|

وقتِ اشاعت :   November 16 – 2016

کوئٹہ: سپریم کورٹ آف پاکستان نے بلوچستان حکومت کو حکم دیا ہے کہ بلوچستان سول سروس اور بلوچستان سیکریٹریٹ سروس گروپ میں غیر قانونی طور پر ضم کئے گئے افسران کو ان کے اپنے محکموں اور اصل جائے تعیناتی پر بھیجا جائے ۔ یہ احکامات چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی اور جسٹس امیر ہانی مسلم پر مشتمل دو رکنی بنچ نے بلوچستان صوبا ئی سروس کے آفیسران کی جانب سے چیف سیکریٹری بلوچستان سیف اللہ چٹھہ کے خلاف دائر توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران دیئے۔ سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان امان اللہ کنرانی، سیکریٹری ایس اینڈ جی اے ڈی بلوچستان بلال جمالی جبکہ درخواست دہندگان کی جانب سے وکیل چوہدری افراسیاب ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔بلوچستان صوبا ئی سروس کے آفیسران کی جانب سے چیف سیکریٹری بلوچستان، صوبائی سیکریٹری قانون اور سیکریٹری اینڈ جی اے ڈی بلوچستان کو فریق بناتے ہوئے ایک درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی گئی تھی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئینی درخواست نمبر71/2011پر 12جون2013کو دیئے گئے فیصلے میں سرکاری افسران کی آؤٹ آف ٹرن ترقی ، انضمام اور براہ راست بھرتیوں کو غیر قانونی قرار دیا تھا لیکن اس فیصلے پر عملدرآمد سے انکار کی وجہ سے حکومت بلوچستان کے اعلیٰ افسران توہین عدالت کا مرتکب ہورہے ہیں اس لئے چیف سیکرٹری بلوچستان ، سیکرٹری قانون بلوچستان اور سیکرٹری ایس، اینڈ جی اے ڈی بلوچستان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔ درخواست دہندگان کے وکیل چوہدری افراسیاب ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ حکومت بلوچستان نے 2008 میں غیر قانونی طور پر 75 اسسٹنٹ ایگزیکٹیو آفیسران کا بلوچستان سول سروس میں بطور اسسٹنٹ کمشنر اور بلوچستان سیکرٹریٹ سروس میں بطور سیکشن آفیسر انضمام کیا۔ یہ اسسٹنٹ ایگزیکٹیو آفیسران محکمہ خزانہ اور محکمہ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ میں تعینات ہوئے تھے لیکن بعد میں غیر قانونی طور پر ایس اینڈ جی اے ڈی میں ضم ہوئے۔ حکومت بلوچستان کے محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی میں خلاف ضابطہ تعینات75 اسٹنٹ ایگزیکٹیو افسران اس قدر طاقتور ہیں کہ عدالت عظمیٰ کے 12 جون 2013 کے فیصلے کے باوجود انہی عہدوں پر تعینات ہیں اور حکومت بلوچستان کے اعلیٰ آفیسران کی آشیرباد سے عدالتی فیصلے کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں جس کی وجہ معزز عدلیہ کا نہ صرف وقار مجروح ہورہا ہے بلکہ بلوچستان سول سروس کے آفیسران کی شدید حق تلفی ہورہی ہے جن کی ترقیا ں گذشتہ ایک دہائی سے رکھی ہوئی ہے۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ جونیئر آفیسران میں شدید تشویش پا ئی جاتی ہے جو گذشتہ 10 سال سے اپنی ترقی کا انتظار کر رہے ہیں۔گزشتہ سماعت پر سپریم کورٹ نے بلوچستا ن حکومت سے جواب طلب کیا تھا۔ آج کی سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان امان اللہ کنرانی نے عدالت میں اپنا جواب داخل کرایا جس پر عدالت عظمیٰ نے عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے مسترد کردیا ۔ عدالت نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کے واضح فیصلے کے باوجود نان کیڈر افسران کو کیڈر پوسٹوں پر کیوں تعینات کیا گیا اور انضمام کئے گئے افسران کو دوبارہ ان کے محکموں میں کیوں نہیں بجھوایا جارہا ۔ جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ان افسران پبلک کمیشن کے امتحانات دیئے ہیں ۔ اس موقع پر بنچ نے ریمارکس دیئے کہ پبلک سروس کمیشن کے ذریعے تو زراعت اور دیگر شعبوں کے افسران بھی تعینات ہوتے ہیں تو کیاانہیں بھی اسسٹنٹ کمشنر اور دیگر انتظامی پوسٹوں پر بٹھادیا جائے۔ سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے بلوچستان حکومت کو چار ہفتوں کی مہلت دیتے ہوئے حکم دیا کہ بلوچستان سول سیکریٹریٹ اور بلوچستان سول سروسز گروپ میں غیر قانونی طور پر ضم کئے گئے افسران کو ڈی نوٹیفائی کرکے انہیں دوبارہ اپنے محکموں میں بجھوایا جائے بصورت دیگر چیف سیکریٹری بلوچستان اور دیگر ذمہ داروں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا آغاز کیا جائیگا ۔ عدالت نے اگلی سماعت پر چیف سیکریٹری بلوستان سیف اللہ چٹھہ کو خود سپریم کورٹ میں پیش ہونے کے احکامات بھی دیئے۔کیس کی آئند ہ سماعت چار ہفتے بعد ہوگی۔ یاد رہے کہ اس وقت کوئٹہ، لسبیلہ، نوشکی اور آواران سمیت صوبے کے چھ اضلاع میں اسسٹنٹ ایگزیکٹیو آفیسرز گروپ سے تعلق رکھنے والے آفیسران ڈپٹی کمشنرز کے عہدوں پر تعینات ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل امان اللہ کنرانی نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے حکومت کو چار ہفتے کی مہلت دی ہے کہ وہ اسسٹنٹ ایگزیکٹیو آفیسران کو فارغ نہ کرنے کے بارے میں وجوہات یا فراغت کے بارے میں آگاہ کریں بصورت دیگر چیف سیکریٹری خود پیش ہوکر وضاحت کریں۔ اب حکومت بلوچستان اس عرصے کے دوران سپریم کرٹ کے 2013اور2015 کے فیصلے کی روشنی میں جائزہ لیکر حتمی رپورٹ عدالت عظمیٰ میں جمع کرے گی۔ کسی فریق کو اعتراض کی صورت میں عدالت سے رجوع کرنے کا حق ہے۔