نیشنل پارٹی کی جانب سے پارٹی قائد پر تنقید کو اپنے آپ کواخبارات میں زندہ رکھنے کی ناکام کوشش قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حقیقی حکمرانوں کا تعمیری تنقید پر سیخ پانہ ہونا شیوہ نہیں ہوتا جذبات میں آ کر سیاسی اقدار اور اخلاقیات کو اپنے پاؤں تلے روندنا اس بات کی غمازی ہے کہ حکمران جماعت نظریاتی پارٹی نہیں بلکہ موقع پرستوں اور مفاد پرستوں کا ٹولہ ہے جو اقتدار کے حصول کی خاطر یکجا ہیں دلائل اور منطق کی بجائے ذاتیات پر اترکر بیانات داغنا اس بات کی نشاندہی ہے کہ حکمران جماعت نظریاتی نہیں بلکہ ٹانگہ پارٹی ہے جن میں اب تک کوئی باشعور افراد کی کمی بڑی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے ہم ان کی ذہنی کیفیت کو سمجھ سکتے ہیں کہ نیشنل پارٹی کس ذہنی کوفت سے گزر رہی ہے ایسے حالات میں ایسے بیانات دینا ڈوبتے کو تنکے کے سہارے کے مترادف ہے ہم انہیں یاد دلانا چاہتے ہیں کہ بی این پی نے خزانہ لیکس میگا کرپشن کا راز فاش کیا نہ ہی اس سے پردہ اٹھایا نیب نے الماریوں ، ٹینکوں، بیکریوں سے خزانہ لیکس کے پیسے بٹورے اور سیکرٹری خزانہ کو گرفتار کیا اس سے تحقیقات کے بعد بہت سے لٹیروں کی تلاش شروع کی لیکن خزانہ لیکس راز افشاں ہونے کے بعد ٹانگہ پارٹی سیاسی بوکھلاہٹ کے عالم میں اخلاقی پستی کا شکار ہو چکی ہے کہ وہ اپنے چہر ے پر لگے کالک کوچھپانے کیلئے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہے شاید وہ اس خام خیالی میں ہیں کہ ایسے جذباتی بیانات دینے سے ان کے چہروں پر لگی بلوچوں کے خون اور خزانہ لیکس کے داغ مٹ سکیں گے ہر باشعور بلوچ جان چکا ہے کہ ان کے ہاتھ اور چہرے بلوچ خون سے رنگے ہیں 2013ء کے جعلی انتخابات میں انہیں بلوچوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا ٹاسک دیا گیا تھامن گھڑت بیانات کے ذریعے خزانہ لیکس سے عوام کی توجہ ہٹانے کی ناکام کوشش ہے اکیسویں صدی میں عوام کو ایسے جذباتی اور اپنی چوری چھپانے کیلئے ایسے بیانات دینے سے معاملات حل نہیں ہو تے انہیں چاہئے کہ جس ادارے نے ان کے خلاف 40ارب روپے کی چوری کا بھانڈا پھوڑااس کے زبان دارازی کر کے بیانات دے اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے مقدمات کا سامنا کرے جذباتی ہو کر من گھڑت بیانات دینا چور کی داڑھی میں تنکے کے مترادف ہے پارٹی قائداختر جان مینگل اور ان کے آباؤ اجداد کی سیاسی زندگی کھلی کتاب کی مانند ہے جنہوں نے پوری زندگی ثابت قدم ہو کر سیاسی جدوجہد کی ہر مشکل حالت کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا اور بلوچ قومی تحریک میں ان کے کردار ، عمل اور جدوجہد سے انکار کرنا ممکن نہیں آج تک پارٹی قائد پر ایک پیسے کے کرپشن کا الزام نہیں لگا لیکن متوسط طبقے کے دعوؤں کے مکروہ چہرے ڈھائی سالہ دور حکومت میں عیاں ہو گئے اور اب یہ افواہیں حقیقت میں تبدیل ہو چکی ہیں قندھاری بابا کے ذریعے اربوں روپے دبئی ،ماسکو ،مسقط ، کینیڈا منتقل کئے جا چکے ہیں جو وہاں پر محالات کی تعمیر کے مد میں استعمال ہو رہے ہیں اب تو نیب نے صرف لوکل گورنمنٹ کی تحقیقات میں اربوں روپے کی کرپشن منظر لایا ابھی تک ایمبولینس ، جعلی ادویات ، بلڈوز گھنٹے ، زراعت سابق حکومت میں ایری گیشن اور سکالرشپ کی مد میں اربوں کے میگا سکینڈل آنے باقی ہیں یہاں تک ایم پی ایز کے بچوں کو بھی غریب بچوں کے کوٹے پر بیرون ملک بھیجا گیا موصوف کا اپنا بچہ میں ان لاڈلومیں شامل ہے لوگ اب تک وہ واقعہ بھی نہیں بھولے کہ ایم پی ہاسٹل سکینڈل جس میں اغواء برائے تاوان کی رقم طلب کی گئی اور جان امان پانے کیلئے بہت سے پاپڑ بیلنے پڑے پہلے ٹانگہ جماعت کے لوگوں پرپہلے کوچوں کی لوٹ مار ، اغواء برائے تاوان ، سائیکل چوری کے مقدمات بنائے جاتے تھے اب تو الماریوں ، ٹنکیوں ، بیکریوں کے خزانہ لیکس پر ڈالر ، پونڈ ، یورو ، ہیرے اور سونے کی برآمدگی کے مقدمات بنائے جا رہے ہیں مستقبل میں نہ جانے کس کس چیز کے مقدمات ان پر قائم کئے جائیں گے اخلاقی طور پر یہ اپنی پوزیشن مزیدکمزور کرنے کی بجائے خاموش رہتے تو اس میں ان کے جان کی امان تھی لیکن ذہنی کیفیت کا یہ عالم ہے کہ کبھی پارٹی قائد سردار اختر جان مینگل ، کبھی دیگر جماعتوں کے اکابرین سے الجھ رہے ہیں یہ اب حد ہو چکی ہے کہ وہ صحافت پر قدغن لگانے کیلئے ہرجانے دعوے کر رہے ہیں کیا یہ اقدامات نام نہا د دانشوروں ، سیاستدانوں کا شیوا ہے؟ جہاں تک وڈھ کے حالات کا تعلق ہے یہ خالصتا ایک سیاسی مسئلہ ہے پارٹی قائد سردار اختر جان مینگل کو جھالاوان کی سیاست اور جدوجہد سے دور رکھنے کیلئے ڈیتھ سکواڈ کے سربراہ کو اسی پارٹی کے ایک وزیر کی شہ دینے ، مالی معاونت پر خضدار ، وڈھ میں پارٹی دوستوں کو قتل و غارت گری کا نشانہ بنایا گیا تاکہ خضدار کے غیور بلوچوں کو پارٹی سے دور رکھا جائے اور اب اس سیاسی مسئلے کو قبائلی رنگ دینا ممکن نہیں جھالاوان کے غیور بلوچ بخوبی جانتے ہیں کہ ڈیتھ سکواڈ کو کس مقصد کیلئے بنایا گیا تھا اور ڈیتھ سکواڈ کے ذریعے وہاں پر خون کی ہولی کھیلنے سے بھی گریز نہیں کیا گیا 2013ء میں انتخابات میں اسی ٹانگہ پارٹی نے انہی لوگوں کی انتخابات میں حمایت کی تھی اور یہ تمام غیر سیاسی و جمہوری قوتیں یکجا ہونے کے باوجود سردار اختر جان مینگل کو الیکشن میں شکست دینے سے قاصر رہیں کیونکہ وڈھ ، خضدار ، جھالاوان کے عوام اپنے اچھے اور برے میں بخوبی تمیز کر سکتے ہیں وہ باعلم ہیں کہ وہ کونسے لوگ ہیں جو مخبری اور مفادات پرستی کے ذریعے عوام کے خون سودا لگاتے ہیں ان کا محور اور مقصد اقتدار حاصل کر کے اپنے گروہی مفادات کی تکمیل کرنا ہے میگا کرپشن سکینڈلز نے ثابت کر دیا ہے کہ ان کی سیاست متوسط طبقے کی نمائندگی کا دعوی کرنا ہے جو عوام کی آنکھوں میں محض دھول جھونکنا ہے نہ تو وہ بلوچ عوام کے ساتھ نہ ہی اس شخص کے ساتھ مخلص ہیں جس نے نیشنل پارٹی کی بنیاد رکھی گزشتہ دنوں اپنے ہی پارٹی کے بانی کے بارے میں جس طرح اخلاقی پستی کا مظاہرہ کیا گیا اس سے بہت سی چیزیں واضح ہو گئی کہ یہ کتنے محسن دشمن لوگ ہیں بہروپیئے ان کی فاداری کی زندہ مثال ڈاکٹر صاحب ہیں جب ان کے پاس مال و دھن وافر مقدار میں آیا تو انہوں نے ڈاکٹر حئی بلوچ سے وفاداری کا مظاہرہ کیا اور چنددن اپنی پارٹی کا اجلاس طلب کر کے احتساب کیلئے خود کو پیش کر کے ہفتے میں احتساب کا فیصلہ کیا کہ کیسے ممکن ہے کہ چور کا ٹولہ خود منصف بن جائے بلوچ باشعور باعلم قوم ہے انہیں پتہ ہے کہ بلوچستان میں خونی کی حولی کھیلی گئی ،مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئیں، انسانیت سوز توتک واقعہ پیش آیا ، بلوچستان کی مائیں بہنوں ٹانگہ پارٹی کی بدولت آج خون کے آنسو رو رہی ہیں مائیں آج بھی اپنے پیاروں کی راہ تھک رہے ہیں جبکہ دوسری جانب اقتدار کی منزل تک پہنچنے کیلئے ان ظالموں نے بلوچستان پر کتنے مظالم ڈھانے کے احکامات صادر فرمائے اس کی مثال نہیں ملتی بلوچستان میں بلواسطہ یا بلاواسطہ آپریشن کو جائز قرار دینے والے آج اپنی رہی ساکھ کو بچانے کیلئے سرکردہ دکھائی دیتے ہیں ہمیں ان کی بے بسی پر پر کبھی رحم نہیں آئے گا کیونکہ انہوں نے بلوچوں کی نسل کشی کی ، صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے تمام اقدامات کئے اور ضمیر کا سودا لگانے سے بھی گریز نہیں کیا کیا آپریشن ، معصوم نہتے لوگوں کی قتل و غارت گری میں ملوث لوگوں کو بلوچ مائیں بہنیں بھول سکتے ہیں آج وہ اپنے آبائی گاؤں فاتحہ خوانی کیلئے بندوق کے سنگینوں کے آثار کے باوجود فاتحہ خوانی پر نہیں جا سکتے اور منہ چھپاتے پھر رہے ہیں اقتدار ، مال و دھن کی حوس میں وہ اتنے اندھے ہو چکے تھے کہ انہوں نے تمام حدیں پار کر دیں آج ان کا عالم ایسا ہے کہ (نا خدا ملا نہ وصال صنم ۔ نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے ہم ) جب ایسے مشکلات کا انہیں سامنا کرنا پڑے گا تو ٹانگہ پارٹی کے اکابرین کی ذہنی کیفیت ایسی ہی ہو گی