’’پنجاب بہت تیز ہے‘‘ آپ شاید حیران ہوں کہ اگر پنجاب اتنا ہی تیز ہے تو اب تک ہمالیہ کے اس پار یا جوج و ماجوج کی فصیل چاٹتی قوم تک کیوں پہنچ نہیں سکی؟ البتہ آپ نے سنا ہوگا اور ہمارے بیور وکریٹس اکثر یہ جملہ بڑے فخر کے ساتھ دہراتے رہتے ہیں کہ ’’ پنجاب بہت تیز ہے‘‘ دراصل ان کا حصول مقصود ہے ’’چالاکی ‘ ‘،کہ صوبہ پنجاب کے لوگ ہم سے زیادہ چالاک اور ہوشیار ہیں۔ ان کی یہ رائے مشرقی (ہندوستانی) پنجاب کے بارے میں بالکل نہیں ہوتی بلکہ انکی یہ احسن رائے صرف مغربی (پاکستانی ) پنجاب کے بارے میں ہے کہ یہ لوگ بہت تیز اور چالاک ہوتے ہیں حالانکہ 1947ء سے پہلے یہ دونوں علاقے ایک خطہ رہے ہیں لوگ نسلاً ایک ہی ہیں دونوں کی زبان (رسم الخط کے علاوہ ) بھی ایک ہے موسم اور جغرافیہ بھی ساجھی ہیں لیکن چالاکی اور ہوشیار ی صرف مغربی پنجاب کے لو گوں کے کھاتے میں ہے !ہمارے تعلیم یافتہ حکمران (بلوچ ) اور بیورو کریٹس یوں ہی ہوا میں یہ بات نہیں کرتے بلکہ اپنے تجربے اور عملی علم کے بنیاد پر دلائل کے ساتھ کرتے رہتے ہیں ۔ ماضی میں چالاکی اور ہوشیاری منفی معنوں میں استعمال کی جاتی تھی ’’عقل عامہ کے مطابق لومڑی ایک چالاک جانور ہے بقول ہمارے بیوروکریٹس تیز جانور ہے لیکن سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ جانوروں میں سب سے تیز دماغ والے جانور چیمپئنزئی ہوتے ہیں مگر بدقسمتی سے بیچارے چیمپئنزئی کو یہ اعزاز حاصل نہیں ہے غریب چیمپئنزئی نہ تو چالاک کہلاتے ہیں اور نہ ہی تیز ( گویا ان کا تعلق بھی مشرقی پنجاب سے ہو )بہرحال یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ چالاکی اور تیزپن (لومڑی اور انسان والی دونوں ) کا I.Qسے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ چالاکی اور تیزی رویے (Behaviors)کے زمرے میں آتے ہیں جبکہ رویہ جات کا نہ تو کوئی واسطہ بلواسطہ IQسیہوتا ہے اور نہ ہی انسانی جبلت ووراثت سے بلکہ اس کے برعکس ان کا بلا واسطہ تعلق پرورش ، ماحول خواہشات اور ضروریات سے ہوتا ہے یہ الگ بات ہے کہ ہمارے پاکستانی معاشرے میں چالاکی اور تیزی عقل اور سمجھداری کیلئے بطور استعارہ استعمال کیے جاتے ہیں ہمارے جہانگیر اور ڈوگر برادرز کو رٹا لگانے والے اور لارڈ میکالے کے اصولوں کو ازبر کرنے والے بیورو کریٹس تیزی کو عقل ، سمجھداری اور علم کی تعریف سے مشتبیہ کرتے ہیں ۔ان کے خیال میں ہم اس لئے پسماندہ نہیں ہیں کہ ہمارا استحصال کیا جاتا ہے ہماری گیس رائلٹی واپس نہیں کی جاتی ‘ ریکوڈک اور سیندھک کا حساب و کتاب ہمارے ساتھ نہیں کیا جاتا ، ہماری ائیر اسپیس اور بحری راستوں کے ٹیکس کا کوئی ایک فیصد بھی ہمیں نہیں ملتا وفاقی ملازمتوں میں بلوچستان کے کوٹے پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا بلکہ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم تیز نہیں اور اہل پنجاب تیز بلکہ بہت زیادہ تیز ہیں ہم نالائق اور پسماندہ ہیں اور وہ با صلاحیت اور خوشحال ہیں قارئین کرام! حسب عادت ہم نے ایک دفعہ تنگ آ کر ایک بیورو کریٹ سے استداء کی کہ پنجاب کی ذہانت کی کوئی مثال ‘ کوئی ثبوت ؟تو بیورو کریٹ صاحب گویا ہوئے کہ ‘‘ دیکھیں! ذرداری حکومت میں آغاز حقوق بلوچستان کا اعلان کیا گیا ایک پیکج کے تحت بلوچستان میں بلوچوں کو پانچ ہزار (وفاق پانچ ہزار نوکریوں کا دعوے دار ہے مگر ان میں دو ہزار ہمارے برابری کا دعویٰ کرنے والے ہمسایہ جبکہ 15سو کے قریب اردو ، پنجابی ، سندھی ، سرائیکی اور ہزارگی اسپیکینگ میرٹ پر لے گئے! بلوچ کے لئے کیا خاک بچا ؟یہ تو بلوچ پر خدا کا احسان ہے کہ ہمارے ساتھ برابری کے دعویٰ دار نوکریوں کی بندر بانٹ میں براہوئی اسپیکینگ لوگوں کو غیر بلوچ تصور نہیں کرتے ) نوکریاں دی گئیں ۔رئیسانی دور حکومت میں ان ملازمین کی تنخواہوں کا بوجھ (بادل نخواستہ )وفاقی حکومت برداشت کرتی رہی لیکن جونہی کیچی حکمران ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی حکومت آگئی تو پنجاب کے تیز بیورو کریٹس نے بلوچستان کے کم تیز اور کم چالاک بیورو کریٹس اور میرٹ والے حکمرانوں پر دو ٹوک الفاظ میں واضح کردیا کہ وفاق اب مزید یہ بوجھ برداشت نہیں کر سکے گا اور وزیراعلیٰ کو باورکروایا گیا کہ پانچ ہزار نوکریاں کوئی پیکج و یکج نہیں بلکہ وفاق پر بلوچستان کی طرف سے گیس ، حبکو ،اوچ پاور اور گیس ٹربائن کی مد میں پیدا کی جانے والی بجلی ، ریکوڈک ، سیندھک ، گوادر ، جیونی ، پسنی ، سونمیانی اور اورماڑہ سے حاصل کی جانے والی آمدنی سے واجب الادا بلوچستان کی وہ رائلٹی ہے جو فاقی حکومت پچھلے 68سالوں سے ادا کرنے سے قاصر رہی ہے اس لئے ان پانچ ہزار نوکریوں کو بشمول ماہانہ تنخواہ جات کے ان رائلٹی میں سے مائنس کیاجائے‘‘ اور پھر بیور وکریٹ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ’’یہ ہوتی ہے تیزی پنجاب کی ، ہمارے بیور وکریٹس اور صوبائی حکومت کے اہل کاروں میں یہ صلاحیت موجود ہی نہیں ہوتی کہ ان کا مقابلہ کریں ان باتوں کا جواب دیں ان تیز لوگوں کی توڑ کریں کیونکہ اہل پنجاب پڑھے لکھے او رچالاک لوگ ہوتے ہیں جبکہ ہمارے لو گ ان پڑھ اور جاہل !،، قائین کرام ! کیا ہم یہ سوال پوچھنے کی جسارت نہیں کر سکتے کہ پھر دھوکہ دہی کسے کہتے ہیں ؟؟؟ فراڈ کے کیا معنی نکالے جائیں ؟دنیا کے تمام ممالک کے بشمول پاکستانی آئین میں دھوکہ دہی ، فراڈ ، وعدہ خلافی ، جھوٹ اور زور وزبردستی کے خلاف تعزیرات کیوں موجودہیں ؟ اقوام عالم اپنے قائد یا نمائندے کی ایک جھوٹ پر ان کا مواخذہ کیوں کرتے ہیں؟ ان کو چالاکی اور تیزی کی سرٹیفیکیٹس دے کر ان کے اعزاز میں تقاریب کا انعقاد کیوں نہیں کیا جاتا ؟ پاکستان ہی میں دھوکہ دہی اور فراڈ کے کیس میں ادارہ ’’ایگزیکٹ ‘‘ کو کیوں بندکیا گیا؟ شیخ صاحب کو گرفتاری کے بجائے ’’ تیزاور‘‘ چالاک ‘‘ کے اعزازات سے نواز کر اسے ہار کیوں نہیں پہنا ئے گئے؟ حالانکہ وہ جٹ بلوچوں کو چھوڑ ئیے یورپ اور امریکا کو بھی جھانسہ دے گیا۔ قارئین !ایک سوال اور !کیا ہمارے بلوچ بکاؤ حکمرانوں اور بیور وکریٹس کو فراڈ ‘دھوکہ اور عقل کے درمیان فرق سمجھ آتی ہے ؟ کنگ لوتھر نے کہا تھا کہ اگر تم جاننا چاہتے ہو کہ تمہیں کس نے غلام بنا رکھا ہے تو یہ دیکھو کہ تم کس پر تنقید اور کس سے سوال نہیں کر سکتے! جب نیلسن منڈیلا جیل میں تھیتو ایک دفعہ ساؤتھ افریکن صدر اس کے ساتھ مذاکرات کے غرض سے اس سے ملاقات کے لئے جیل گئے اور ان سے کہا کہ’’ ملک میں تمام انتشار اور افراتفری تیری وجہ سے ہے آج میں تم سے مذاکرات کے لئے آیاہوں کہ تم آخر چاہتے کیا ہو؟ اس پر دنیا کے عظیم لیڈر نے افریکن صدر سے کہا کہ’’ میں تمہاری قید میں ہوں ’ تمہارے ایک اشارے پر یہاں کھڑے سپاہی میرے ساتھ کچھ بھی سلوک کر سکتے ہیں تمہارا کہا یہاں جیل میں میرے لیے قانون ثابت ہوگی اور میرا کہا ایک غلام کی بکواس اور گستاخی کے سوا کچھ تاثر نہیں چھوڑ سکے گا اس لئے آقا اور غلام کے درمیان مذاکرات ممکن ہی نہیں آقا حکم دیتا ہے اور غلام کا کام بجا آوری اور تابعداری کے سوا کچھ نہیں ہوتا‘‘ اس طرح نیلسن منڈیلا نے مذاکرات سے صاف انکار کردیا اور سفید فام صدر کو نامراد لوٹنا پڑا !لیکن قارئین کرام جانتے ہوکہ یہاں اہم بات کون سی ہے ؟ اہم بات یہ ہے کہ نیلسن منڈیلا جہانگیراور ڈوگر برادرز کو رٹنے اور لارڈ میکالے کویاد رکھنے والوں سے کوسوں دور تھا ورنہ وہ اسے مذاکرات پر مجبور کرتے اور اس کے بعد افریکن سفید فام صدر تیز اور چالاک گردانے جاتے‘ نہایت سمجھدار شخص کہلاتے جبکہ غلام منڈیلا بے وقوف پسماندہ اور جاہل قرار پاتے۔ ہے نا؟