کوئٹہ : بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں آپریشن کے خلاف جنوبی کوریا میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ بلوچستان میں پاکستان کی بربریت عروج پر ہے۔ شہر ، دیہات، گاؤں کوئی بھی جگہ بلوچ قوم کیلئے محفوظ نہیں۔ کل تحصیل بسیمہ کے علاقے چھوٹے سے گاؤں راغے میں کمسن طالب علم کو دن دہاڑے قتل کیا گیا۔ یہ علاقہ ریاستی کارندوں اور مذہبی انتہا پسندوں کا نرغہ بنا دیاگیا ہے۔ جہاں ہر تعلیم یافتہ ذی شعور شخص اور اُس کے خاندان کو ریاست اور اِس کے ڈیتھ اسکواڈ نشانہ بناتے ہیں ۔ راغے میں صدام بلوچ ولد ماسٹر عبدالعزیز کاقتل و شہادت اسی کا تسلسل ہے۔ جنہیں سر عام قتل کرکے قاتل اپنی پناہ گاہ کی جانب گئے ہیں، جہاں جرائم پیشہ افراد پر مشتمل ایک ڈیتھ اسکواڈ تشکیل دی گئی ہے ، اور انہیں ریاستی سرپرستی میں بلوچ عوام کے خلاف اسلحہ سمیت تمام سہولیات فراہم کی گئی ہیں ۔ اس سے پہلے بھی کئی آپریشنوں میں بے شمار گھروں کو مسمار کرکے کئی لوگوں کو ہلاک و اغوا کیا گیا ہے۔ پچھلے سال اِسی علاقے سے چھ بلوچ فرزندوں کوفورسز نے دوران آپریشن اغوا کرکے دو دن بعد لاشیں سوراب کلغلی میں پھینک دی تھیں، جس کا تذکرہ میڈیا میں بھی آیا، مگر فوج و اسکے ڈیتھ اسکواڈز کو ہر آئین و قانون سے استثنیٰ دیا گیا ہے۔ اسی لئے انسانی حقوق کے ادارے و کارکن بھی خوف کا شکار ہوکر بے بس ہوکر خاموشی پر اکتفا کر رہے ہیں ۔ ساتھ ہی بلوچ تنظیموں کو ان مظالم کے خلاف احتجاج کے حق سے بھی محروم کیا گیاہے۔ کوئی بھی بلوچ سرگرم کارکن بازار میں نظر آئے تو اسے اُٹھاکر غائب کیا جاتا ہے یا قتل کیا جاتاہے۔ اب تک ہزاروں اسی طرح قتل یا ’’ مارو اور پھینکو‘‘ پالیسی کے تحت نشانہ بنائے جاچکے ہیں ۔ شہید غلام محمد اور ڈاکٹر منان جیسے رہنماؤں کو قتل کیا گیا اور ذاکر مجید اور زاہد بلوچ جیسے ہزاروں ابھی تک پاکستان کی خفیہ اداروں کے کال کھوٹریوں میں اذیتیں برداشت کررہے ہیں۔ مرکزی ترجمان نے کہا کہ ان مظالم کے خلاف آج جنوبی کوریا میں بی این ایم کوریا زون کی جانب سے کوریا کے شہر پوسان میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرے میں بی این ایم کے رہنماؤں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے شرکت کی۔ مظاہرین نے پلے کارڈ اُٹھائے ہوئے تھے جن پر پاکستان کے مظالم کے خلاف نعرے، بلوچ لاپتہ افراد اور شہدا کی تصاویر تھیں ۔