|

وقتِ اشاعت :   July 17 – 2016

بلوچستان کی قوم پرست پارٹیاں ایک دوسرے کے بطن سے پیدا ہوئیں۔ ان کی سوچ و فکر کا محور ایک ہے وہ ایک ہی قوم اور وطن کے مالک ہیں ان کی ثقافت اور روایات میں یکسانیت ہے زبان کی مٹھاس شہد جیسی ہے ۔ خوشی اور غمی میں ایک دوسرے کے ہمدرد بنتے ہیں ۔پارٹیوں کے منشور میں عوام کی بالادستی قائم ہے پارٹی عہدہ داروں کے فرائض اور اختیارات میں کوئی تفاوت نہیں ہے ۔ Nationپاور کو عوامی پاور کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ قومی مفادات کا مفہوم سب کے سامنے ہے بشرطیکہ نوجوان طبقہ جدید ٹیکنالوجی اور علوم وفنون کے زیور سے آراستہ ہو اور شعور آگاہی کی قوت سے لیس ہو ۔ ان کی اپنی زندگی محفوظ رہے وہ اپنی آئندہ نسلوں کے مستقبل سے مطمئن رہیں انکو اپنے سیاسی نظام اور قائد پر اعتبار ہو ۔ ورکر کی ایک ووٹ پر ہار اور جیت ہوسکتی ہے۔ حزب اختلاف کو حکومت کا حصہ سمجھنا چائیے ۔ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں اصلاحی تنقید ہونا چائیے، سب مل کر عوام کی زندگیوں میں آسانیاں پید اکریں، قوم کے معمار اپنے مستقبل سے مایوس نہ ہوں ۔ روزگار اور تعلیم کے مواقع سب کو حاصل ہو ۔ سیاسی پارٹیاں آپس میں کھینچا تانی کے بجائے اپنے قومی دائرے میں رہ کر ایک دوسرے کے ہمدرد ‘ غمگسار اور تعاون کے جذبہ سے سرشار رہیں تو اس صورت میں یقیناً قدم نا قابل تسخیر بن جاتی ہے ۔ یہی تو قومی مفاد اور ترقی کا راز ہے جب تک قوم پرست پارٹیاں قومی مفاد اور خواہشات کو ایک سرکل میں جوڑنے کی کوشش نہیں کریں گے یقیناً سیاسی عزائم بحرانوں سے گزرتا رہیگا مثلاً نیپ واحد سیاسی پارٹی تھی جس کی ثمرسے سندھ ‘ سرحد او ربلوچستان بحرہ مندر ہے ۔ بی ایس او بلوچستان میں واحد طلباء تنظیم تھی جس کو بین الاقوامی سطح پر بہت پذیرائی حاصل تھی وہ Nation پاور کے طورپر نیپ کے شانہ بہ شانہ کام کررہی تھی ۔ ذوالفقار علی بھٹو کی جارحانہ محاز آرائی نے نیپ حکومت کی دور اندیشانہ سیاسی بصیرت کو ناکام بنانے کے لئے عراقی اسلحہ کا ڈرامہ رچایا، مرکز او رصوبہ تصادم کی راہ پر گامزن ہوئے ۔ نو ماہ بعد نیپ حکومت کا خاتمہ ہوا حالانکہ میر غوث بخش بزنجو شروع سے عدم ٹکراؤ پالیسی سے مفاہمت اور سیاسی راستہ نکالنے کے پر زور حامی تھے میر صاحب کا اصرار تھا بلوچستان کی ترقی عوام کی ترقی ہے وفاق نے ہمارے ساتھ تعاون نہ کیاحکومت گرانے کی کوشش کی تو پہاڑوں سے آئے تھے پہاڑوں میں جائیں گے۔ وفاقی حکومت نے بلوچستان کو قبائلی اشرافیہ کی طرف دھکیل دیا بلوچستان میں گورنر راج قائم کرکے اکبر خان بگٹی کو گورنر بلوچستان مقرر کیاگیا۔ اپنوں کے زخموں سے بلوچستان لہو لہان ہوگیا بلوچستان میں آگ لگ گئی ،شعلے بھڑکتے رہے، بلوچستان کو جنگ کی ہولناکیوں میں دھکیل دیا گیا ، گھروں کے چراغ بجھ گئے، کئی خاندان تباہ و برباد ہوئے ۔ طلباء ‘ سیاسی کارکن اور قبائلی لوگ پابند سلاسل ہوگئے ،روم جل رہا تھا نہرو بانسری نجا رہا تھا ۔ اس کے باوجود حیدر آباد سازش کیس میں غوث بخش بزنجو آخری حد تک گفت و شنید کرتے رہے ۔ بدقسمتی سے بھٹو سیاسی بصیرت ‘ دانش و عقل سے پیدل تھے ۔درآنکہ تمام سیاسی نظام فوج کی گرفت میں آگئی ۔ جنرل ضیاء الحق نے حیدر آباد سازش کیس کو لپیٹ کر تندور میں ڈالا ۔ بھٹو نے بلوچ لیڈروں کے لئے جو کنواں کھودا اس میں پھانسی کی شکل میں خود گر گیا ۔ نواب خیر بخش مری ‘ شیروف مری ‘ افغانستان چلے گئے ۔ سردار عطاء اللہ مینگل لندن چلے گئے ۔ میر غوث بخش بزنجو اپنا وطن چھوڑنے کے بجائے یہاں رہ کر ایک سیاسی پارٹی بنانے میں کامیاب ہوا مگر بااثر چیدہ چیدہ سیاسی قدر آ ور شخصیات ان سے الگ ہوئے ۔بی ایس او ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر مختلف خانوں میں بٹ گئی قوم پرست پارٹیوں کے زیلی کو پگ (کندھے ) بن گئے ۔ یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں ہے نیپ کی با قیات سے مختلف قوم پرست پارٹیوں نے جنم لیا ۔ بلوچستان کے سیاسی میدان میں ایک دوسرے کے مد مقابل ہوئے ۔ بلوچستان نیشنل پارٹی ( اختر گروپ ) بلوچستان نیشنل پارٹی ( عوامی ) ایک سیاسی قالب میں جڑے تھے ۔ ایک سیاسی قوت ان میں پیدا ہوئی الیکشن میں بھاری مینڈیٹ سے سردار اختر مینگل وزیراعلیٰ بلوچستان بن گئے ۔ بعدازاں وفاقی مقتدرہ کی آنکھ میں کھٹکنے لگے ۔ اختر جان مینگل کے دست راست محمد اسلم گچگی کو ’’ نوک جو ‘‘ مشکے میں شہید کیا گیا ۔ گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے ‘ اختر جان مینگل کا مضبوط بازو ٹوٹ گیا ۔ وڈھ خضدار میں میر شفیق مینگل کے مد مقابل ہوئے ۔ مشرف دو رمیں بلوچستان نیشنل پارٹی ( اختر گروپ ) کے چیدہ چیدہ سیاسی قائد مارے گئے ۔ ان میں حبیب جالب بھی شامل تھے ۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کو اس وقت ایک بڑا دھچکا لگا جب وفاقی مقتدرہ نے اس پارٹی کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ۔ بی این پی اختر گروپ اور بی این پی عوامی کے نام سے مشہور ہوئے ۔ مشرف دور میں قوم پرست پارٹیوں نے الیکشن سے بائیکاٹ کیا تو بی این پی عوامی نے صوبائی اسمبلی کے لئے کافی سیٹیں حاصل کیں ۔ اس پارٹی کے وارے نیارے اس وقت ہوئے جب پیپلزپارٹی بر سر اقتدار آگئی نواب محمد اسلم رئیسانی وزیراعلیٰ بلوچستان بن گئے ۔ کابینہ ایک مخلوط حکومت کی شکل میں تھی ۔ بی این پی عوامی کو شروع ہی سے نیشنل پارٹی سے پر خاش تھی ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ نے نیشنل پارٹی کو کافی زک پہنچایا ۔ جب ڈاکٹر مالک بلوچ نے پارٹی کی ہائی کمان کو سنبھالا تو اس پارٹی کو بلوچستان کے طول و عرض میں فعال کردیا قبائل کے با اثر شخصیات کو پارٹی میں شامل کر لیا ۔ ان کی سیاسی بصیرت اور دور اندیشی نے نیشنل پارٹی کو اور زیادہ مستحکم کردیا ۔ سیاسی مفکر کہتے ہیں ایک با اثر سیاسی کارندہ کو دیوار سے لگانے یا تنہا کرنے کی حکمت عملی اپنائی، سمجھ لو پوری پارٹی کو دیوار سے لگا دیا اس کے باوجود 2013ء کے الیکشن میں نیشنل پارٹی ایک سیلاب کی شکل میں پورے بلوچستان میں پھیل گئی۔ سیلاب کی پتار اب بھی بھٹک کے نزدیک ڈھیر کی شکل میں پڑا ہوا ہے، کون عبرت حاصل کرتا ہے بلوچستان میں عوامی مینڈیٹ حاصل کرنے کے بعد وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اپنا کابینہ بنا لیا نیشنل پارٹی، پختون خواہ ملی اور مسلم لیگ ن کے باہمی اشتراک سے حکومت بن گئی ۔اس وقت وزیراعلیٰ بلوچستان نواب میر ثناء اللہ زہری ہیں۔ یہاں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی ڈھائی سالہ سیاسی کارکردگی پر مختصراً روشنی ڈالی جاتی ہے ۔ ڈاکٹر مالک بلوچ نے اپنے حلف وفا داری کی تقریب میں بر ملا کہا حکومت کو کامیاب بنانے کے لئے اسٹیبلشمنٹ اور عسکری اداروں کی حوصلہ افزاء تعاون و مدد درکار ہوگی ۔ بالغرض محال ان سرکاری اداروں نے تعاون نہ کیا تو وہ فٹ پاتھ سے آئے تھے ،دوبارہ فٹ پاتھ پر جائیں گے۔ ڈاکٹر مالک بلوچ نے اپنے دور حکومت میں سب سے پہلی فرصت میں بلوچستان میں بد امنی ،لاشیں گرانے کی مہم پر توجہ مرکوز کی ۔ بد امنی پرقابو پانے کے لئے حکومتی اداروں کو اعتماد میں لیتے ہوئے امن سکون کی فضاء پورے بلوچستان میں قائم ہوا ۔ لاشیں گرنے کا سلسلہ تھم گیا ۔ پراکسی وار کا خاتمہ ہوا ۔ عوام نے سکھ کی زندگی گزارنے پر خوشی و مسرت کا مژدہ سنایا ۔ اس حوالہ سے پولیس ‘ لیویز ‘ بی آر پی اور دیگر سیکورٹی فورسزکے درمیان انٹیلی جنس شئیرنگ اورCordination کا رابطہ پیدا کیا جس سے بلوچستان میں امن وامان بحال ہوگیا ۔ دوسرے نمبر پر تعلیم پر خاص توجہ دی گئی تمام تعلیمی اداروں میں ہنگامی بنیاد پر نقل کی ناسور کو جڑسے اکھاڑ کر پھینک دیا ۔ اس مقصد کیلئے تعلیم کا بجٹ چار فیصد سے بڑھا کر24فیصد کردیا گیا ۔ بولان میڈیکل کالج کو یونیورسٹی کا درجہ، مزید تین نئے میڈیکل کالجز کے قیام کا اعلان کیا ۔ چھوٹی یونیورسٹیاں بنانے‘ ڈینٹل کالج ’ کیڈٹ کالج اور ریزیڈیشنل کالج قائم کرنے کے ساتھ طلباء اور طالبات کو وظائف ‘ تمام تعلیمی اداروں میں سہولیات فراہم کرنے کا اعلان کیا ۔تمام مادری زبانوں کو نصاب میں شامل کیا ، محکمہ صحت کی بجٹ میں کافی اضافہ کیا ، جناب رحمت صالح بلوچ وزیر صحت حکومت بلوچستان کے دوراندیشانہ پالیسیوں کے حوالہ سے ایک انقلاب برپا ہوا ۔ پولیو مرض پر قابو پایا گیا تمام دیہی علاقوں کے ہسپتالوں کو ایمبولینس فراہم کی گئیں دوائیوں کا کوٹہ تمام اضلاع کے ہسپتالوں کے لیے یکساں کیا ۔ صوبائی ہیڈ کوارٹرز کوئٹہ کے تمام ہسپتالوں کو فعال بنا دیا گیا ۔ بلوچستان کے طول و عرض میں ڈاکٹرز اپنے فرائض سرانجام دینے لگے ۔زراعت پر خصوصی توجہ دی گئی زراعت اور مال برداری کا زمانہ قدیم سے ایک دوسرے سے تعلق رہا ہے ۔ کھیتوں اور بندات کی تعمیر کے لئے کافی فنڈ مہیا کیا گیا ۔ آبپاشی اور نکاسی آب کے لئے کاریزوں کی صفائی اور توسیع کے لیے کافی فنڈ فراہم کیا گیا جس سے زمینداروں میں خوشحالی کی لہر دوڑ گئی۔ مویشیوں کی دیکھ بھال کے لئے ڈیری فارم کو فعال کردیا گیا وہاں دوائیوں کا کوٹہ بھی بر قرارہے ۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے تہذیب ‘ ثقافت کواجاگر کرنے کیلئے دوررس اقدام کیا تمام اضلاع کے ادیبوں ، شاعروں اور فنکاروں کی حوصلہ افزائی کی۔ ادبی مجالس اور محفل موسیقی کا بندو بست کیا گیا ۔ محمد اسلام بلوچ اور رحمت صالح بلوچ نے ادیبوں اور شاعروں کی کتابیں چھاپنے کا عزم کیا ۔ فنکاروں کو نقد انعامات سے نوازا گیا ۔ شاعروں اور ادیبوں کی تقریب میں دست تعاون بھی شامل حال رہا ۔ نیشنل پارٹی کے عہدہ داروں اور ورکروں کا مورال بلند کیاگیا جب ڈاکٹر مالک بلوچ، میر حاصل خان بزنجو ‘ طاہر بزنجو و دیگر سیاسی قائدین پنجگور کے دورے پر نکل پڑے تو ایک بڑی ریلی اور عالی شان جلسہ سے اندازہ ہوا کہ نیشنل پارٹی کی آب و تاب پورے بلوچستان میں برقرار ہے ۔