بلوچستان میں امن اور ترقی کی کافی باتیں ہورہی ہیں اور اقدامات بھی اٹھا ے جا ر ئے ہیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ بلوچستان میں امن اور ترقی کیسے اور کیونکر ممکن ہے اور وہ کون سے اقدامات ہیں جن کی بنیاد پہ امن قاہم ہوسکتا ہے؟ اور اتنے سالوں سے مکمل طو رپر امن کیوں بحال نہ ہو سکی؟پھر کوفی عنان کی نوجوانوں سے متعلق ایک بات سامنے گزری کہ نوجوان ہی امن اور ترقی کے ایجنٹ اور ضامن ہوتے ہیں۔ پھر میں بلوچستان میں نوجوانوں کی صورت حال اور ان کے لئے دستیاب وسائل پر معلومات کرنے لگا تو انتہائی خوفناک صورت حال سامنے آئی اور میں یہ سوچنے لگا کہ ان نوجوانوں کے سر پر تو تھوڑا سا ہی آسمان ہے اور نوجوانوں کے لئے میسر ناکافی وسائل اور مواقع کی موجودگی میں امن اور ترقی ممکن دکھائی نہیں دے رہی۔میں چند حقائق آپ لوگوں کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں پھر آپ ہی فیصلہ کریں کہ ان حقائق کی موجودگی میں امن اور ترقی کیسے ممکن ہے؟
ایک اندازے کے مطابق بلوچستان میں سالانہ تقریباً ایک لاکھ طالب علم میٹرک کا امتحان دیتے ہیں۔ جبکہ یہ تعداد آگے بڑھ کر انٹر میڈیٹ لیول پر نصف ہوجاتی ہے اور تقریباً پچپن سے ساٹھ ہزار طالب علم انٹر میڈیٹ کا امتحان دے پاتے ہیں اور تقریباً پچپس ہزار طالب علم ہی گریجویشن کرپاتے ہیں۔ اسی طرح صوبے میں اندازاً آٹھ سے دس ہزار نوجوان ماسٹرز یا پروفیشنل ڈگری حاصل کرپاتے ہیں مگر محض تین ہزار خوش نصیب نوجوانوں کو ملازمتوں کی عظیم نعمت مل جاتی ہے۔ اسی طرح اگر بلوچستان کے مدارس سے وابستہ نوجوانوں کی صورتحال پر نظر دوڑائی جائے تو حکومت بلوچستان کے اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں دو ہزار سات سو کے لگ بھگ مدارس ہیں مگر اصل تعداد اس سے زیادہ ہے۔ ان ہزاروں مدارس سے فارغ طالب علم کہاں جاتے ہیں؟ ان کا ذریعہ معاش کیا بنتا ہے؟
میرا حکام بالا سے معصومانہ سا سوال ہے کہ جس صوبے کے تقریباً آدھے سے زیادہ بچے اسکولوں نہیں جاتے ہوں، جہاں پر ایک لاکھ بچے میٹرک ،دس ہزار،طالب علم ماسٹر اور محض تین ہزار نوجوانوں کو نوکری ملے اور جہاں ہزاروں مدارس کے لاکھوں طالب علموں کا کوئی منزل نہ ہو تو ایسے صوبے میں امن اور ترقی کیسے ممکن ہے؟ کیا ایسے صوبے کے نوجوان بیرونی ہاتھوں کے آلہ کار نہیں بن سکتے ہیں؟ آپ تو پہاڑوں پر گئے نوجوانوں کو قومی دھارے میں شامل کررہے ہو مگر کیا ان نوجوانوں کے قومی دھارے سے باہر جانے کا خطرہ نہیں؟
میں نے صوبائی حکومت کی جانب سے نوجوانوں کی فلاح و بہبود کے لئے کی جانے والی اقدامات کی معلومات حاصل کی تو پتہ چلا کہ صوبائی وزارت برائے امور نوجوانان کا صرف ایک سیکریٹری اور چند اسٹاف کوئٹہ میں موجود ہے اور بلوچستان میں نوجوانوں کی فلاح و بہبود کے لئے وفاق کی طرف سے عطیہ کردہ ایک ہال چند سالوں سے زیر تعمیر ہے، بس اورنوجوانوں کے لئے کوئی کام نہیں ہورہا۔
اس کے علاوہ بلوچستان میں صنعت، کاروباری سرگرمیوں کی عدم موجودگی بھی نوجوانوں کے لئے ناامیدی کا باعث بن رہی ہے۔میری صوبائی اور وفاقی حکومت سے گزارش ہے کہ ان کی اپنی شطرنج پہ بنائی گئی امن کے منصوبوں اور امن پر اربوں روپے خرچ کرنے سے امن ممکن نہیں بلکہ امن اور ترقی کے ضامن ان نوجوانوں کی معیاری تعلیم و تربیت پر توجہ دی جاے، ان کے لئے ٹیکنیکل ادارے بنائے جائیں اور نوجوانوں کے لئے وسائل اور روز گار کے مواقع پیدا کئے جائیں۔ اسی سے ہی صوبے میں امن اور ترقی ممکن ہے وگرنہ صوبے میں امن اور خوشحالی کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوپائے گا۔