|

وقتِ اشاعت :   August 11 – 2016

کوئٹہ : بلوچ آزادی پسند رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے اپنے بیان میں کوئٹہ واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوئٹہ میں اتنی بڑی تعداد میں وکلاء اور نہتے شہریوں کا قتل عام انتہائی افسوسناک ہے۔ ایسے واقعات کا رونما ہونا ریاست کی اُس پالیسی کا نتیجہ ہے جس کے تحت ریاستی مذہبی انتہا پسندوں کی پرورش کرکے بلوچ قومی تحریک آزادی کے خلاف کھڑا کر رہا ہے۔ کوئٹہ میں طالبان کی مجلس شوریٰ کی موجودگی سے ایسے کئی واقعات ہوتے رہیں گے، جو کہ اچھنبے کی بات نہیں ہونی چاہیے۔ بلکہ اس کے خلاف عوام کو اُٹھ کھڑا ہونا چاہئے۔ جب تک عوام ریاست کی ان پالیسیوں کے خلاف خوف کی وجہ سے چپ سادھ رکھے گی، تب تک لاشیں اُٹھانا نہتے عوام کا مقدر ہوں گی۔ فورسزاور سرکاری حکام کی جانب سے اِس کی مذمت کرنا عوام کو دھوکے میں رکھنے کے مترادف ہے۔ کیونکہ یہ حقیقت اب پوشیدہ نہیں رہی کہ طالبان، لشکر جھنگوی، لشکر طیبہ، لشکر اسلام، لشکر خراسان اور ان جیسی دیگر تنظیموں کو ریاستی اسٹیبلشمنٹ کی سو فیصد حمایت حاصل ہے۔ فورسزان کے خلاف کارروائی کی بات تو ضرور کرتی ہے، مگر پنجاب میں صرف ایک گینگ کے خلاف آپریشن ہوتا ہے مگر مذہبی انتہا پسندوں کے رہنما آزادانہ گھومتے ہیں۔ ایک سیاسی لیڈر بھی اِن کے خلاف کارروائی کی بات کرتا ہے مگر خود اُس کے اپنے آ بائی علاقے زہری، مشک، سوراب اور گدر میں طالبان مذہبی شدت پسند موجود ہیں جہاں انہیں مکمل سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔ زہری مشک اور محمد تاوہ میں داعش کے کیمپ موجود ہیں، جن کی سرپرستی وہ خود کر رہے ہیں۔ خاران میں بھی ایک سیاسی لیڈر کی سربراہی میں داعش کے پمفلٹ تقسیم ہوتے ہیں اور وال چاکنگ کی جاتی ہے، لیکن انہیں کھلی چھوٹ حاصل ہے کیونکہ وہ بلوچ قومی تحریک کے خلاف ریاست کا ساتھ دے رہے ہیں ۔ اسٹیبلشمنٹ دُنیا کو بیوقوف بنانے کیلئے کوئٹہ جیسے کئی واقعات کرا سکتا ہے، جس سے اِن کی امداد میں اضافے کا امکان موجود ہے۔ ہم عالمی برادری سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ان محرکات کا باریک بینی سے جائزہ لیں، جو نہ صرف بلوچ قومی جدو جہد کے خلاف ہیں بلکہ خطے و دنیا کے امن کے لئے بھی خطرے کی نشانی ہیں۔ اعلیٰ حکام نے ’’کومبنگ آپریشن‘‘ کرنے کا جو اعلان کیا ہے، وہ نئی بات نہیں۔ یہ محض بلوچ کے خلاف جنگ میں تیزی لانے کا ایک بہانہ ہے۔ فورسزنے بلوچستان میں جو قتل عام شروع کر رکھی ہے، اس سے یہ عیاں ہے کہ ان کے ہاں انسانیت نام کی کوئی شئے موجود نہیں۔ ایک سو اشخاص کا قتل ریاست اور اُس کے پالے ہوئے شدت پسندوں کیلئے کوئی معنی نہیں رکھتی، بلکہ بلوچستان میں وہ ایسے دھماکوں کے ذریعے دنیا کی توجہ بلوچ تحریک سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ بلوچستان کے سیکولر سماجی ماحول کو پراگندہ کرنے کیلئے ریاست دینی مدرسوں اور شدت پسندوں پر لاکھوں ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ دینی تعلیم یا کسی بھی تعلیم کی اسپیشلائزیشن دنیا میں بچپن یا پہلی جماعت سے شروع نہیں ہوتی۔ ہر کوئی بارہ جماعت پاس کرنے کے بعد اپنی فیلڈ کا انتخاب کرتا ہے، مگر ریاست میں پیدا ہوتے ہی مدرسوں میں داخل کراکر شدت پسندی کی اسپیشلائزیشن شروع کرائی جاتی ہے۔ اگر اب بھی دنیا نے اِس خطے کو ریاست کے رحم و کرم پر چھوڑا تو اس سوچ کی آبیاری و تربیت کئی گنا بڑھ کر بے قابو ہوجائے گی۔ بلوچستان میں مذہبی جماعتوں کو کھلی چھوٹ دیکر اُن سے ریاست کا نعرہ لگوانا اور بلوچ تحریک کے خلاف باتیں کرنے کے ساتھ یہ اعتراف کرنا کہ بلوچستان میں ریاستی جھنڈا ہماری وجہ سے لہرا رہا ہے ، ایک ثبوت ہے کہ اِن کی ڈوریں براہ راست فورسزو خفیہ اداروں کے ہاتھوں میں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کوئٹہ میں بلوچ اور پشتوں وکلاء کو ٹارگٹ کرکے اسٹیبلشمنٹ بلوچستان میں نیشنل ایکشن پلان کے بعد ایک اور خونی آپریشن کے منصوبے کی راہ ہموار کر رہا ہے۔ طالبان، جماعت الاحرار و دیگر جماعتیں ریاست کے اسٹریٹجک اثاثے ہیں، جنہیں وہ کئی دہائیوں سے ہمسایہ ممالک اور اب بلوچ قوم کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ یہی مذہبی و دینی جماعتیں ریاستی اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر مراعات، کرسی اور دنیاوی آسائشوں کیلئے اسلام و قرآن کی غلط روح پیش کرکے لوگوں کے ذہنوں میں انتہا پسندی کو فروغ دے رہے ہیں۔ انہی جماعتوں کو بلوچ قومی تحریک کے خلاف صف آرا کیا جا رہا ہے۔ بلوچستان کے کئی علاقوں میں فورسزکی زیر نگرانی مذہبی انتہاپسندوں کا بلوچ قومی تحریک کے خلاف باتیں سب کے سامنے اور ریکارڈ پر موجود ہیں۔ مکران میں سرکار کی جانب سے لشکر خراسان کو مسلح کرنے سے لیکر زہری میں داعش کی موجودگی اور وال چاکنگ اور مستونگ میں لشکر جھنگوی کے گڑھ کو تحفظ فراہم کرنا کوئی نئی اور پوشیدہ باتیں نہیں ہیں۔ یہی جماعتیں حزب المجاہدین کے کمانڈر کو آزادی پسند اور بلوچ آزادی پسندوں کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔ حزب المجاہدین کے کمانڈر کی ہلاکت پر سوگ اور مارچ کیا جاتا ہے، اور سرکاری سطح پر احتجاج کیا جاتا ہے مگر عام بلوچ سے لیکر آزادی پسند جہد کار تک کو واجب القتل سمجھا جاتا ہے۔ یہی کرتوت ریاست کے نام نہاد اسلام کے پیروکاروں کی اصل شکل کو آشکار کرتی ہے۔ قرآن و اسلام ہر قوم کو آزادی کا حق دیتا ہے۔ نام نہاد اسلامی مولویوں کو بنگلہ دیش میں نسل کشی کو یاد رکھنا چاہئے، جہاں ریاست نے الشمس اور البدر کے ذریعے اسلام کے نام پر بنگالی مسلمانوں کی نسل کشی کی، بچوں اور خواتین کی عصمت دری کی۔ یہی جماعتیں ایک دفعہ پھر ریاست کے کہنے پر مختلف ناموں سے بلوچ نسل کشی میں مصروف ہیں۔ کوئٹہ میں بلوچ اور پشتونوں کے قتل میں بھی ریاست نے اپنے انہی مہروں کو استعمال کیا۔ پنجاب کے حکمران مگر مچھ کے آنسو بہاکر کسی کو دھوکے میں نہیں رکھ سکتے۔ پشتون قوم کیلئے فیصلے کا وقت آگیا ہے کہ وہ ریاست کے مظالم کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوکر اپنی آزادانہ ہزاروں سالہ شناخت کی بحالی کی جنگ لڑے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچ قومی تحریک کے خلاف مذہبی عناصر کے ساتھ نام نہاد قوم پرستوں کو بھی آزمایا جا رہا ہے۔ سیاسی پارٹی کے کئی رہنما ریاستی پیرول پر ڈیتھ اسکواڈ قائم کرکے بلوچ نسل کشی میں ریاست کا ساتھ دے رہے ہیں۔ جن میں راشد پٹھان اور علی حیدر قابل ذکر ہیں۔ دوسری طرف ایک اور مہرے کے طور پر سیاسی پارٹی کو مضبوط کیا جا رہا ہے۔ سیاسی پارٹی سرکاری سرپرستی اور فورسزگاڑیوں میں لوگوں کو جمع کرکے سرکاری پروٹوکول میں جلسے منعقد کرکے اپنی تقاریر میں صرف بلوچ قومی تحریک کے خلاف زہر اگل کر ریاست کی زبان بول کر ہزاروں بلوچوں کے قتل میں اپنی شراکت داری کا ثبوت خود فراہم کر رہے ہیں۔