کوئٹہ : بلوچستان نیشنل پارٹی (حقیقی) کے مرکزی ترجمان کی جانب سے بلوچستان کلیکٹریٹ کسٹم کے غیر ذمہ دار آفسران کے روئیے کی وکلاء اور تاجروں کے ساتھ نا مناسبانہ روئیے کی شدید مزمت کرتے ہوئے FBRاسلام آباد، FTOنیب این آئی بی سمیت اداروں سے تحقیق کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے بلوچستان کلیکٹریٹ کے ہالیہ کسٹم اہلکاروں کی بھرتیوں میں بلوچ نوجوانوں کو نظر انداز کرنا اور تمام تر بھرتیوں میں بلوچستان سے باہر کے لوگوں کو بھرتی کرنے کا اقدام بددیانتی اورکرپٹ روئیے کی غمازی کرتا ہے۔ دوسری جانب محکمہ کے ریونیو جمع کرنے کے بلند و بانگ دعوں کے پیچھے صوبے کے تاجروں سے غیر انصافہ اور بدترین ظلم اور جارحانہ روئیے کو مد نظر رکھا گیا ہے ۔ غریب بلوچستانی تاجروں کے روزانہ جائز اور حق حلال کے تجارت کے رستوں کو مشکل سے مشکل تر بنا کر سامان کو ضبط کرکے نیلامی کے نام پر اپنے مخصوص مسلط کردہ گروپوں کے ذریعے ملی بھگت کے ساتھ سامان کو دوبارہ مارکیٹ میں بیچا جارہا ہے۔ جس کو اوپن بولی کا نام دیا گیا ہے جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ہمسایہ ملک افغانستان میں بھی جوکہ ایک جنگ زدہ علاقہ ہے وہاں بھی تاجر کے ساتھ اتنا نامناسبانہ سلوک نہیں کیا جاتا بلکہ تاجر کا سامان سمگلنگ کے دوران سامان لیکراسی وقت متعلقہ مالک کو کم از کم ٹیکس ادا کرنے پر حوالہ کیا جاتا ہے مگر بلوچستان سمیت پورے ملک میں کوئی نظام تاجروں کے مفاد میں نہیں جبکہ بلوچستان میں ایک الگ ہی قانون کو لاگو کیا جاچکا ہے جس میں مالک کے بجائے سامان کو اوپن بولی کے نام پر غیر متعلقہ مراعت گروپوں کے ذریعے مافیا کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ہر ہفتے گڈز اور گاڑیوں کو اپنے مخصوص عزیز و اکارب میں کے ذریعے خرید کر دوبارہ مارکیٹ میں مہنگے داموں پر بیچ کر حقیقی مالکوں کو دور رکھا جا رہا ہے۔جبکہ دبئی میں گاڑیوں کی موجودگی میں اربوں روپے کے ٹیکس میں گھپلا کرکے کوئٹہ کلیکٹریٹ کے آفیسران ارب پتی بن چکے ہیں جسکے اب کچھ سست روی کے ساتھ انکوائری کا آغاز کردیا گیا ہے مگر یہاں بھی ذمہ داران کے برعکس چند معمولی لوئیر اسٹاف کو قربانی کا بکرا بنایا جارہا ہے جبکہ اصل ذمہ داران کو مناپلی کے ذریعے بچانے کا پورا بندوبست کیا جاچکا ہے۔چند روز پہلے 10سے 15افراد کے مسلط شدہ گروہ جو پرائیویٹ لوگوں پر مشتمل ہے کہ کسٹم کلیکٹریٹ میں آنے پر پابندی کو بھی کلیکٹر کے حکم نامے کو ہوا میں اڑادیا گیا ہے۔اور اب دوبارہ انہیں حضرات کے ذریعے مخصوص آفیسران اپنے سابقہ کھیل کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔معمولی سے معمولی کیسز میں بھی تاجروں کو لاکھو ں روپے اپنی ٹیکس پیڈ گاڑیوں کو چھوڑانے کیلئے ادا کرنا پڑتا ہے جوکہ سراسر ناجائز ہے۔کسٹم آفس میں 15, 15سال سے چند مخصوص انسپکٹروں کو مسلط کرکے دیگر ایماندار اسپکٹروں کو اور متعلقہ اہلکاروں کو دور رکھ کر ناانصافی کا لامتناہی سلسلہ بھی جاری وساری ہے جس کی تحقیقات بھی ہونی چاہیے۔ کسٹم کلیکٹریٹ کے معمولی سے معمولی اہلکار بھی سائیکل سے آج ارب پتی بن چکے ہیں جبکہ ریاست میں دیگر ادارے کی اعلیٰ سے اعلیٰ آفیسر بھی کسٹم اہلکاروں کی شاہانہ ٹاٹ باٹ کو نہیں پہنچ سکتا۔