ایک کہاوت مشہور ہے کہ انسان کا اگر نصیب خراب ہو تو خواہ وہ اونٹ پر ہی کیوں نہ بیٹھ جائے ،کتا اسے ضرور کاٹتا ہے۔ یورو 2016 کے فائنل پر یہ کہاوت سو فیصد صادر آتی ہے. ہوم گراؤنڈ پر اپنے ہی تماشائیوں کی موجودگی میں ٹورنامنٹ کی فیورٹ فرانس کی ٹیم کا سنبھلتی، لڑکھڑاتی، پھونک پھونک کر قدم بڑھاتی، گروپ سطح پر کوئی میچ جیتے بغیر، تیسری پوزیشن پر رہ کر اور صرف بہتر گول اوسط کی بنیاد پر ناک آوٹ مرحلے تک پہنچنے والی پرتگال کی ٹیم سے فائنل مقابلے میں ہار جانے کو اگر اس کہاوت سے تشبیہ نہ دی جائے تو اور کیا کہا جائے۔ میچ کے ابتدائی لمحات میں زخمی ہوکر آنکھوں میں آنسو لیے دنیائے فٹبال کے مایہ ناز کھلاڑی رونالڈو کا بوجھل د ل کے ساتھ گراؤنڈ سے رخصت ہونا حاضرین و شائقین فٹبال کے لیے دکھ بھرا لمحہ تھا. ایسے میں اس بات کے امکانات میں مزید اضافہ ہوگیا تھا کہ اب فرانس کو تیسری بار یورپین چمپیئن بننے سے کوئی نہیں روک سکتا. مگر یہ ہو نہیں سکا. پرتگال کے کھلاڑیوں نے اپنے کپتان کہ عدم موجودگی کی کمی کو خود پر حاوی ہونے نہیں دیا اور بالآخر انہوں نے اضافی وقت میں گول کرکے اپنے کپتان کے غم اور افسردگی کے آنسوؤں کو خوشی کے آنسوؤں میں بدل ڈالا اور وہ کرڈالا کہ ایک نئی تاریخ رقم ہوگئی. یعنی پرتگال پہلی بار کوئی اہم ٹائٹل جیتنے میں کامیاب ہوگیا۔ میچ کے آخری لمحات میں رونالڈو اپنی ٹیم کے کوچ کے ہمراہ کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرتے نظر آئے اور ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے وہ کھلاڑی کی بجائے کوچ بن چکے ہیں .میچ کے اختتام پر اس کی خوشی دیدنی تھی.اوروہ ہر کھلاڑی کے پاس جاکر اس سے گلے ملے اور اسے مبارکباد دی.ٹرافی کے حصول کے بعد وہ اسے چومتے رہے اور تصاویر بناتے رہے۔ماہرین کی نظر میں پرتگال کی ٹیم اس قدر مضبوط نہیں تھی کہ اسے جرمنی، فرانس، اٹلی اور اسپین کی موجودگی میں فیورٹ ٹیموں کی صف میں شامل کیا جاتا. مگر ایسا ہمیشہ سے نہیں رہا. ماضی میں پرتگال یورپ سمیت دنیائے فٹبال کی صف اول کہ ٹیموں میں شمار کی جاتی رہی ہے.7بار یورو کپ کے سیمی فائنل اور دو بار فائنل تک رسائی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ پرتگال دنیائے فٹبال کی بساط کا اہم مہرہ رہا ہے۔یورو 2016 کے دوران کئی اہم واقعات وقوع پذیر ہوئے.اسپین مسلسل دو بار یورو ٹائٹل جیتنے کے بعد اس کا دفاع کرنے میں ناکام رہی اور اٹلی کے ہاتھوں شکست کے بعد ایونٹ سے باہر ہوگئی۔جرمنی کی ٹیم جسے فٹبال پاور ہاوس بھی کہا جاتا ہے 2016 کے دوران اٹلی کی ٹیم بالآخر کسی عالمی یا یورو کپ کے مقابلوں میں پہلی بار شکست سے دوچار کرنے میں کامیاب رہی اس سے قبل کے 8 مقابلوں میں اسے 4 میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جبکہ مقابلے برابری پر اختتام پذیر ہوئے تھے۔دوسری جانب فرانس کی ٹیم بھی 1958 کے بعد پہلی بار کسی عالمی یا یورو مقابلے میں جرمنی کو زیر کرنے میں کامیاب ہوگئی۔جبکہ پرتگال کہ ٹیم بھی کئی دہائیوں بعد فرانس کی ٹیم کو ہرا کر اس سے بدلہ لینے میں کامیاب ہوہی گئی۔یورو 2016 کے دوران مین راؤنڈ میں 24 ٹیموں کی شرکت پر بھی اعتراض اٹھائے گئے..جرمنی کی فٹبال ٹیم کے کوچ یو آ خیم لو نے سیمی فائنل میں فرانس کے ہاتھوں شکست کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مین راؤنڈ میں 24 ٹیموں کی شرکت پر تنقید کی اور کہا کہ پرتگال کی ٹیم بغیر کوئی میچ جیتے (ماسوائے سیمی فائنل کے ) فائنل تک پہنچ گئی۔ماہرین یا مبصرین کی رائے چاہے کچھ بھی ہو، شائقین کو پورے ایک ماہ کے دوران سنسنی خیز مقابلے دیکھنے اور اپنی پسند کی ٹیموں اور کھلاڑیوں کو بھرپور انداز میں سپورٹ کرنے کا موقع ملا اور جیت بالآخر فٹبال اور اس کے چاہنے والوں کی ہوئی.
