کوئٹہ : نیب نے مشتاق رئیسانی کرپشن کیس میں سابق مشیر خزانہ بلوچستان خالد لانگو کو گرفتار کرلیا۔ انہیں بلوچستان ہائی کورٹ سے درخواست ضمانت مسترد ہونے پر عدالت کے باہر سے تحویل میں لیا گیا۔ سابق مشیر خزانہ میر خالد لانگو کی جانب سے ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست کی سماعت بلوچستان ہائی کورٹ کے جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس ہاشم کاکڑ پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کی۔ خالد ہمایوں لانگو کی جانب سے سابق چیئرمین سینیٹ سپریم کورٹ کے وکیل فاروق ایچ نائیک اور بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر باز محمد کاکڑ جبکہ نیب کی جانب سے ڈپٹی پراسکیوٹر جنرل چوہدری ممتاز یوسف اور تفتیشی افسران پیش ہوئے۔سماعت کے دوران عدالت نے خالد لانگو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو ضمانت کیوں دی جائے۔ اگر اپ کے ہاتھ صاف ہیں تو نیب کے سامنے کیوں پیش نہیں ہوتے۔ جس پر خالد لانگو کے وکلاء نے کہا کہ ان کے مؤکل کو سیاسی بنیادوں پر اس کیس میں ملوث کیا جارہا ہے۔ ڈر ہے کہ کہیں خالد لانگو کو گرفتار نہ کیا جائے اس لئے ضمانت کی درخواست دائر کی۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ خالد لانگو کے خلاف اس کیس میں کرپشن کا کوئی ثبوت نہیں۔ اس لئے وہ ضمانت قبل از گرفتاری کے مستحق ہے۔ اگر ضمانت دی جاتی ہے تو ان کا مؤکل نیب کے ساتھ مکمل تعاون کرے گا اور تمام شواہد اورمعلومات جو ان کے پاس ہیں سب نیب کے سامنے رکھے گا۔ عدالت کے استفسار پر نیب کے وکلاء نے بتایا کہ مشتاق رئیسانی کرپشن کیس تقریبا چھ ارب روپے کا ہے۔ عدالت نے نیب کے وکلاء سے پوچھا کہ آپ کے پاس کیا ثبوت ہیں کہ مشتاق رئیسانی کے گھر سے صرف پینسٹھ کروڑ روپے ہی برآمد ہوئے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ وہ جب وکیل تھے تو پراسکیویشن نے ایک ملزم کو پیش کیا اور بتایا کہ اس سے ایک کلو چرس برآمد ہوئی ہے لیکن ملزم کا کہنا تھا کہ پولیس جھوٹ بول رہی ہے اس کے پاس تو تین کلو چرس تھی۔ نیب کے وکلاء نے عدالت کو بتایا کہ مشتاق رئیسانی کے گھر پر چھاپے کے وقت تمام متعلقہ حکام موجود تھے۔ ان کے سامنے رقم کی گنتی کی گئی۔ عدالت کے پوچھنے پر نیب کے ڈپٹی پراسکیوٹر جنرل نے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزار کو یکم مئی 2016ء کو طلب کیا گیا تھا لیکن وہ پیش نہیں ہوئے۔ تین بار سمن جاری ہونے کے باوجود پیش نہ ہونے پر نیب نے ملزم کے وارنٹ گرفتاری پہلے ہی جاری کردیئے ہیں اس لئے درخواست قبل از گرفتاری بے ثمر ہوگئی ہے ۔ درخواست گزار کے خلاف ریکارڈ پر کافی ثبوت سامنے آگئے ہیں جو انہیں اس کیس کے ساتھ جوڑتی ہے۔فاروق ایچ نائیک اور باز محمد کاکڑ نے مؤقف اختیار کیا کہ خالد لانگو کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنا بد نیتی پر مبنی اقدام ہے۔ درخواست گزار کا کرپشن کے اس کیس اور سیکریٹری خزانہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔ اور ریکارڈ پر بھی ایسے کوئی شواہد دستیاب نہیں جس سے خالد لانگو کا اس کیس سے کوئی تعلق ثابت ہوتا ہے۔ درخواست گزار قبل از گرفتاری ضمانت کے حقدار ہے۔ عدالت نے خالد لانگو اور نیب کے وکلاء کے دلائل سننے کے بعد خالد لانگو کی درخواست ضمانت قبل از گرفتاری مسترد کردی ۔ اپنے فیصلے میں دو رکنی بنچ نے قرار دیا ہے کہ درخواست گزار نے ضمانت کی درخواست گرفتاری کے خدشے کی بنیاد پر دائر کی ہے ۔ یہ چونکہ پیشگی ضمانت کی درخواست ہے ۔ جبکہ نیب کی جانب سے وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے بعد درخواست کی نوعیت بدل گئی ہے ۔ درخواست گزارنے نیب آرڈیننس کے سیکشن19کے تحت جاری کئے گئے نوٹس کو چیلنج کیا ہے ۔ یہ آرڈیننس ہر شہری کو پابند کرتا ہے کہ وہ طلب کئے جانے پر نیب اتھارٹی کے سامنے پیش ہو اور اگر کوئی معلومات اور شواہد ہیں تو وہ فراہم کرے ۔ بحیثیت رکن صوبائی اسمبلی درخواست گزار سے یہ توقع تھی کہ وہ نیب حکام سے تعاون کریں گے کیونکہ وہ متعلقہ وقت میں محکمہ خزانہ کے ذمہ دار تھے لیکن وہ ایساکرنے میں ناکام رہے۔ درخواست گزار کے وکلاء نیب کی جانب سے نوٹس کے اجراء کے معاملے میں کسی غلطی، بے ضابطگی یا دائرہ اختیار سے تجاویز کی نشاندہی میں بھی ناکام رہے اس لئے درخواست قبل از گرفتاری دینے کا کوئی جواز نہیں بنتا ۔ عدالت نے یہ بھی قرار دیا کہ درخواست گزار کے وکیل نے خود مؤقف اختیار کیا تھا کہ مشیر خزانہ کی حیثیت سے خالد لانگو کے پاس کوئی اختیارات نہیں تھے اور تمام اختیارات وزیراعلیٰ بلوچستان کے پاس تھے ۔ایسے حالات میں درخواست گزار کے کیس میں ملوث ہونے کو بد نیتی قرار نہیں دیا جاسکا ۔ درخواست گزار کے وکیل یہ بات ثابت کرنے میں بھی ناکام رہے کہ وارنٹ گرفتاری بد نیتی کی بنیاد پر جاری کئے گئے ہیں۔ محکمے کا سربراہ یعنی سیکریٹری خزانہ اور شریک ملزم پہلے ہی نیب کی حراست میں ہے۔ اس کیس کے شریک ملزم نے وارنٹ گرفتاری کی معطلی کیلئے اس عدالت سے رجوع کیا تھا تاہم عدالت نے ان کی گرفتاری قبل از ضمانت کو رد کردیا۔ یہ مقدمہ بھی اسی قسم کا ہے اس لئے عدالت کوئی تفریق نہیں کرسکتی ۔ درخواست گزار کے خلاف جو الزامات لگائے گئے ہیں وہ ناقابل ضمانت ہے اس لئے ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست مسترد کی جاتی ہے۔ درخواست مسترد ہونے پر خالد لانگو عدالت سے باہر آئے اور وکلاء کے ہمراہ اپنی گاڑی میں ہائی کورٹ کی عمارت سے باہر جانے کی کوشش کی تاہم نیب کے اہلکاروں نے انہیں گاڑی سے اتار کر اپنی تحویل میں لے لیا اور نیب کے ہیڈ کوارٹر منتقل کردیا۔نیب ترجمان کا کہنا ہے کہ خالد لانگو کوآج جمعرات کو احتساب عدالت کوئٹہ کے سامنے پیش کیا جائیگا۔ نیب کے وکلاء خالد لانگو کو جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کرنے کی درخواست کریں گے۔ یاد رہے کہ خالد ہمایوں لانگو نے سیکریٹری خزانہ بلوچستان کی گرفتار کے بعد وزیراعلیٰ بلوچستان کے مشیر برائے خزانہ کے عہدے سے استعفیٰ دیا دیا تھا۔ اس دوران نیب کی جانب سے خالد ہمایوں کو نیب آرڈیننس کے سیکشن19کے تحت پوچھ گچھ اور ثبوت دینے کیلئے نیب کے روبرو پیش ہونے کی ہدایت کی گئی ۔ نیب حکام نے خالد لانگو کو سمن میں بارہ مئی کو نیب کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ آپ اس پوزیشن میں ہے کہ کیس سے متعلق معلومات یا شواہد فراہم کرسکے ۔ نوٹس میں ہی بھی کہا گیا تھا کہ نوٹس پر عمل کرنے میں ناکامی پر نیب آرڈیننس 1999کے تحت تعزیری کارروائی کی جاسکتی ہے۔ اس دوران خالد لانگو نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے انتیس مئی تک حفاظتی ضمانت حاصل کی۔
سابق مشیر خزانہ میر خالد خان لانگو کو آج احتساب عدالت میں پیش کریں گے نیب ترجمان کے مطابق سابق مشیر خزانہ میرخالد خان لانگو کو ریمانڈ حاصل کرنے کیلئے احتساب عدالت میں پیش کیا جائے گا سابق مشیر خزانہ میر خالد خان لانگو کو گزشتہ روز حفاظتی ضمانت منسوخ ہونے کے بعد بلوچستان ہائی کورٹ کے احاطے کے نیب حکام نے گرفتار کیا تھا ۔