پاکستانی معاشرہ قول اور فعل کی تضادات کے سبب بد ترین دوغلاپن کا شکار ہے۔ جس کا سبب مقتدرہ کی روایتی سوچ او ر زمینی حقائق میں بڑھتے فاصلے ہیں ۔حالات یکسر بدل چکے ہیں جبکہ روایتی اور فرسودہ خیالات اپنی جگہ پر قائم ہیں ۔بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرنے کی اس بچگانہ روش نے سماج کو مجموعی طور پر کھوکھلا بنا کر رکھ دیا ہے۔ ہٹ دھرمی پر مبنی اس غیر انسانی اور غیر اسلامی رویوں کی موجودگی میں اجتماعیت کے لیے معقولیت کی بجائے گروہی تصورات پر مبنی عمل میں مشکلات کا حل تلاش کیا جاتا ہے ۔اس وقت یہ خلا ایک نہیں کئی نسلوں کا ناقابل عبورجنریشن گیپ میں بدل چکا ہے۔جس کے نتیجے میں معاشرہ ایک خوف ناک باہمی تصادم کی جانب گامزن ہے۔طرفہ تماشا یہ ہے کہ ہمارے روایتی اور تاریخی دوست اس کو مزید ہوا دینے کا سبب بن رہے ہیں تاکہ تصادم کے نتیجے میں بھڑکے آگ کے فلک بوس شعلے ریاست کی تشکیل کئے ہوئے اقوام کی تاریخی تمدنی اور تہذیبی اقدار جل کر راکھ میں تبدیل کریں اور یہ خطہ ایک بار پھر بارود کی ڈھیر میں تبدیل ہو جائے۔حُکمران کلب کی نوازشات اُن سے جڑے ایک مخصوص ابن الوقت طبقے کیلئے مختص ہیں جو ان کے قصیدے پڑھتے ہیں جبکہ پیداواری عمل میں شریک محنت کش، مزدور اور غریب طبقے مسلسل محروم اور نظر انداز ہیں ۔میڈیا کا غالب عنصر غیر ضروری اور غیر معروضی مباحث کو ہوا دے کر اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں ماررہی ہے ۔اور مڈل کلاس آنکھیں بند کر کے میٹھی نیند کے مزے لے رہی ہے ۔ان حالات میں ملک کے تین صوبوں کو ملانے والی سڑک کا منصوبہ یعنی پاک چین تاریخی دوستی کا مظہر معاشی کوریڈور نے پاکستانی سماج کو دو واضح حصوں میں تقسیم کر دیا ہے جوہماری دُشمن کی سب سے بڑی کامیابی ہے جس کا سبب وہ نہیں خود ہماری خود غرصانہ علاقائی اور ذاتی فرسودہ گھسا پٹھا دقیانوسی سوچ ہے ۔عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی حامل استحصالی سامراجی طاقتیں ہمیشہ مظلوم اقوام کی جغرافیائی سرحدوں کو اپنے معاشی مفادات کے تحت ردوبدل کرنے کے درپے ہیں ۔ یہ سمجھنے کیلئے کہ عالمی سا مراج دوسری اور تیسری دُنیا کے اقوام کو دست و گریبان کر کے اپنے سامراجی مقاصد کے حصُو ل کو کیسے ممکن بناتی ہے زیا دہ دور جانے کی ضرورت نہیں ماضی قریب میں افغانستان،عراق، اور عرب بہار اس کو سمجھنے کیلئے کافی ہے۔یہ ایک کھُلی حقیقت ہے کہ پاکستانی عوام کی اکثریت بھارت اور امریکہ کی گھٹ جوڑ اور پاکستان میں اس کی ریشہ دوانیوں سے آگاہ اور اس سے نفرت کرتی ہے اور پاکستانیوں کی اکثریت استعماری طبقاتی نظام اور استحصالی طرزحُکمرانی سے بھی نالاں ہے۔ لیکن یہ بھی روز روشن کی طرح عیاں اور ایک ننگی و کھُلی حقیقت ہے کہ عوام اپنے حُکمرانوں سے بھی خوش نہیں جس کا فائدہ دشمن بہ آسانی اُٹھا رہاہے جب میں یہ کہتا ہوں کہ دشمن کا مقابلہ اتحاد اورقومی ہم آہنگی پر مبنی جمہوری طرز عمل سے کیا جاسکتا ہے تو میرے سامنے بد اعتمادی کے لاتعداد دلائل موجود ہونے کے باوجود یہی واحد اور آخری راستہ نظر آتا ہے۔ کم سے کم یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ سی پیک پر تین صوبوں کی جمہوری پارٹیاں ، سماجی اور قبائلی عمائدین اور کاروباری طبقہ سمیت ان صوبوں سے تعلق رکھنے والے عوام کا متفقہ فیصلہ ہے کہ مغربی روٹ کے علاوہ کسی اور روٹ کو کسی بھی صورت میں قبول نہیں کیا جائے گا صرف ایک صوبے کے حُکمران کیوں بضد ہیں کہ اس روٹ پر چین سے تجارت نہیں کرنی۔پہلے روٹ کی تبدیلی سے انکار کرتے تھے اور مزید کب تک کرتے، جھوٹ کا سفر ہمیشہ ادھورا ہوتا ہے بالا آخرچین کے سفیر نے خود ہی یہ واضح کر دیا کہ منصوبے میں مغربی روٹ نا م کی کوئی چیز نہیں ۔ ایسے حالات میں کہ مملکت خُداداد پاکستان ایک طرف خارجہ پالیسی کے حوالے سے عالمی تنہائی کا شکار ہے اور دوسری طرف پڑوسیوں سے تنگ، ،انتہا پسندی اور دہشت گردی کی انسداد کا ادھورا ایجنڈا نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد میں مکمل ناکام حُکمرانوں کا ملک کے اندر ایک اور محاذ کھولنا سمجھ سے بالاترہے یہ کونسی سیاسی بلوغت اور دانشمندی ہے۔ تضادات کا شکار داخلہ پالیسی کا مظہر تبدیل شُدہ مغربی روٹ پر ناراض تین صوبوں کے مذہبی سیاسی اور سول سوسائٹی احتجاج پر ہے ۔ یہ سلسلہ اگر طول پکڑتا ہے تو لامحلہ دہشتگردی اور نتہا پسندی کے خلاف ملک کے طول و عرض میں لڑی جانے والی جنگ متاثر ہوگی جس کی ذمہ داری لامحالہ ان حُکمرانوں پر ہی عائد ہوگی جو اس دوغلا پن کے مرتکب ہوئے ہیں ۔