دنیائے کھیل کے ہر اہم مقابلوں کے بعد اس ایونٹ کے بہترین کھلاڑیوں
مشتمل ایک ٹیم تشکیل دی جاتی ہے جسے اس ایونٹ کی ڈریم ٹیم کا نام دیا جاتا ہے.
یورو 2016 کے دوران بھی یہی کچھ ہوا.دنیا کے بہترین کھلاڑیوں، کو چز اور ماہرین فٹبال نے بھی اپنی اپنی ڈریم ٹیمیں تشکیل دی ہیں .
زیر نظر ٹیم جرمن فٹبال کے ماہرین، سابق کھلاڑیوں اور اسپورٹس جرنلسٹس نے مل کر بنائی .
بہترین الیون یا ڈریم ٹیم کی تشکیل کے لیے گول کیپر سمیت دفاعی، مڈ فیلڈ اور فارورڈ پوزیشن کے لیے ہر کھلاڑی کا انتخاب ایک مشکل مرحلہ بلکہ یوں کہیے جوئے شیر لانے کے مترادف تھا.
اس ٹیم کے لیے گول کیپر کا انتخاب سب سے مشکل مرحلہ تھا. کیونکہ مسلسل تین سالوں سے دنیا کے بہترین گول کیپر جرمنی کے مانوئل نوائر کا مقابلہ دنیائے فٹبال کے اس وقت کے سب سے زیادہ تجربہ کار اور عصر حاضر کے لیجنڈ اٹلی کے بوفون سے تھا. تاہم ماہرین نے نوائر کو بوفون پر ترجیح دی اور اسے بہتر کارکردگی کی بنیاد پر ڈریم ٹیم کا گول کیپر مقرر کیا. دفاعی کھلاڑیوں میں دو کو جرمنی سے چنا گیا جبکہ باقی دو کا انتخاب با الترتیب اٹلی اور پرتگال سے کیا گیا.بہترین الیون کے کھلاڑیوں میں رائٹ بیک کے لیے جرمنی کے یوشوا کمش جبکہ لیفٹ بیک کے لیے پرتگال کے رافائل گوئیریرو کو منتخب کیا گیا جبکہ مرکزی دفاعی کھلاڑیوں میں جرمنی کے جیروم بوٹنگ اور اٹلی کے لیونارڈو بونوچی کو دیگر کھلاڑیوں پر ترجیح دی گئی. 4، 3، 3 سسٹم کے تحت منتخب کی گئی ٹیم میں مڈ فیلڈ کے لیے کے کھلاڑیوں کا انتخاب بھی ایک مشکل مرحلہ تھا .لہذا اس موقع پر ان کھلاڑیوں کا انتخاب کیا گیا کہ جنہوں نے مستقل مزاجی اور انفرادی کارکردگی سے اپنی ٹیم کو کامیابی سے ہمکنار کرانے میں مرکزی کردار ادا کیا.ان کھلاڑیوں میں فرانس کے دیمتری پائٹ، ویلز کے آرون رمزی اور کروشیا کے ایوان پیریزچ شامل ہیں.
ان کھلاڑیوں کے انتخاب سے جرمنی کے میسو ت اوزل اور ٹونی کروس، فرانس کے پوگبا اور سیسیکو ،کروشیا کے مودرج اور راکٹج ، پرتگال کے نانی، اسپین کے انسٹا اور کئی دیگر نامور کھلاڑیوں منتخب ہونے سے رہ گئے.
دوسری جانب بہترین الیون کے لیے چنے گئے تین اسٹرائیکر ز کا انتخاب زیادہ مشکل مرحلہ نہ تھا.کیونکہ فرانس کے انتوئن گریزمن، ویلز کے گیرتھ بیل اور پرتگال کے کرسٹیانو رونالڈو کی موجودگی اور غیر معمولی کارکردگی نے اس انتخاب آسان بلکہ یکطرفہ بنا دیا تھا.
شائقین اور ناقدین فٹبال کو اس ڈریم ٹیم کے انتخاب پر اعتراض ہوسکتا ہے اور وہ اپنی اپنی ڈریم ٹیم بنانے کا حق بھی رکھتے ہیں.