کوئٹہ : بلوچستان صوبائی اسمبلی کے بدھ کے شام کے اجلاس میں اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع نے اپوزیشن ارکان کی جانب سے سانحہ پی ٹی سی پر بحث کیلئے تحریک التواء پیش کردی جو اسمبلی نے متفقہ طورپر منظور کرلی تحریک التواء پر بحث 7نومبر کو ہوگی ۔ اس سے قبل اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع نے اپنی قرارداد پیش کرتے ہوئے کہاکہ صوبے میں بے گنا ہ افراد کا قتل اور اغواء برائے تاوان کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا ہے سانحہ پی ٹی سی میں پولیس کے وہ 62جوان شہید ہوئے جنہیں ہم نے دشمن سے لڑنے کیلئے تیار کیا تھا ۔لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہمارے جوانوں کے پاس ددشمن سے لڑنے کیلئے اسلحہ نہیں تھا ۔انہوں نے کہاکہ ہر واقعے کے بعد حکومت کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ اس میں مختلف ممالک کی ایجنسیاں ملوث ہیں۔ لیکن سانحہ پی ٹی سی کو میں حکومت اور دیگر اداروں کی غفلت قرار دیتا ہوں کیونکہ جب ہمارے انٹیلی جنس اداروں نے اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ زائرین ، پولیس ، اور اے این پی کے جلسہ پر3خود کش حملہ آور حملہ کر سکتے ہیں تو سیکورٹی کے خاطر خواہ اقدامات کیوں نہیں کئے گئے ، آئی جی پولیس کے مطالبے کے بعد دہشتگرد وں کی نظر میں پی ٹی سی آگیا تھا توپی ٹی سی کی دیوار پر کام کیوں تاخیر کا شکار ہوا اور جب تمام اہلکار پاس آوٹ ہوچکے تھے تو انہیں فون کر کے دوبارہ کیوں بلایا گیا ۔انہوں نے کہاکہ پی ٹی سی واقعے کے بعد بہت سے سوالات جنم لے رہے ہیں جن کا حکومت خاطر خواہ جواب نہیں دے پا رہی جبکہ حکومتی ترجمان نے اپوزیشن کو مفاد پرست تو کہہ دیا لیکن کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دیا ۔انہوں نے کہاکہ ہمارے 700بچوں کو بندو ق بھی نہیں دی گئی جبکہ انہیں ملک دشمنوں سے لڑنے کیلئے تیار کیا گیا تھا تاہم ان کی اپنی حفاظت کیلئے دو لوگ تعینات تھے پی ٹی سی میں دیوار نہ ہونے کے باوجود سیکورٹی کے لئے نفری کیوں نہیں بڑھائی گئی ۔انہوں نے کہاکہ یہ واقعہ خالصتاً حکومت بلوچستان کی نا اہلی ہے جبکہ انہوں نے میڈیا سے بھی گلہ کیا کہ سانحہ 8اگست کے بعد اسمبلی میں طویل بحث کی گئی لیکن اس کی ایک خبر بھی اخبارات یا میڈیا چینلز پر نہیںآئی ، تحریک التواء کی حمایت میں بات کرتے ہوئے صوبائی وزیر عبدالرحیم زیارت وال نے کہاکہ پی ٹی سی واقعہ انتہائی دلخراش واقعہ ہے جس نے پولیس کے ٹرین جوان شہید ہوئے ہم چاہتے ہیں کہ صوبے کے تمام معاملات پر اسمبلی میں متوسل بحث ہو اور اپوزیشن اپنی تمام تجاویز حکومت کو پیش کرے تاکہ حکومت ان میں سے قابل عمل تجاویز پر عمل کریں ۔انہوں نے کہاکہ میڈیا بعض لوگوں کے لئے 24گھنٹے کھلا ہے لیکن غریب صوبے کی غریب اسمبلی کیلئے ان کے پاس وقت نہیں ہے ہمارا مطالبہ ہے کہ سرکاری ٹی وی بلوچستان صوبائی اسمبلی کا اجلاس برائے راست نشر کرے ۔انہوں نے کہاکہ سانحہ پی ٹی سی میں متاثرہ خاندانوں کے ساتھ کھڑے ہیں ہم ان کے غم میں برابر کے شریک ہے جبکہ زخمیوں کی ہر ممکن مدد کی جائیگی ، جس کے بعدسپیکر بلوچستان اسمبلی نے تحریک التواء کو 7نومبر کے اجلاس میں 2گھنٹے کی بحث کیلئے متفقہ طورپر منظور کرلیا ۔ پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے رکن صوبائی اسمبلی شاہدہ روف نے کہاکہ ہمار امقصد صرف بحث نہیں ہونی چاہئے بلکہ ہم اسمبلی میں ایسی پالیسی بنائیں جس سے صوبے میں بہتری آسکے ،۔ عوامی نیشنل پارٹی کے رکن اسمبلی زمرک خان اچکزئی نے کہا کہ اسمبلی کا اجلاس وقت پر شرو ع ہونا چائے اسمبلی کے تمام ممبران برابر ہیں سب کو کام ہوتا ہے سپیکر بلوچستان اسمبلی اس بات کو ممکن بنائیں کہ اجلاس وقت پر شروع ہوتاکہ اہم نوعیت کے معاملات زیر بحث لائے جاسکیں۔ انہوں نے کہاکہ پریس کلب کے باہر احتجاج کرنے والے فار مسسٹس پر پولیس نے لاٹھی چارج کیاو ران کے 22ررہنماؤں کو گرفتار کرلیا ہے فار مسسٹس اپنے سروس سٹرکچر اور جائز مطالبات کے حق میں ریلی نکال کر اسمبلی آنا چاہتے تھے لیکن پولیس نے انہیں آنے دیا ۔ فار مسسٹس کا محکمہ صحت میں اہم کردار ہے ان کے جائز مطالبات کو سردخانوں میں رکھ دیا گیا ہے جس کے لئے وہ احتجاج کر رہے ہیں ۔ پشتونخواء ملی عوامی پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی نصر اللہ زیرے نے کہاکہ وزیر اعلیٰ بلوچستان نے فار مسسٹس کے مسائل کے حل کیلئے تین رکنی کمیٹی جس میں میں ، صوبائی وزیر صحت رحمت صالح بلو چ، غلام دستگیر بادینی شامل تھے تشکیل دی تھی ۔ہم نے تجاویز کا ڈرافٹ تیا رکرکے ایڈیشنل سیکرٹری صحت کے حوالے کیا لیکن سمری ان کے کمرے سے باہر نکلی ہی نہیں ایڈیشنل سیکرٹری نے کمیٹی کی بھی توہین کی صوبائی وزیرتعلیم رحیم زیارت وال نے کہاکہ فار مسسٹس کے تمام جائز مطالبات حل کئے جائینگے لیکن وہ امن وامان کی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے جلوس اور ریلیاں نہ نکالیں ان کے تمام جائز مسائل کو جلد حل کیاجائے گا۔ صوبائی وزیر صحت رحمت صالح بلوچ نے کہاکہ فار مسسٹس نے ٹیئر فور کے ذریعے سروس سٹرکچر کا مطالبہ کیا تھا جس کے لئے سمری بھی تشکیل دی گئیں تھی لیکن کچھ ٹیکنیکل وجوہات کی بناء پر سمری واپس آگئی تھی جسے جلد ٹھیک کرکے وزیر اعلیٰ کو بھیج دیا جائے گا۔ پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے کہاکہ اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع نے کہاکہ بلوچستان پبلک سروس کمیشن اور بلوچستان یونیورسٹی کے تحت ہونے والے ایم اے کے امتحانات ایک ہی تاریخوں میں ہورہے ہیں جس کے باعث امیدوار پریشانی کا شکا رہے جبکہ نئے قوانین کے تحت اگلے سال پی سی ایس کے امتحانات میں ایم ااے کی شرط لازم قرار دیدی گئی ہے اگر اس سال امیدوار ایم اے نہیں کر سکیں گے تو اگلے سال بھی وہ امتحانات دینے کے اہل نہیں ہونگے لہذا وزیر اعلیٰ بلوچستان اس صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے پبلک سروس کمیشن کو ہدایت کریں کہ وہ پی سی ایس کے تحت ہونے والے امتحانات کو مارچ یا اپریل تک ملتوی کردیں ۔ جس پر صوبائی وزیر عبدالرحیم زیارت وال وزیر اعلیٰ سے بات کرکے ایسا شیڈول مرتب کیا جائے گا تاکہ دونوں امتحانات کا مسئلہ حل ہوجائے پشتونخواء ملی عوامی پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی منظور کاکڑ نے کہاکہ کوئٹہ میں لینڈ مافیا مضبوط ہوتی جا رہی ہے ائیر پورٹ روڈ مغربی بائی پاس پر زمینوں پر قبضہ کیا جا رہاہے جس سے شہر میں لڑائی جگڑے کا امکان ہے صوبائی حکومت اس مسئلے کا نوٹس لے ہمارے یہاں جن مسائل کو حل کرنا ہوتا ہے ان کو حل نہیں کیا جاتا ہے اور جن کو نہیں حل کرنا ہوتا ہے ان کو حل کیا جا تاہے ۔ یہ سب ذاتی دلچسپی کے تحت ہوتا ہے کوئٹہ شہر میں کچ روڈ او رہنہ اوڑک میں ہر جمعہ او راتوار کو منچلے نوجوان موٹر سائیکل پر ون ویلینگ کرتے ہیں جس سے اب تک حادثات میں 200لوگ مر چکے ہیں آئی جی پولیس کی نفری تعینات کرکے اس بات کو یقینی بنائیں کہ نوجوانوں کو ون ویلننگ کی اجازت نہ دی جائے پشتونخواء ملی عوامی پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی سید آغا لیاقت نے کہاکہ گڈانی شپ بریکنگ یا ہارٹ کا حادثہ انتہائی المناک ہے یارڈ میں 133 پلاٹ ہیں جن میں سے87پر جہاز وں پر کام کیاجاتاہے ، واقعہ میں ملوث عناصر کے خلاف سخت سے سخت کارروائی ہونی چاہئے بلوچستان میں جو بھی واقعہ ہوتا ہے انکوائری کمیٹی میں غیر متعلقہ لوگ شامل کئے جاتے ہیں جس کے باعث کمیٹیوں کی سفارشات سامنے نہیں آتیں ، جمعیت علماء اسلام کے رکن صوبائی اسمبلی سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہاکہ گڈانی شپ بریکنگ یارڈ سے ہزاروں افراد کا روزگار منسلک ہے اگر یارڈ کو بند کیاجائے گا تو بہت سے لوگ بے روزگار ہوجائینگے ۔انہوں نے کہاکہ 31اکتوبر کو آئی جی پولیس کے دفتر سے ایڈیشنل آئی جی پولیس بلوچستان ایوب قریشی کے دستخط شدہ ایک تھرٹ الرٹ جاری ہوا ہے جس میں کہا گہا ہے کہ دہشتگرد اگلے 72گھنٹے میں پی ٹی سی طرز کی کارروائی کر سکتے ہیں لہذ ا قانون نافذ کرنے والے ادارے احتیاطی تدابیر اور اقدامات کریں تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آسکے ۔صوبائی وزیر پلینگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈاکٹر حامد اچکزئی نے پوائنٹ آف آرڈر میں اپوزیشن کی جانب سے گڈانی شپ بریکنگ واقعے پر اٹھائے گئے اعتراضات کے جواب میں کہا کہ گڈانی واقعہ انتہائی افسوسناک ہے جس کی ہر صورت تحقیقات کی جائینگی گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں 133پلاٹ ہیں جن میں 32بی ڈی اے کے پاس ہیں جبکہ باقی پلاٹ یا تو غیر قانونی ہیں یا ان پر کیس چل رہاہے ۔انہوں نے کہاکہ گڈانی واقعہ پلاٹ نمبر 54میں پیش آیا جو وڈیرہ عبدالحمید ااور عطاء اللہ کی ملکیت ہے واقعے میں اب تک 20مزدور جاں بحق ہوچکے ہیں جبکہ 58/زخمی ہوئے ہیں واقعے ملوث کسٹم انوائرمنٹ اور ٹھیکیداران کے خلاف سخت کارروائی کی جائیگی ۔ نیشنل پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی میر خالد لانگو نے سانحہ پی ٹی سی اور سانحہ گڈانی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ خود کش بمبار کو روکنا تقریباً ناممکن ہے لیکن سانحہ پی ٹی سی میں سیکورٹی اداروں نے بروقت کارروائی کرکے مزید بڑے نقصان کو ہونے سے بچایا ۔انہوں نے کہاکہ کئی ماہ گزرنے کے باوجود ان کی جاری اسکیمات کی رقم ریلیز نہیں کی جارہی جس پر وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری نے انہیں یقین دہانی کرائی کہ ان کے آن گوئنگ اسکیمات کے 50فیصد فنڈ جلد جاری کئے جائینگے رکن صوبائی اسمبلی پرنس احمد علی نے کہاکہ گڈانی واقعے کی ہر سطح پر تحقیقات ہونی چاہئے آئیل ٹینکر ز میں مختلف خانے ہوتے ہیں جن میں خاص گیس رکھی جاتی ہے تاکہ گیس نچلی سطح تک رہے اس بات کی بھی تحقیقات کی جائے کہ آیا وہاں پر مخصوص گیس کی سلنڈر موجود تھے یا نہیں ۔ جس کے بعد اسپیکر بلوچستان اسمبلی راحیلہ حمید خان درانی نے اسمبلی کا اجلاس 4نومبر بروز جمعہ تک ملتوی کردیا ۔