|

وقتِ اشاعت :   August 12 – 2016

خضدار : بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو کے ستائیسویں برسی کے مناسبت سے بزنجو اسٹیڈیم میں نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام جلسہ عا م کا انعقاد ،جلسہ عام میں ہزاروں افراد نے شرکت کی ،بابائے بلوچستان کا فلسفہ عدم تشدد کی سیاست ہی بلوچستان کے حقوق کی ضمانت ہے ،بندوق کی نوک پر نظریہ مسلط کرنے کی گنجائش ہے اور نہ ہی قلم کتاب کے بغیر کوئی قوم اپنے حقوق حاصل کر سکتی ہے ،بلوچستان میں قوم پرستی کو کاونٹر کرنے کی خاطر مذہبی انتہاء پسندی کو فروغ دیا جا رہا ہے ،سی پیک قابل قبول ہے مگر اس بھی اولیت بلوچ قوم کو حاصل ھو اس حوالے سے جو یقین دھانیاں کرائی گئی ہے اس پر قانون سازی کی جائے ،بلوچستان کے عوام گوادر کا رخ کریں تو ہم باہر سے آنے والوں کی آبادی کو روک سکتے ہیں،خضدارمیں ہر طرف خون تھا ،لوگ یہاں آنے کو تیار نہیں تھے نیشنل پارٹی نے عوام کو امن دیا ،جب ہم نے حکومت بنائی گئی اس وقت بلوچستان آگ کا گولہ تھا ،ہر طرف قتل غارت گیری تھی ،کوئی حکومت کرنے کو تیار نہیں تھا اس کیفت میں ہم نے حکومت میں آنے کا فیصلہ کیا اور انتہائی کم مدت میں عوام کو امن دیا ،ان خیالات کا اظہار مقررین نے جلسہ عام سے خطاب کے دوران کیا مقررین میں نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر و وفاقی وزیر پورٹ اینڈ شپنک میر حاصل خان بزنجو ،سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ،نیشنل پارٹی کے سینئر نائب صدر میر طاہر بزنجو ،سیکرٹری جنرل حسن ناصر ،صوبائی وزراء ،سردار محمد اسلم بزنجو ، نواب محمد خان شاہوانی ،رکن صوبائی اسمبلی ڈاکٹر شمع اسحاق بلوچ ،سیکرٹری خواتین طاہرہ خورشید ،سینیٹر میر کبیر محمد شہی ،سینیٹر ڈاکٹر اشوکمار ،بی ایس او کے مرکزی چیئرمین اسلم بلوچ ،نیشنل پارٹی بلوچستان وحدت کے جنرل سیکرٹری میر عبدالخالق بلوچ ،نیشنل پارٹی کے مرکزی ترجمان جان محمد بلیدی ،بی ایس او کے سابق چیئرمین خیر جان بلوچ ،محمد آصف جمالدینی ، میر خیر جان بلوچ عبدالحمید ایڈووکیٹ ،میر عبدالرحیم کرد ،حاجی احمد نواز بلوچ ،رئیس بشیر احمد مینگل ،میر اشرف علی مینگل ،مولانا محمد وارث شیخ اور دیگر شامل تھے نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر میر حاصل خان بزنجو نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس جلسہ کو سانحہ کوئٹہ کے شہید وکلاء اور عوام کے نام کرتے ہیں جنہیں دہشت گردوں نے اپنے مذموم کا شکار کر دیا اس واقعہ میں تقریباً 93 اعلی تعلیم یافتہ لوگ نشانہ بنے جو بلوچ اور پشتون کا سرمایہتھے میر حاصل خان بزنجو نے کہا کہ بلوچستان خون آلودہ تھا ہر طرف دہشت اور خوف کا عالم تھا خضدار میں ایک گروہ نے حکومت قائم کر رکھی تھی جب ہمیں حکومت بنانے کی دعوت دی گئی تو ہمارے ساتھیوں میں ایک سوچ یہ بھی موجود تھا کہ اس ماحول میں ہم کس طرح ڈیلور کر سکیں گے نیشنل پارٹی کی قیادت نے فیصلہ کر لیا کہ ہم اس چیلنج کو قبول کرکے یہ باور کرائیں گے کہ نیشنل پارٹی اپنے لوگوں کو امن دی سکتی ہے نیشنل پارٹی بہتر انداز میں عوام کی خدمت کر سکتی ہے ہماری حکومت نے ڈاکٹر عبدالمالک کی قیادت میں اس چیلنج کو قبول کر کے انتہائی کم مدت میں عوام کو خوشحال اور پرامن زندگی کا موقع فراہم کیا خضدار جہاں ایک گرو ہکی حکومت تھی اس گرو ہ کاقلعہقمعہکر کے عوام کو زندہ ہونے کا احساس دلایا میر حاصل خان بزنجو نے کہا کہ سی پیک کے حوالے سے نیشنل پارٹی کے وفاقی کو اپنی تجاویزپیش کی ہے امید ہے کہ بلوچ شناخت کے حوالے سے وفاق قانون سازی کرے گی میں بلوچستان کے عوام سے اپیل کرتا ھوں کہ وہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں گوادر کا روخ کرکے وہاں بھی اپنا ایک گھر بنائیں اپنی کاروبار کی رائیں تلاش کریں تھا کہ آنے والوں کا راستہ روکھا جاسکے انہوں نے کہا کہ رتو دیرو سے لیکر گوادر تک یہ قومی شاہراہ آئندہ آٹھ ماہ کے دوران مکمل ہو جائے گی جس کے بہتر اثرات خضدار پر پڑیں گے میر حاصل خان بزنجو نے کہا کہ نیشنل پارٹی کا وزیر اعلیٰ وہ واحد وزیر اعلیٰ ہے جس پر چوری اور کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہم نیب سمیت تمام اداروں کو چیلنج کرتے ہیں کہ وہ ہماری وزیر اعلیٰ کی تحقیقات کریں ایک روپے کی کرپشن ثابت ہوا ہم سزا بھگتے کو تیار ہے اس کے علاوہ باقی جتنی پارٹیاں ہیں وہ خاندانوں کی پارٹیاں ہیں جب نیشنل پارٹی وہ واحد پارٹی ہے جو لوگوں کی پارٹی ہے قیادت کی تبدیلی سے اس پارٹی پر کوئی اثر نہیں پڑتا میں عوا م کو یقین دلاتا ھوں کہ ہم آج اسمبلیوں میں جس تعداد میں ہے ہماری کارکردگی واضح ہے اگر عوام اس سے بڑی تعداد میں ہمیں اسمبلیوں کو بیجیں ہماری کارکردگی اور بھی زیادہ ہو گی سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فکر بزنجو کا اگر ہم باریک بینی سے جائزہ لیں تو وہ چند لفظوں کی گرد گھومتی ہے جن کو سمجھنے کی ضرورت ہے ان الفاظ کی وجہ سے آج نیشنل پارٹی کی سیاست کو ملکی و بین الا اقوامی سطح پر پزیرائی مل رہی ہے فکر بزنجو میں اپنی زمین سے محبت ،اپنے لوگوں سے محبت ،اانسانیتسے محبت ،ایمانداری ،دلیل اور اپنی نظریہ سے مخلص ھونا شامل ہیں ہماری کوشش ہے کہ بلوچستان کے پسی ہوئی مظلوم عوام کو خوشحالی کی زندگی میسر آ سکیں ،ڈاکٹر مالک بلوچ نے اپنے خطاب میں سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ کیوں لوگ مشکے ،آواران ،اور ڈیرہ بگٹی سے کیوں اور کس کی وجہ سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو گئے ؟ہم بندوق کی نوک پر نظریہ کسی پر مسلط کرنے نہیں دیں گے اور نہ ہی بلوچستان کے عوام کو بے یار و مدد گار چھوڑیں گے ،انہوں نے کہا کہ اس وقت شہید مولا بخش دشتی نے واضح کیا تھا کہ بندوق کے زور پر نظریہ مسلط کرنے کا انجام برادر کشی پر ہو گا اور آج وہ حقیقت ثابت ہو گئی انہوں نے کہا کہ ہم پر الزام لگایا جاتا ہے کہ نیشنل پارٹی سرکار کی خرچے پر جلسے کر رہی ہے جو حقیقت پر مبنی نہیں انہوں نے کہا کہ قوم پرستی کی سیاست کو کاونٹر کرنے کے خاطر بلوچستان میں مذہبی انتہاء پسندی کو فروغ دیا جا رہا ہے تعلیمی اداروں کو مذہبی لٹریچر پڑھائی جا رہی ہے بلوچستان کے مختلف علاقوں کو مدارس بنائے جا رہے ہیں ہمیں انتہاء پسندی کا بھی مقابلہ کرنا ہے بلوچستان کے امن کی بحالی کے لئے ایف سی اور پولیس سمیت تمام اداروں کا اہم کردار ہے میں وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری سے امید رکھتا ھو ں کہ وہ امن کی صورتحال کو برقرار رکھنے میں اپنی کردار کو جاری رکھیں گے کیونکہ جہاں امن ھو گا ہی خوشحالی آئے گی جلسہ عام سے نیشنل پارٹی کے مرکزی سینئر نائب صدر میر طاہر بزنجو نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بابائے بلوچستان قوم کی سیاسی مرشد کی حیثیت رکھتا ہے ملکی و بین الاقوامی سطح پر وہ بلوچستان کی شناخت ہے آج بلوچستان کو سنجیدہ سیاست کی ضرورت ہے پر تشدد سیاست نے بلوچ قوم کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا دیا ہے اقوام کی تقدیر کا فیصلہ سیاست کے میدانوں میں ہوتے ہیں فکر بزنجو کے مطابق قبائل ضرور اپنی قبیلہ کی شناخت پر فخر کریں مگر بلوچستان کا تقاضا ہے کہ وہ قومی سوچ کو اپنا کر بلوچ کو مجموعی اہمیت دیں بلوچستان کی تاریخ اور ہم سب کا تجربہ یہ ثابت کر دیتی ہے کہ شخصی و خاندانی جماعتیں بلوچ قوم کو متحد کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی لیڈر شپ اور رہبر قبائلی تعصب اور قبائلی فرقہ پرستی کا شکار ہے بلوچ قوم کو سیاسی حوالے سے نیشنل پارٹی ہی متحد کر سکتی ہے کیونکہ اس کی قیادت با شعوع اور تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ قبائلی تعصب اور قبائلی فرقہ پرستی سے پاک ہے نیشنل پارٹی نے خضدار کے عوام کو امن دیا اب ہماری خواہش ہے کہ جھالاوان میں کتاب و قلم کے زریعے تعلیمی انقلاب برپا کر دیں کلاشنکوف کی گولی سے مولا بخش دشتی ،عطاء اللہ ساجدی ،تاج محمد ساجی ،ڈاکٹر شفیع بزنجو جیسے عظیم انسانوں کو قتل کیا جا سکتا ہے مگر بلوچ قوم کی مظلومیت کو دور نہیں کیا جا سکتا قلم بظاہر انتہائی نازک ہتھیار ہے مگر اقوام کی تقدیر صرف قلم ہی تبدیل کر سکتی ہے بابائے بزنجو کو یاد رکھنے کا واحد زریعہ قلم اور کتاب سے دوستی ہے میڈیکل کالج اور یونیورسٹیوں کی تعمیر سے جھالاوان میں علم اور آگاہی کا شعور بلند ہو گا جلسہ عام سے صوبائی وزیر زراعت و نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء سردار محمد اسلم بزنجو نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج جھالاوان کے عوام نے ہزاروں کی تعداد میں نیشنل پارٹی کے جلسہ و میر بزنجو کے برسی میں شرکت کر کے یہ ثابت کر دیا کہ آج بھی جھالاوان فکر بزنجو کا مرکز ہے خضدار میں خواتین کی اتنی بڑی تعداد میں جلسہ میں شرکت تبدیلی کا پیش خیمہ ہے انہوں نے کہا کہ میر بزنجو نے عدم تشدد کے سیاست کی بنیاد رکھی اور ہم سمجھتے ہیں کہ کلاشنکوف کے زریعے کوئی بھی اپنا نظریہ کسی پر مسلط نہیں کر سکتا خضدار سمیت نال مشکے اور دیگر علاقوں میں لوگوں کو مخبر قرار دے کر برادر کشی کی انتہاء کر دی گئی حالانکہ اصل مخبر موبائل فون ہے جو سب ک جیبوں میں ہے مکران میں نوجوانوں کے علاوہ ٹھیکیدار اور انجینئروں کو اغواء کر کے پیاس اور بھوک سے مارا گیا کیا قصور تھا ان کا ؟ خضدار میں لوگ قتل ہوئے اس وقت کوئی ان کے غم میں شریک ہونے کو تیار نہیں تھا ہم اسی صورتحال میں بھی عوام کے درمیان تھے نیشنل پارٹی کے خلاف سازشیں ھو رہی ہے میر خالد لانگو کو بے جا الزامات لگا کر پابند سلاسل کیا گیا جلسمیر خالد لانگو کو بے جا الزامات لگا کر پابند سلاسل کیا گیا ہم سیاست کو عبادت سمجھ کر کرتے ہیں اور ہمارا جینا مرنا عوام کے ساتھ ہیں عوام کو امن دیا تعلیمی ادارے دئے خضدار کی سڑکوں کو تعمیر کیا اور آنیو الے دنوں میں خضدار میں مزید ترقیاتی اسکیمات مکمل ہونے ان تمام کی ثمرات عوام ملنا شروع ہونگے جلسہ کے اختتام پرسانحہ کوئٹہ میں شہید ہونے والے وکلاء ،صحافیوں اور عام شہریوں کے یاد میں موم بتیاں روشن کی گئی