کوئٹہ : بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ حکمران کشمیر ایشو کو حل کرنے کے بجائے اسے ایشو بنانے پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں کسی کو بھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرے حکمرانوں کی غیر سنجیدہ روش مفاد پرست پالیسیوں کے باعث آج بلوچستان میں بھارت مداخلت کررہا ہے جس کا حل یا تو مذاکرات ہیں ورنہ طبل جنگ بجانا ہوگا بلوچستان میں قیام امن کے دعوے اس ساون کے اندھے کے مترادف ہیں جسے سب ہرا نظرآتا ہے گوادر میں ماہی گیروں کو رات کے اندھیرے اور دن کی پیاس بخشی ہے ان خیالات کا اظہار انہوں نے ’’آن لائن‘‘ سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ کشمیر کے معاملے کو حل کرنے میں دراصل حکمران ہی سنجیدہ نہیں ان کی روش کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس ایشو کو حل کرنے کے بجائے کشمیر کو ایشو ہی بنائے رکھنا چاہتے ہیں 68 سال میں جو حکمران کشمیر کا مقدمہ نہ لڑ سکے وہ کشمیر حاصل کرنے میں کتنے سنجیدہ ہونگے انہوں نے کہا کہ ہمسایہ ملکوں کی مداخلت کسی صورت قابل برداشت نہیں کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ کسی دوسرے ملک میں مداخلت کرے مگر ہمیں محرکات کو بھی سامنے رکھنا ہوگا کہ کیونکر ایسے حالات پیدا کر دیئے جاتے ہیں کہ کوئی دوسرا اندرونی معاملات میں مداخلت کرے بھارت کی جانب سے پنجاب اور سندھ میں مداخلت کیوں نہیں کی جارہی دراصل حکمرانوں نے بلوچستان کو ہمیشہ ناانصافیوں کی بھینٹ چڑھایا اور ایک کالونی کا درجہ دیکر پالیسیاں مرتب کیں جس نے یہاں پر ایسے حالات پیدا کردیئے کہ بھارت کو مداخلت کرنے کا موقعہ حاصل ہوا آج وقت اس بات کا تقاضا کررہا ہے کہ ہمسایہ ممالک سے تعلقات استوار کئے جائیں بھارت کیساتھ اگر مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے تو طبل جنگ دوسرا حل ہے تاہم ہمیں گزشتہ دو جنگوں میں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ہم نے کیاں کھویا اور کیا پایا مگر بدقسمتی سے جن ممالک کیساتھ ہماری سرحدیں ملتی ہیں ان سے ہمارے تعلقات بہتر نہیں انہوں نے کہا کہ پانامہ لیکس مسلم لیگ میں پوشیدہ ہے اگر اس کے محرکات کو چھپانے کی کوششیں نہ کی جاتیں تو آج دھرنے اور احتجاج نہ ہوتے ملک کی سیاست اس بات کا تقاضا کررہی ہے کہ ملک میں دھرنے دینے والوں کی وجوہات تلاش کی جائیں اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو جمہوری سیاست پر سے اعتماد اٹھ جائے گا انہوں نے کہاکہ گوادرمیں ترقی کے دعوؤں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آرہا ہوں ہم روز اول سے کہہ رہے ہیں کہ اقتصادی راہداری منصوبے کی کامیابی گوادر کے عوام کی فلاح بہبود اور ترقی میں مضمر ہے جب تک گوادر کے لوگوں کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا اور صوبوں کو انکے اختیارات اور انکی حق ملکیت کو تسلیم نہیں کیا جاتا اس وقت تک اس منصوبے کے ثمرات حاصل نہیں کئے جاسکتے آج بھی گوادر میگاپروجیکٹ کے ذریعے روزگار کے دعوؤں کے برعکس گوادر کے لوگوں کو بے روزگاری کا تحفہ دیا جارہا ہے ان کے واحد روزگار ماہی گیری کو ان سے چھین لیا گیا ہے ان کی اپنی سرزمین پر انہیں اقلیت میں تبدیل کیا جارہا ہے رات کے اندھیرے اور دن کی پیاس ان کا مقدر بن چکی ہے اگر یہ ترقی ہے تو ہماری دعا ہے کہ ایسی ترقی پنجاب اور اس کے حکمرانوں کو حاصل ہو تاکہ ہم اس پر شادیانے بجا سکیں بلوچستان میں امن وامان کے دعوے ساون کے اس اندھے کی مانند ہیں جسے ہر چیز ہری نظر آتی ہے امن وامان کی مخدوش صورتحال کے باعث عوام عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا ہیں مگر حکمران اپنے بے سروپا جھوٹ کی ان پرچھائیوں کو بھی نہیں دیکھ رہے جو ان کیساتھ چل رہی ہیں ۔