کوئٹہ : سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود کوئٹہ کی دیواریں نفرت انگیز وال چاکنگ سے بھری ہوئی ہیں۔ انتظامیہ سوئی ہوئی ہے ، قانون پر کوئی عملدرآمد نہیں ہورہا۔ میڈیا اہداف سے تجاوز کررہا ہے۔ یہ بات انہوں نے کوئٹہ میں بلوچستان ہائی کورٹ بار روم میں وکلاء سے سانحہ کوئٹہ پر تعزیت کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سانحہ کوئٹہ پر دلی افسوس کا اطہار کرتے ہوئے کہا کہ سانحہ کوئٹہ نے ہمارے دلوں کو زخمی کیا ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم وی آئی پیز بن گئے ہیں۔ بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومتے ہیں۔ ہمیں شہر کی کوئی فکر نہیں۔ انہوں نے کہا کہ کوئٹہ ایئرپورٹ سے ہائی کورٹ آتے ہوئے انہوں نے شہر کی دیواروں پر نفرت انگیز نعروں پر مبنی وال چاکنگ دیکھی۔ وال چاکنگ کے خلاف ہائی کورٹ کا حکم نامہ موجود ہے لیکن اس کے باوجود انتظامیہ سوئی ہوئی ہے اور قانون پر کوئی عمل نہیں ہورہا۔ انہوں نے کہاکہ میڈیا بھی اہداف سے تجاوز کررہا ہے۔ دہشتگردوں کی تشہیر اب بند ہونی چاہیے۔ دریں اثناء قاضی فائز عیسیٰ نے سانحہ کوئٹہ کے شہداء کے ورثاء اور غازیوں کے نام اپنے ایک خط میں کہا ہے کہ اگر میری آنکھیں آبشار ہوتیں تب بھی ان میں آنسو کم پڑجاتے۔ میرے شہید دوست مجھ سے بچھڑ گئے۔ بہت سارے شدید زخمی ہیں۔ میں یقیناًآپ ہی کی طرح پہلے تو شدید رنج و غم سے نڈھال ہوگیا پھر بے پناہ غصہ اور پھر مایوسی کا عالم، مگر پھر میں نے کلام الٰہی کی طرف رجوع کیا اور بہت سے احکامات و کلمات روز اجل کی طرح دل کی گہرائیوں میں سما گئے۔ شہید مرتے نہیں وہ زندہ ہیں۔ ( سورۃ البقرہ آیت۱۵۴ ) شہیدوں کا خون ضائع نہیں ہوتا۔ جس نے ایک انسان کا قتل کیا گویا اس نے تمام انسانیت کو قتل کیا۔ ( سورۃ المائدہ آیت ۳۲) اور قاتل ہمیشہ کیلئے دوزخ میں رہیں گے اور اللہ تعالیٰ کا ان پر عذاب اور لعنت پڑتی رہے گی اور بے انتہاء سزا ملے گی ( سورۃ النساء آیت ۹۳) اور اللہ تعالیٰ ہمیں نصیحت کرتے ہیں کہ مایوس نہ ہوں اور صبر کا دامن نہ چھوڑیں ( سورۃ ہود آیت۱۱۵)قاتلوں نے بیدردی سے قتل کئے۔ قاتلوں کی مقتولین سے کوئی دشمنی نہیں قاتلو ں نے اپنے منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کیلئے جائے شفاء کا انتخاب کیا۔ قاتلوں نے کوئی تفریق نہ کی ان کی زد میں بوڑھے اور بچے ان کی زد میں ہر دین و مذہب ان کی زد میں مرد اور عورت ان کی زد میں قانون اور آئین کے محافظ ان کی زد میں انسانیت۔ قاتلوں کو اگر جانوروں سے تشبیہ دیں تو جانوروں کی تضحیک ہوگی قاتلوں کے دل سنگ نہیں کیوں کہ پتھروں سے بھی کبھی چشمے پھوٹتے ہیں قاتلوں کے دل نفرتوں اور مایوسیوں کا مجموعہ ہیں انسان ، انسانیت سے نفرت، جائے شفاء سے نفرت، قانون کے پاسداروں سے نفرت، قوم اور ملک سے نفرت اللہ کی مخلوق سے نفرت دین الٰہی سے نفرت ۔ قاتلوں کی مایوسی کہ وہ ہمیشہ کیلئے دوزخ میں مقیم ہوں گے مایوسی کہ وہ شرم سے اپنے چہرے چھپاتے ہیں مایوسی کے بغیر جبر، بغیر بندوق، بغیر بم ان کے پیغام نفرت کی آواز ہی نہیں۔ مایوسی اس بات کی کہ جن ماؤں نے انہیں جنم دیا ان کے ہونٹوں سے اگر کوئی دعا نکلتی ہے وہ یہ کہ ان کو صراط مستقم پے لے آئیں۔ مایوسی اس بات کی کہ جب ان کی کھالیں از حکم اللہ تعالیٰ جلیں گے ( سورۃ الملک آیت۱۱) شہید جنت کی چھاؤں میں بہتے پانی کے ساتھ ہمیشہ آرام پذیر رہیں گے ( سورۃ الغاشےۃ آیت ۱۰ اور ۱۲) اب سوال اٹھتا ہے کہ اس آزمائش کے دورانیے میں ہم کیا کریں؟ کیا ہم اپنے رنج و غم کو غصہ اور نفرت میں تبدیل کردیں کیا ہم شہیدوں کے خون کو ماتمی چھاپ تک ہی محدود کردیں۔ شہداء اور زخمی پاسبان آئین و قانون تھے اور ہیں۔ مفلسوں کے ترجمان تھے اور ہیں۔ انصاف کی فراہمی میں مدد کرتے تھے اور کرتے ہیں۔ جی شہداء بھی کیونکہ وہ آج بھی زندہ ہیں کل بھی زندہ رہیں گے۔ ان کی نشست ہمارے ساتھ ہے ان کا خون ہمارے قلموں میں اتر آیاہے۔ انہوں نے اپنے خون کے عطیے سے بھائی چارے، انسان دوستی اور قانون پر عمل کرنے کی مثال قائم کی اور اب اس مشکل وقت میں ان کی نظریں ہم پرہیں کہ ہم بھی بھائی چارے، انسان دوست رویہ اورقانون کی پاسداری کرسکیں گے۔ کیا ہم انصاف کو زیادہ احسن طریقے سے مہیا کرسکیں گے۔ میرے شہید دوست آپ نے مجھے ہم سب کو بہت ہی مشکل امتحان میں ڈال دیا ہے میں پروردگار سے دعا گو ہوں کہ مجھے اور شہداء کے ورثاء اور زخمیوں کو صبر فرمائے اور آپ کے قانون و علم کے محبت کے جذبے کو مستحکم کرے اور آپ کے فراہمی انصاف کے اہداف کو ہماری مشعل راہ بنائے آمین۔