|

وقتِ اشاعت :   September 30 – 2016

کوئٹہ سول ہسپتال میں خود کش حملے کے دوران 50سے زائد وکلاء جبکہ 74افراد جاں بحق ہوئے تھے جو ملکی تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ تھا جس میں وکلاء کی بڑی تعداد شہید ہوئی تھی۔اس واقعہ میں وکلاء کو ٹارگٹ کیا گیا جس کی منصوبہ بندی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے جب وکیل رہنماء کو منو جان روڈ پر ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایاگیاجب انہیں سول ہسپتال منتقل کیا گیا تو وہاں پہلے سے ہی دہشت گرد موجود تھے جنہوں نے خود کش حملہ کرکے وکلاء کو نشانہ بنایا۔ اس بڑی دہشت گردی میں کون ملوث تھے اس کی خبر یقیناًقانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہوگی۔ اس واقعہ کی منصوبہ بندی پہلے سے بن چکی تھی دہشت گردوں کے سہولت کار کوئٹہ میں ہی موجود تھے جس کا اندازہ واقعہ سے لگایاجاسکتا ہے کیونکہ علی الصبح جب یہ واقعہ رونما ہوتا ہے تو یہ دہشت گرد کہاں ٹہرے تھے ان کو کس نے پناہ دے رکھی تھی‘ بدقسمتی سے ہمارے یہاں باہر سے بڑی تعداد میں لوگ روزانہ بارڈر کراس کرکے آتے جاتے ہیں جس کے بہانے دہشت گرد بھی داخل ہوکر منصوبہ بندی کرتے ہیں اور ان کے سہولت کار شہر میں ہی موجود رہتے ہیں۔ وکلاء کا احتجاج حق بجانب ہے کیونکہ 48 دن گزرنے کے باوجود دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کا سراغ نہیں لگایا جاسکا جس پر سیاسی جماعتوں نے بھی شدیدنکتہ چینی کی ہے کہ اگر اسی طرح دہشت گردی کے واقعات رونما ہوتے رہینگے تو کسی بھی طبقہ کے افراد خود کو محفوظ نہیں سمجھیں گے۔ اگر ہم بغورجائزہ لیں کہ جب شام میں حالات انتہائی خراب ہوئے تو یورپ نے شامی باشندوں کیلئے اپنے دروازے کھول دیئے تاکہ وہ اس جنگی حالات سے محفوظ ہوسکیں اور اس کے چند ماہ ہی کے دوران یورپ کے مختلف ممالک میں دھماکے ہوئے ایک ہفتے کے دوران دہشت گردوں کے ماسٹرمائنڈ سمیت خود کش حملہ آوروں، سہولت کاروں کی تہہ تک پہنچاگیاجس کے بعد اب صورتحال وہاں کنٹرول میں آئی ہے اور یورپ نے اپنے تمام بارڈرز سیل کردئیے تاکہ دہشت گرد پھر یورپ کے اندر داخل ہوکر دہشت گردی نہ کرسکیں۔ المیہ یہ ہے کہ اتنے دن گزرجانے کے باوجود ہمارے یہاں اب تک کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی ہے جس کی وجہ سے وکلاء سراپااحتجاج ہیں اور عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کرکے بیٹھے ہیں۔ وکلاء رہنماء بننے والے کمیشن سے بھی مطمئن نظر نہیں آرہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وکلاء کیوں سڑکوں پر نکل آئے ہیں اس کی وجہ ہماری کمزوریاں ہیں جس پر ہم کبھی غور وفکرنہیں کرتے اور اسی وجہ سے ہر سال دہشت گرد ہمیں اس طرح کے سانحات سے دوچار کرتے ہیں اس وقت پورے ملک میں دہشت گردوں نے اپنی جال بچھا رکھی ہے ان کا سراغ لگانا انتہائی ضروری ہے۔ہمیں سرحدوں کی نگرانی سخت کرنے کی ضرورت ہے اور یہاں بیٹھے سہولت کار جو مختلف صورت میں موجود ہیں ان کا سراغ لگانا بھی اشد ضروری ہے۔ وکلاء برادری کے احتجاج سے قبل ہی کچھ ایسے اقدامات اور گرفتاریاں عمل میں لائی جاتیں جس سے وکلاء برادری کو تسلی ملتی مگر اب تک دہشت گردوں کے ماسٹرمائنڈ،اس میں ملوث عناصروں تک نہ پہنچنا افسوسناک ہے۔ وفاقی وصوبائی حکومت سمیت سیکیورٹی اداروں کی مکمل ذمہ داری بنتی ہے کہ سانحہ 8 اگست سمیت دیگر دہشت گردی کے واقعات میں ملوث شدت پسند گروہوں کے خلاف تیزی کے ساتھ کریک ڈاؤن شروع کیاجائے اور انٹیلی جنس اداروں کو متحرک کرکے ان کا قلع قمع کیاجائے کیونکہ اس وقت ملک نازک دور سے گزررہا ہے اور بہت بڑی سازشیں تیار کی جارہی ہیں جس سے نمٹنے کیلئے سیکیورٹی فورسز کا ہائی الرٹ رہنا ضروری ہے۔ سانحہ 8 اگست کے واقعہ نے نہ صرف ملک بلکہ دنیابھر کو ہلاکے رکھ دیا تھا یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس میں پہلی بار بڑی تعداد میں وکلاء کو نشانہ بناکر شہید کیا گیا جو ہمارے معاشرے کا پڑھا لکھا طبقہ ہے جس سے ہمیں شدید نقصان پہنچاہے۔اب یہ ذمہ داری حکومت اور سیکورٹی اداروں کی بنتی ہے کہ وہ اس سانحہ میں ملوث دہشت گردوں کو کیفرکردار تک پہنچائیں اور اس کے ساتھ ہی ہسپتالوں،کورٹ بار،تعلیمی اداروں سمیت دیگر اداروں،تفریح مقامات ،تجارتی مراکزاور عوامی مقامات کی سیکورٹی کو سخت کیاجائے تاکہ دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہ ہوسکیں۔