|

وقتِ اشاعت :   September 29 – 2016

ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت بلوچستان میں الیکٹرانک میڈیا کی کوریج نہ ہونے کے برابر ہے حتیٰ کے گورنر ،وزیراعلیٰ بلوچستان کی پریس کانفرنسز ودیگر ایونٹ کو بھی جگہ نہیں ملتی ۔یہ بلوچستان کے ساتھ الیکٹرونک میڈیا کاناروا سلوک ہے الیکٹرونک میڈیا کی بیشترخبریں لاہور،کراچی،اسلام آباد کی ہوتی ہیں اگر تھوڑی سی جگہ مل جائے تو وہ بھی خیبرپختونخواہ کو ملتا ہے۔ بلوچستان کا تذکرہ اگر خبروں میں سننے کو ملے گا تو وہ بھی دھماکوں،ٹارگٹ کلنگ،اغواء برائے تاوان یعنی صرف کرائم کے حوالے سے۔ سیاسی ،سماجی،ادبی سمیت دیگر سرگرمیوں کیلئے نیوز بلیٹن میں بلوچستان کوکوئی حصہ نہیں دیاجاتا۔ ماضی میں بھی الیکٹرونک میڈیا کے اس ناروا رویے کے خلاف سیاسی جماعتیں سراپااحتجاج بنیں تھیں کہ الیکٹرانک میڈیا ان کے جلسے، جلوس، ریلیوں سمیت دیگر سرگرمیوں کو کوریج نہیں دیتی ۔اگر جائزہ لیاجائے اور غیر جانبدار ہوکر سوچاجائے تو ان سیاسی جماعتوں کا احتجاج حق بجانب ہے کیونکہ الیکٹرانک میڈیا نے بلوچستان کو اپنی اسکرین سے بالکل آؤٹ کردیا ہے۔ نیوز بلیٹن اور کرنٹ افیئرز کے پروگرام میں اُس وقت بلوچستان کا ذکر آتا ہے جب وزیراعلیٰ سمیت دیگر وزراء اپنی نیوز کانفرنس میں بیرونی مداخلت کا ذکر کرتے ہیں یا پھر جس طرح بھارتی وزیراعظم نے بلوچستان کا ذکر کیا تو پوری میڈیانے بلوچستان کے معاملات کو اٹھایا مگر یہ ایشو ابھی کا نہیں یہ تو سلسلہ جاری وساری ہے۔بدقسمتی سے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس سے لیکر اہم سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں تک سبھی کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کیلئے فنکاروں ،کرکٹروں اور دیگر سیاستدانوں کی شادی کی کوریج اور اُن کی شادی نہ ہونے کی وجہ اہم خبر ہے مگر بلوچستان کی حکومتی جماعتوں سے لیکر اپوزیشن جماعتوں کی سرگرمیوں کو کسی بھی طرح اجاگر نہیں کیاجاتا۔ جب بھی بلوچستان کا مسئلہ سراٹھاتا ہے تو سب سے پہلے یہی حضرات کہتے ہیں کہ بلوچستان کو سمجھنے کی ضرورت ہے ماضی کی زیادتیوں کا ازالہ کرنے کیلئے وفاقی حکومت کی توجہ ضروری ہے جب یہ الفاظ دہرائے جاتے ہیں ایسے محسوس ہوتا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کے اینکرپرسن اہل بلوچستان کا غیر محسوس طریقے سے مزاق اڑارہے ہیں۔ بلوچستان سے آج تک وفاق کی طرح الیکٹرانک میڈیا بھی ناواقف ہے ‘کوئٹہ سے لیکر گوادر،پنجگور،چاغی،ژوب ،لورالائی سمیت دیگر علاقے کہاں واقع ہیں ان کے مسائل کیا ہیں اور یہ کوئٹہ سے کتنے کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں ان سے بالکل ناواقف ہیں پھر یہی افراد بلوچستان مسئلے کو سلجھانے کیلئے وہی پرانے سوالات کو اٹھاتے ہوئے اپنی طرف سے تجزیہ کرتے ہوئے مسئلے کو حل کرنے کی بات کرتے ہیں۔ اگر واقعی الیکٹرانک میڈیابلوچستان مسئلے کو اتنی اہمیت دیتا ہے تو انہیں بلوچستان کے تمام سٹیک ہولڈرز کوکوریج دینی چاہیے اور بلوچستان کے تمام ایشوز کو نیوز بلیٹن میں اجاگر کرنا چائیے اور ساتھ ہی کرنٹ افیئرز کے پروگرام میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سیاسی جماعتوں اور تجزیہ کاروں کو مدعو کریں تاکہ صحیح معلومات نہ صرف میڈیا تک پہنچ سکیں بلکہ ملکی عوام بھی بلوچستان سے واقف ہوجائیں۔ بلوچستان میں آج کل یہی خبر گرم ہے کہ یہاں کی سیاسی جماعتوں سمیت دیگر اہم ایشوز کو الیکٹرانک میڈیا کوریج نہیں دے رہی جس کی وجہ سے اُن کا بائیکاٹ کیاجائے گا۔ اگر بائیکاٹ کیا گیا توالیکٹرانک میڈیا پر اس کے کیا اثرات پڑینگے مجھے نہیں لگتا وہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لینگے کیونکہ ماضی میں بھی الیکٹرانک میڈیا کا بائیکاٹ کیا گیا پھر وعدے کیے گئے کہ بلوچستان کے معاملات کو اجاگر کرنے کیلئے الیکٹرانک میڈیا اپنا کردار ادا کرے گا مگر وعدے کے برعکس ایک بار پھر بلوچستان کو نظرانداز کیاگیا۔ ایک طرح سے دیکھاجائے تو الیکٹرانک میڈیا بلوچستان کو نظرانداز کرکے یہاں کے لوگوں کی زخموں پر نمک پاشی کررہا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا بلوچستان کو شاید اس لیے کوریج نہیں دیتی کیونکہ اُن کی ریونیو یعنی مارکیٹنگ اتنی نہیں ہوتی کہ جتنی پنجاب،سندھ اور خیبرپختونخواہ میں ہو تی ہے۔ بعض سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا سے بلوچستان کا اوجھل رہنا نیک شگون نہیں کیونکہ بلوچستان اس وقت پاکستان کی ترقی کیلئے اہم کردار ادا کرنے جارہا ہے اور اس کے خلاف بڑی سازشیں رچائی جارہی ہیں۔اگر ہم صرف چند ایک خبر دے کر یہ سمجھیں کہ اپنا فریضہ ادا کیا تو یہ بالکل غلط ہوگا ۔بلوچستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو نیوزبلیٹن کا حصہ بنانا چاہیے تاکہ بلوچستان کے سنجیدہ معاملات پرجو سیاسی ومذہبی جماعتیں مؤقف رکھتی ہیں ان سے سب کو آگاہی مل سکے اور آگے کیاہونے جارہا ہے وہ کیا کہتے ہیں تو اس سے وفاقی حکومت سمیت دیگر صوبوں کی جماعتیں بھی آگاہ ہوں ۔ اب یہ الیکٹرانک میڈیا کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بلوچستان کو نیوز بلیٹن وکرنٹ افیئرزکے پروگراموں میں نظرانداز کرنے کی بجائے جگہ دے تاکہ میڈیا کی زیادتی کے حوالے سے جو خدشات وتحفظات ہیں وہ دور ہوسکیں۔ سب سے بڑی ذمہ داری ایڈیٹوریل گروپ میں بیٹھے افراد کی بنتی ہے کہ وہ بلوچستان کو صرف مارکیٹنگ کے حوالے سے نہ دیکھیں بلکہ بدلتی صورتحال کو مدنظر رکھ کر اپنی ذمہ داری نبھائیں۔ الیکٹرانک میڈیا کی طرف سے اب اس احتجاج کو کس طرح لیاجائے گا یہ کہنا قبل از وقت ہوگا مگر یہ سوچ پروان چڑھتی جارہی ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کیلئے بلوچستان کی کوئی اہمیت نہیں جو ایک اچھا عمل نہیں ہونا چاہیے کہ الیکٹرانک میڈیا بلوچستان کو پنجاب ،سندھ،خیبرپختونخواہ کی حد تک نیوز بلیٹن میں حصہ نہیں دے سکتی تو کم ازکم اہم ایونٹس کو جگہ دے کر اس بائیکاٹ کے عمل کو روکے جو دونوں فریقین کیلئے بہتر ثابت ہوگا۔