کوئٹہ : بلوچستان اسمبلی کی پبلک اکاونٹس کمیٹی کا ہنگامہ خیز اجلاس کمیٹی کے چیئرمین رکن صوبائی اسمبلی مجید خان اچکزئی کی زیر صدارت ہواجس میں انہوں نے اجلاس سے غیر حاضری پر وزیراعلی بلوچستان نواب ثناہ اللہ زہری سے سفارش کی کہ بی ڈی اے کے چیئرمین جی ایم اور ڈاریکٹر فنانس کو فوری طور پر معطل کرکے نئے افسران کا تقرر کیا جائے تاکہ محکمے مین اربوں روپے ہونے والی کرپشن کا پردہ چاک کیا جاسکے موجودہ افسران تحقیقات کی راہ میں نہ صرف رکاوٹ ہیں بلکہ بارہا بارہا طلب کرنے اجلاس میں نہیں آتے اور نہ ہی ریکارڈ فراہم کررھے ہیں انہوں نے کہا کہ اگرکمیٹی کی سفارشات پر عملدرامد نہ ہوا تو وہ پبلک اکاونٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ سے استعفیٰ دے دیں گئے اس بات کا اعلان انہوں نے پبلک اکاونٹس کمیٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت جب برسراقتدار آئی تھی تو ہم نے عہد کیا تھا کہ ہر محکمے سے کرپشن کا خاتمہ کرکے دم لیں گئے اور اسی حکومت نے سترہ سال بعد پبلک اکاونٹس کمیٹی کو فعال کیا اور تواتر سے اسکے اجلاس جاری ہیں اور ہم مختلف محکموں میں ہونے کرپشن اور بدعنوانی کا جائزہ لے رھے ہیں اس سے قبل پبلک اکاونٹس کمیٹی کا اجلاس شروع ہوا تو بی ڈی اے کے چیئرمین سمیت دیگر حکام موجود نہیں تھے جس پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چیئرمین پبلک اکاونٹس کیمٹی نے فوری طور پر ہدایت کی کہ چیف سیکرٹری سے رابطہ کر کے چیئرمین بی ڈی اے اور دیگر حکام کی اجلاس میں شرکت کو یقینی بنایا جائے اگر ایسا ممکن نہ توآئی جی پولیس کو ہدایت کی جائے کہ انہیں گرفتار کرکے عدالت میں پیش کرے تاہم بعد ازاں بی ڈی اے حکام کی جانب سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ چیئرمین بی ڈی اے ہ بیمار ہیں اور اجلاس میں شریک نہیں ہوسکتے جبکہ جی ایم اور ڈاریکٹر فناس سرکاری کام کے سلسلے میں شہر سے باہر ہیں جس پر کمیٹی نے متفقہ طور پر وزیراعلی بلوچستان نواب ثناہ اللہ زہری اور چیف سیکرٹری بلوچستان سے سفارش کی چیئرمین بی ڈی اے جی ایم بی ڈی اے اور ڈاریکٹر فناس کو فوری طور پر معطل کیا جائے اور انہیں اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ صوبے میں موجود رہیں اور کمیٹی جس کورٹ میں انکا کیس بھجے وہاں حاضر ہوں جبکہ یہ مطالبہ بھی کیا کہ جلد نئے چئیرمین بی ڈی اے اور دیگر افسران کا تقرر کیا جائے تاکہ تحقیقات میں پیش رفت ہوسکے اور گذشتہ ٓاٹھ سال بی ڈی اے میں ہونے والی کرپشن سامنے آسکے انہوں نے کہ یہ بلوچستان میگا کرپشن کیس سے بھی بڑا معاملہ ھے اور میری اطلاعات کے مطابق گذشتہ آٹھ سالوں میں دس ارب روپے خردبرد کیئے گئے ہیں اور سب سے زیادہ کرپشن ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی میں ہورہی ھے گذشتہ اجلاس میں کیمٹی کو یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ تمام ملازمین کو تنخواہیں بینک کے زریعے دی جائیں گئیں لیکن اب تک ملازمین کو کیش میں ادائیگی کی جارہی ھے جس سے ظاہر ہوتا ھے کہ تنخواہوں کی مد میں بھی لاکھوں روپے خردبرد ہورھے ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ھے انہوں نے کہا کہ ایک کلرک کو جی ایم بنادیا جاتا ھے اور گریڈ چودہ کے ملازم کو دنوں میں گریڈ انیس میں بٹھا دیا جاتا جس نے نیب کیساتھ بارگینگ میں سینتیس کڑوڑ ادا کیئے ہیں ہمیں پتہ چلنا چائیے کہ اس شخص نے کرپشن کتنے کی ھے کمیٹی کا اجلاس کل اور پرسوں بھی جاری رھے گا۔