|

وقتِ اشاعت :   August 10 – 2016

کوئٹہ: پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے پیر کو کوئٹہ میں وکلاء کے خلاف دو حملوں کی شدید مذمت کی ہے، جن میں کم ازکم 71افراد جاں بحق ہوئے، کمیشن نے حکومت کی جانب سے شہریوں کے تحفظ کیلئے دہشت گردی اور منظم جرائم کے انسداد کیلئے موثر اقدامات نہ کرنے پر بھی شدید افسوس کااظہار کیا ہے، جاری کئے گئے اپنے بیان میں کمیشن نے کہا کہ ایچ آر سی پی بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کاسی کے قتل اور کوئٹہ سول ہسپتال میں بم دھماکے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں، جس میں اب تک 71انسانی جانیں گئیں اور 50سے زائد افراد زخمی ہوئے، ہلاک ہونے والوں میں بڑی تعداد وکلاء کی ہے اس کے علاوہ صحافتی تنظیموں کے کم از کم 2کارکن بھی ہلاک ہوئے ہیں اور کئی ایک زخمی بھی ہوئے ہیں، وکلاء پر اس طرح کا منظم حملہ قطعی طور پر ناقابل برداشت اور قابل مذمت ہے، کوئٹہ میں اس سانحہ کے بارے میں ارباب اقتدار کے مذمتی بیان یااسے محض کسی غیر ملکی خفیہ ادارے کی کارستانی قرار دینا نہ تو کافی ہے اور نہ ہی کسی مسئلہ کاحل ، ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تمام شہریوں کی زندگیوں کی حفاظت کرے ، خواہ ان کے خون کے درپے کوئی بھی ہو، لوگ یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ عوام کی حفاظت پر مامور ادارے اس وقت کہاں تھے جب اس سانحے کے منصوبہ ساز اور اس پرعملدرآمد کرنے والے خواہ وہ غیر ملکی ہوں یاپاکستانی اپنی مکروہ کارروائی میں مصروف تھے، حکومت پیر کے ہولناک واقعات کو ناقص حفاظتی اقدامات کہہ کر اپنی ذمہ داری سے عہدہ براہ نہیں ہوسکتا ، اس کیلئے لازم ہے کہ وہ پیر کے واقعات کو روکنے میں اپنی ناکامی کی وجوہات کی وضاحت کریں ، عوام کو یہ بھی بتایا جانا چاہئے کہ حکومت انسداد دہشت گردی کے نام پر کی جانے والی منصوبہ بندی کے تحت اس امر کو کیسے یقینی بنائے گی کہ دہشت گردی کے ایسے واقعات کی واقعی روک تھام کی جاسکے، بلوچستان میں شہریوں کی حفاظت پر توجہ دینا خاص طور پر اس لیے ضروری ہے کہ کیونکہ صوبے میں حال ہی میں پر تشدد واقعات میں کسی حد تک کمی نے یہ امید پیداکی تھی کہ شاید حالات معمول کی طرف واپس لوٹ آئیں، یہ انتہائی افسوسناک امر ہے کہ پیر کا حملہ جس میں بے گناہ شہریوں کی اتنی بڑی تعداد میں ہلاکت ہوئی ایک ہسپتال جو کہ حالت جنگ میں بھی حملوں سے محفوظ تصور کئے جاتے ہیں، پیش آیا، ایسے اندوہناک سانحے کے بعد حکومت کے تمام انتہاء پسندوں اور منظم مجرموں کیخلاف اقدامات کے واضح عزم کااظہار محض الفاظ نہیں بلکہ موثر کارروائی کی صورت میں نظر آنا چاہئے، کوئٹہ میں ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ کسی حملے کے متاثرین کو ہسپتال لایا گیا ہو اور بعد ازاں ہسپتال کو نشانہ بنایاگیا، جون 2013ء میں سردار بہادرخان خواتین یونیورسٹی کی طالبات کو نشانہ بنانے کے بعد بولان میڈیکل کالج ہسپتال کو اس وقت فائرنگ اور بموں کانشانہ بنایاگیا ہو جب زخمیوں کووہاں علاج کیلئے لایاگیاتھا، ایسے حالات میں ہسپتال میں مناسب سیکورٹی فراہم کرنے میں ناکامی شدید قابل مذمت ہے