|

وقتِ اشاعت :   August 23 – 2016

کوئٹہ :  بلوچستان نیشنل پارٹی قومی جمہوری بلوچوں کی سب سے بڑی جماعت ہے پارٹی رہنماؤں و کارکنوں کی ماورائے عدالت گرفتاریوں پر خاموش نہیں رہیں گے فورسز کی جانب سے ملک ابراہیم شاہوانی کو تشدد کا نشانہ بنانا قانون کے اپنے ہاتھ میں لینا ہے ایسے اقدامات سے بلوچوں کے احساس محرومی میں اضافہ ہو رہا ہے سرچ آپریشن کے ذریعے بلوچ عوام کو تنگ کرنے کا عمل سریاب تک محدود ہے انتہاء پسندی ، دہشت گردی ، مذہبی جنونیت جنرل ضیاء الحق کے دیئے ہوئے تحفے ہیں چالیس لاکھ افغان مہاجرین کی موجودگی میں بلوچستان میں کلاشنکوف کلچر فروغ پایا آج بھی لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین موجود ہیں بلوچستان کے حکمرانوں ان کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں سانحہ کوئٹہ میں بلوچ ، پشتون سمیت تمام بلوچستانیوں کو نشانہ بنایا گیا جو کسی بھی صورت میں قابل قبول عمل نہیں بلوچستان سے مہاجرین کے انخلاء کو یقینی بنایا جائے ملک ابراہیم شاہوانی پر بلاوجہ تشدد کرنے والوں کیخلاف محکمہ کارروائی کی جائے ان خیالات کا اظہار بلوچستان نیشنل پارٹی کی جانب سے پریس کلب کوئٹہ کے سامنے منعقدہ احتجاجی مظاہرے سے مرکزی سیکرٹری اطلاعات آغا حسن بلوچ ایڈووکیٹ، مرکزی ہیومن رائٹس سیکرٹری موسیٖ بلوچ ، غلام نبی مری ، آغا خالد شاہ دلسوز و دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کیا اسٹیج سیکرٹری کے فرائض ملک محی الدین لہڑی نے سر انجام دیئے اس موقع پر پارٹی کی مرکزی خواتین سیکرٹری زینت شاہوانی ، مرکزی کمیٹی کے ممبران جاوید بلوچ ، جمال لانگو ، سینئر نائب صدر یونس بلوچ ، میر غلام رسول مینگل ، ڈاکٹر علی احمد قمبرانی ، لقمان کاکڑ ،اسد سفیر شاہوانی، احمد نواز بلوچ ،میر محمود شاہوانی،میر مجیب لہڑی، جان محمد مینگل ، فیض اللہ بلوچ ، حفیظ بنگلزئی، ہدایت اللہ جتک ، جاوید جھالاوان ،شوکت بلوچ ، ٹائٹس جانسن ، جمعہ نیچاری ، ظفر نیچاری ، کامریڈ یونس بلوچ بڑی تعداد میں کارکنوں نے شرکت کی مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بی این پی قومی و جمہوری جماعت ہے ماورائے عدالت گرفتاریوں پر خاموش نہیں رہے گی اگر کوئی پارٹی رہنماء و کارکن مطلوب ہے تو ہمیشہ تعاون کرنے کیلئے تیار ہیں لیکن کسی کو بھی قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے ملک ابراہیم شاہوانی اگر مطلوب تھے تو انہیں لیویز اہلکار گرفتار کر کے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرتے لیکن لسانی جماعت کی ایم پی اے کے ایماء پر ایف سی کے افسر کی جانب سے انہیں تشدد کا نشانہ بنانے کے حوالے سے محکمانہ تحقیقات اور کارروائی کی جائے عوام کے سامنے جس طرح انہیں تشدد اور تذلیل کی گئی ہے وہ قابل تشویش ہے آئین و قانون کی بالادستی اور عوام کو انصاف اس طرح فراہم کرنا ممکن نہیں پارٹی نے جمہوری سیاست کے ذریعے عوامی آواز بلند کی ہے اس سے قبل بھی پارٹی کے 96کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی لیکن پارٹی کو دیوار سے لگایا نہیں گیا اب جبکہ سرچ آپریشن کے نام پر سریاب میں بے گناہ نہتے بلوچوں کی تذلیل کی جاتی ہے جبکہ آمر ضیاء الحق نے چالیس لاکھ افغان مہاجرین کو کوئٹہ میں آباد کرایا ان کی آبادکاری سے کلاشنکوف کلچر ، دہشت گردی عام ہوئی آج بھی ان کو شناختی کارڈز بنا کر دینے کا عمل ، آبادکاری کا سلسلہ جاری ہے صوبائی حکومت کی جانب سے نرم گوشہ رکھنا قابل مذمت ہے