|

وقتِ اشاعت :   September 12 – 2016

کوئٹہ : بلوچ نیشنل فرنٹ کی جانب سے تربت میں خواتین کا دھرنا تیسرے روز بھی جاری رہا۔ دھرنے کے تیسرے روز خواتین نے احتجاجی سلسلے میں وسعت لاتے ہوئے تربت بازار کو بھی احتجاجاََ بند کردیا جس کی وجہ سے شہر بھر میں کاروباری زندگی مفلوج رہی ۔ محاصرے کے ساتویں روز فورسز نے گھر میں موجود ایک خاتون کو دو بچیوں سمیت گرفتار ی کے نام پر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔ بلوچ خواتین و بچوں کی اغواء کی خبر پر لوگوں کی بڑی تعداد نے بی این ایف کے دھرنے کے ہمراہ شامل ہوکرشدید نعرے بازی کر کے مطالبہ کیا کہ حراست میں لئے گئے خاتون و بچوں کو فوری رہا کیا جائے۔ بی این ایف کے ترجمان نے خواتین کی اغواء نما گرفتاری پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی فورسز دیدہ دلیری اور ہٹ دھرمی کے ساتھ بلوچستان میں جبر کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔ خواتین کی طویل احتجاج کے باوجود فورسز نے محاصرہ ختم کرنے کے بجائے محصور خواتین میں سے ایک کو بچوں سمیت گرفتار کردیا، جن کے بارے میں کسی کو خبر نہیں کہ وہ کدھر اور کس حال میں ہیں۔ جبکہ تین مہینے کا شیر خوار بچہ پہلے ہی اور علاج کیلئے تربت آئے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ گزشتہ کئی دنوں سے ڈیرہ بگٹی، کوہستان مری سمیت سندھ و بلوچستان کے سرحدی بلوچ علاقوں میں آپریشن شدت کے ساتھ جاری ہے۔ اس آپریشن میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق ایک درجن سے زائد بلوچ فرزندان کو قتل کیا جا چکا ہے جبکہ ایک درجن سے زائد خواتین سمیت درجنوں لوگ گرفتاری کے بعد لاپتہ کیے جا چکے ہیں۔ ترجمان نے بلوچ خواتین کی اغواء کے حالیہ سلسلے کو ریاستی پالیسیوں میں خطرناک تبدیلی قرار دیتے ہوئے کہا کہ خواتین کے اغواء سے ریاست بلوچ عوام کو یہ پیغام پہنچانے کی کوشش کررہی ہے کہ بلوچ آزادی کی سیاسی تحریک کو ختم کرنے کے لئے فورسز ریاستی طاقت کو انتہائی حد تک استعمال کر سکتے ہیں۔ بی این ایف کے ترجمان نے خدشہ ظاہر کیا کہ اس طرح کی کاروائیوں کے خلاف اگر بروقت عالمی ردعمل سامنے نہ آئی تو یہ خاموشی بلوچستان میں ریاستی فورسز کی جانب سے بنگلہ دیش طرز کی کاروائیوں کو دہرانے کا سبب بن سکتی ہے۔ ترجمان نے اعلان کیا کہ اگر فورسز نے بلوچ خواتین کو فوری رہا نہیں کیا تو احتجاج کے سلسلے میں وسعت و شدت لائی جائے گی۔