|

وقتِ اشاعت :   September 23 – 2016

بلوچستان جغرافیائی حوالے سے جتنی اہمیت رکھتا ہے اتنے ہی اپنے وسائل سے وہ عالمی توجہ کا مرکز بنا ہواہے‘ پاکستان بننے سے قبل ایسٹ انڈیا کمپنی کے زیر اثر رہنے والا بلوچستان اسی طرح ہی پسماندہ تھا جس کا نقشہ کم وبیش آج بھی نظر آتا ہے۔ انگریزوں نے صرف ایک بہترین ریلوے نظام بنایا وہ بھی اپنی سفری سہولیات کیلئے اس کے علاوہ انگریزوں نے بلوچستان پر کوئی خاص توجہ نہیں دی اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بلوچستان زرعی علاقہ نہیں تھا جس سے انہیں بہتر آمدن مل سکے انہوں نے بلوچستان کو صرف اس لیے زیر اثررکھا کیونکہ جغرافیائی حوالے سے اس کی اہمیت سے وہ بخوبی آگاہ تھے مگر انہوں نے باقاعدہ خود یہاں حکمرانی نہیں کی اس لیے تمام معاملات قلات اسٹیٹ ہی چلاتا رہا‘ پاکستان جب معرض وجود میں آیا تو سب سے پہلے یہاں معدنی وسائل کی تلاش شروع کی گئی کیونکہ اُس زمانے میں ٹیکنالوجی اتنی جدیدنہیں تھی کہ انگریز قدرتی وسائل سے مستفید ہوتے‘۔ڈیرہ بگٹی کے علاقے سوئی سے 50ء کی دہائی میں گیس کی دریافت ہوئی تو یہاں کام کا آغاز کیا گیا اور گیس سے مکمل استفادہ شروع کیا گیا جو ہنوزآج بھی جاری ہے۔ بدقسمتی سے بلوچستان خود اپنے ہی گیس سے محروم ہے اس کاقصور صرف ایک کو نہیں ٹہرایاجاسکتاکیونکہ بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں نے بھی یہاں وقتاََفوقتاََحکمرانی کی جو کچھ انہیں بلوچستان کیلئے کرنا چاہیے تھاشاید اتنا نہ کرسکے۔ آج بلوچستان جس جنگی ماحول سے گزررہا ہے اسکی وجہ غلط پالیسیاں ہیں اگر آج سی پیک پر خدشات کااظہار کیاجارہا ہے تو اس کی وجہ ناانصافیاں ہیں جن کی تلافی اب تک نہیں ہوئی ہے۔ سوئی گیس‘ریکوڈک‘سیندک جیسے اہم منصوبوں سے بلوچستان کو کچھ بھی نہیں ملا آج بھی بلوچستان دیگر صوبوں کی نسبت ہرشعبے میں پیچھے ہے‘ تعلیمی ادارے خستہ حال ہیں‘ہسپتال نہ ہونے کے برابر ہیں اور جتنے ہیں ان میں سہولیات نہیں‘معاشی زون لسبیلہ میں صرف کمپنیاں پیسے بٹوررہی ہیں جبکہ مقامی آبادی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں‘ بلوچستان کے وسائل کو بروئے کار تو لایاجارہاہے مگر اس کا فائدہ یہاں کے عوام کونہ ملا ہے اور نہ ہی اس پر خاص توجہ دی جارہی ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی کامیابی کیلئے سب دعا گوہیں مگراس کا فائدہ بھی بلوچستان کو ملتا دکھائی نہیں دے رہاالٹا بلوچ عوام کو اپنی شناخت بچانے کی فکر کھائے جارہی ہے۔دوسری طرف بلوچستان میں آج بھی سڑکوں کا نظام موجود نہیں جس کی وجہ سے بلوچستان کے عوام سفری سہولیات سے محروم ہیں‘پورے بلوچستان پر نظر دوڑائی جائے تو ایک پسماندہ علاقہ ہی نظر آئے گا‘سی پیک منصوبے کی تکمیل سے معاشی تبدیلی کی جوبات کی جارہی ہے تو اس انقلاب کے آثار سب سے پہلے گوادر پھر بلوچستان بھر میں دکھائی دینے چائییں اس کے بعد پورا ملک اس سے استفادہ کیونکہ معاشی تبدیلی اور ناانصافیوں کی تلافی سے ہی حالات کو بدلاجاسکتا ہے ۔موجودہ حالات خود اس بات کی غمازی کررہے ہیں کہ بلوچستان کو ایک بڑے جنگ کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے جسے روکنے کیلئے اپنے ہی لوگوں کے ساتھ مذاکرات کو ترجیح دی جائے بجائے کہ دونوں اطراف سے تند وتیز جملوں کے ساتھ جنگی ماحول پیداکیاجائے کیونکہ اس کا فائدہ بیرونی طاقتیں زیادہ اٹھائیں گی۔ ماضی میں غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہم نے بہت سے نقصانات اٹھائے وقت کا تقاضہ یہی ہے کہ بلوچستان کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ماضی کی نا انصافیوں کا ازالہ کرتے ہوئے محرومیوں کا خاتمہ کیاجائے اور سی پیک منصوبے کے متعلق جتنے بھی خدشات وتحفظات ہیں انہیں دور کیاجائے تاکہ بلوچستان میں خوشحالی کا سورج طلوع ہونے کے ساتھ امن وامان بہتر ہوسکے کیونکہ یہی ملک اور خطے کی مفادات کیلئے بہتر ہے وگرنہ دیگر قوتیں اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حالات کو خراب کرنے کی کوشش کرینگے ۔چائیے کہ ہم اپنے معاملات کو خود سلجھانے کی طرف بڑھیں اور ماضی کی تمام غلطیوں کی تلافی کریں۔ بلوچستان میں ترقیاتی کاموں کا جال بچھاکر عام لوگوں تک اس کے ثمرات پہنچائے جائیں کیونکہ بلوچستان کی ترقی ہی دراندازی کا منہ توڑ جواب ثابت ہوگا اور آج حالات بھی یہی تقاضہ کررہے ہیں کہ ہم ماضی میں کیے جانے والی تمام ناانصافیوں کا ازالہ کرتے ہوئے بلوچستان کو ایک پُرامن اور ترقی یافتہ صوبہ بنائیں جس کا خواب نہ صرف بلوچستان بلکہ ملک کے عوام دیکھ رہے ہیں۔