جبکہ خیبر پختونخواء میں مہاجرین کو باعزت طریقے سے اپنے وطن واپس بھیجا جا رہاہے پارٹی ایک ترقی پسند جماعت ہے اصولی اور بین الاقوامی مسلمہ اصولوں کے تحت ہم چاہتے ہیں کہ وہ ساڑھے پانچ لاکھ افغان مہاجرین جو غیر قانوانی طریقے سے بلوچستان میں آباد ہیں انہیں باعزت طریقے سے افغانستان واپس بھیجا جائے صرف کوئٹہ میں سریاب کی حد تک تمام سرچ آپریشن کئے جا رہے ہیں سانحہ کوئٹہ جیسا بڑا واقعہ پیش آیا جس میں وکلاء صحافیوں کے انسانی جانوں کو جس بے دردی کے ساتھ شہید کیا گیا واقعے میں ملوث ملزمان کو آج تک گرفتار نہیں کیا گیا جبکہ سریاب میں نہتے بے گناہ معصوم بلوچوں کو ذہنی کوفت دینے اور تلاشی کے بہانے ان کی تزلیل کی جاتی ہے اب تو تمام اختیارات فورسز کے ہاتھ میں ہیں عدالتیں بھی موجود ہیں اگر کسی نے کوئی جرم کیا ہو تو عدالتوں میں پیش کیا جائے قانون کو ہاتھ میں لینا کسی صورت درست اقدام ہے بی این پی جمہوری جماعت ہے لیکن بے گناہ نہتے معصوم بلوچوں کی گرفتاری ، چادر و چار دیواری کے تقدس کی پامالی ہرگز برداشت نہیں کرے گی پارٹی عدالتی چارہ جوئی کا حق محفوظ رکھتی ہے حکام بالا اس واقعے کی تحقیقات کر کے ذمہ دارانہ کے خلاف کارروائی کریں مقررین نے کہا کہ اس سے قبل بھی مختلف ادوار میں بی این پی کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی لیکن بڑی تعداد میں رہنماؤں و کارکنوں کو شہید کیا گیا لیکن آج تک بی این پی عوام کے دلوں کی دھڑکن بن چکی ہے عوامی قوت کے طور پربلوچستان میں ابھر رہی ہے انہوں نے کہا کہ ملک کا قانون کسی کو یہ اختیار نہیں دیا کہ جمہوری جدوجہد کرنے والوں کو بذریعہ طاقت زیر کیا جائے ہماری جدوجہد جمہوری ہے ہم بلوچوں کے حق حاکمیت ، ساحل وسائل پر اختیارات اور بلوچستان کے جملہ مسائل کے حل کیلئے ہم جدوجہد کر رہے ہیں اسی پاداش میں ہمارے رہنماؤں و کارکنوں کو بڑی تعداد میں شہید کیا گیا اس کے باوجود پارٹی کو دیوار سے نہیں لگایا جا سکا انہوں نے کہا کہ 2013ء کے جعلی الیکشن کے بعد حکمران اقتدار پر براجمان ہیں انہوں نے عوام کے معاشرتی مسائل حل کرنے میں ناکام ہوئے آج بھی بلوچستان میں ہم کہتے ہیں کہ انسانی حقوق کی پامالی کی جا رہی ہے تو حکمران کہتے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہے ایسے اقدامات سے بلوچوں کے احساس محرومی میں اضافہ ہو رہا ہے جب معاشرے میں ناانصافیاں ہوتی ہیں تو احساس محرومی میں اضافہ فطری عمل ہے پارٹی نے ہمیشہ معاشرے میں حق و صداقت اور بلوچوں کے بنیادی حقوق ، چادر و چار دیواری کے پامالی پر اصولی موقف اپنایا معاشروں میں جمہوری سوچ ، فکراور آواز پر قدغن لگائی جائے تو اس کے نتائج بہتری کی جانب نہیں بلکہ جمہور کے خلاف عمل ہوتے ہیں ملک ابراہیم شاہوانی پر جھوٹا مقدمہ ختم کر کے انہیں رہا کیا جائے صوبائی حکومت ایم پی ایز ، ایم این ایز سیاسی اور لسانی بنیادوں پر سیاست ترک کریں اگراسی طریقے سے دوسری سیاسی جماعتوں کی سیاسی رہنماؤں و کارکنوں کو حکمرانوں کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا تو یہ بلوچستان کے مثبت روایات کے خلاف اقدام ہو گا کیونکہ بلوچستان میں سیاسی رواداری ، باہمی احترام کا رشتہ ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے لیکن 2013ء کے جعلی انتخابات کے بعد حکمرانوں نے اخلاقی پاسداری نہ کی بلکہ کرپشن ، اقرباء پروری اور طاقت کے نشے میں بلوچستان کے ہزاروں سالوں پر محیط مثبت روایات کو پامال کرنے سے گریزنہیں کیا ۔