حال ہی میں وفاقی حکومت نے سائبر کرائم بل منظور کیا ہے۔ 29 جولائی2016کو سینٹ میں بل منظور ہوا کہ internetکے ذریعے دہشت گردی پھیلانے کی سزا چودہ سال قید اور پچاس لاکھ روپے جرمانہ ہوگا اور کسی بے گناہ کو تنگ کرنے یا غیر اخلاقی ‘ غیرقانونی مواد پھیلانے پر سات سال قید ہوگی ۔بل تو منظور ہوگیا کیا عوام اس بل کو مانے گی ؟ یا ٹریفک قوانین کی طرح اس کا حال ہوگا۔یوں تو انٹر نیٹ کے بے پناہ فوائد ہیں جو کہ آج کے جدید اور مشینی دور میں معلومات کا ایک خزانہ لیے ہوئے ہے۔ ہماری نوجوان نسل اور بچے اس عفریت کا شکار ہیں پاکستان میں دس ‘ آٹھ سال کے بچے بچے کا فیس بک ‘ ٹوئٹر پر جعلی اکاؤنٹ بنا ہوا ہے ۔ لفظ جعلی اس لئے استعمال کررہی ہوں کیونکہ فیس بک قوانین کے مطابق 18سال سے کم عمر بچوں کو فیس بک استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔ہمارے ہاں خود والدین اپنے بچوں کو اکاؤنٹ بنا کر دیتے ہیں کہ یہ بچوں کے لئے درست ہے ؟ ہم خود اپنی نسل کو تباہ کر رہے ہیں انٹر نیٹ آج کے دور کی اہم ضرورت ہے لیکن اس کو استعمال کرنے کا طریقہ درست ہو ۔ ہمارے ہاں ہر ایک کے پاس لیپ ٹاپ ہے ۔ موبائل فونہے ، اچھی بات ہے لیکن سب سے اولین ترجیح تو تعلیم ہونی چائیے۔ بچوں کو اس جانب راغب کرنے کے بجائے ان کو تباہ کنبربادی کی طرف لے جا رہے ہیں۔ بچوں کو کمپیوٹر کا استعمال کرائیں ضرور کرائیں پر ان کی عمر کے مطابق وقت سے پہلے ان کے ذہنوں کو بڑا مت بنائیں کیونکہ آگے چل کر معصوم ذہن سائبرکرائم میں ملوث ہوتے ہیں۔ کیا فیک اکاؤنٹ جرم نہیں ؟ یا سائبر کرائم نہیں اب بھی وقت ہے ہمیں اپنے پھولوں کومہکانا ہے آگے چل کر انہیں دنیا میں آگے بڑھنا ہے یہ ہمار ے والدین کا اساتذہ کا ہم سب کا فرض ہے حکومت کا نہیں۔ قطرہ قطرہ ہی سمندر بنتاہے ہم صرف حکومت کو مورد الزام نہ ٹھہرائیں۔ حکومت نے توہماری سہولت کے لئے کرائم بل منظور کی ہے اب ہمیں خود انفرادی طورپر قدم اٹھا کر بڑھنا ہے ۔ ذرائع کے مطابق 56فیصد فیس بک اکاؤنٹ جعلی یا فیک ہوتے ہیں حکومت کو اب اس طرف بھی توجہ دینی چائیے یا تو جب کوئی اکاؤنٹ بنائے تو شناختی کارڈ نمبرضرور درج ہو یا عمر کی تصدیق ہو۔ اس طرح ہمارے بچے وقت سے پہلے بڑے نہیں بنیں گے ۔