جب سے میرے باباجان لاپتہ کر دیئے گئے ہیں یہ زندگی بھی زندگی نہیں بلکہ ایک کہانی اور خواب کی مانند ہوگئی ہے۔ ہمارے پیارے بابا جان پتہ نہیں کہاں اور کس حال میں ہوں گے۔ اب زندگی اس طرح بے رونق ہے جیسے دن میں بھی اندھیرا ہے کیونکہ ہمارے لیے روشنی تو ہمارے باباجان ہی ہیں۔ میں بچپن سے لے کر آج تک اپنے باباجان کو دیکھتے ہوئے آرہی ہوں اور سوچتی ہوں کہ اس طرح کہ انسان کہاں ہوتے ہیں جیسے میرے بابا جان ہیں۔ انتہائی نیک، ایماندار اور سچے لیکن سب سے بڑی خوبی یہ ہے وہ کبھی انسانوں میں تفریق نہیں کرتے بلکہ بہت زیادہ محبت کرتے ہیں اور ہمیشہ یہ سکھاتے تھے کہ بیٹا انسان بنو اور انسانیت سے محبت کرو۔ اگر زندگی میں کامیاب ہونا ہے تو کسی کو دُکھ نہ پہنچاؤ۔ جب میں پوچھتی تھی باباجان وہ لوگ جو ہمیں بُرا کہتے ہیں، طرح طرح کی باتیں ہم پر کرتے ہیں آپ انہیں بُرا کیوں نہیں کہتے ہو؟ پھر باباجان یہ کہا کرتے تھے آپ کامیاب ہو کر دکھاؤ، آپ کی جیت اور کامیابی خود جواب ہیں ان لوگوں کے لئے جو آپ کو بُرا بھلا کہتے ہیں۔
جب میں اپنے بابا جان سے یہ سوال کرتی تھی کہ باباجب میرے راستے پرکوئی کانٹا بچھا دے پھر بھی میں خاموش رہوں؟ پھر بابا جان مسکرا کر یہ کہتے بیٹا خوشی سے قبول کرو کیونکہ جب گلاب کی زندگی اور خوبصورتی کانٹوں پر ہیں تو تم کیوں وقت ضائع کر کے دوبارہ ان لوگوں کے راستے پر کانٹے بچھاؤ گی؟ وقت کا ضیاع کرنے کی بجائے گلاب بن کر دکھاؤ حتیٰ کہ گلاب کی زندگی مختصر ضرور ہے لیکن لوگوں کو خوشبو دیتی ہے۔
ایک مرتبہ جب میں نے کسی میگزین پر باباجان کے خلاف لکھا ہوا دیکھا اور ان کے پاس دوڑتے ہوئے گئی کہ آپ یہ میگزین ذرا پڑھ کر دیکھ لیں جس میں آپ کے خلاف بہت بُرا لکھا گیا ہے۔ آپ جلد پڑھ کر جواب دیں۔ بابا جان مسکرا کر یہ کہنے لگے بیٹا یہ بہت بڑی بات ہے لوگ مجھے اہمیت دے کر میرے بارے میں اپنے میگزین میں بھی لکھتے ہیں، میں حیران ہو کر بابا جان سے کہنے لگی بابا جان آپ جواب دینے کی بجائے مسکرا رہے ہیں۔ باباجان کہنے لگے بیٹا سچائی آج نہیں لیکن ایک دن ضرور لوگوں کے سامنے آئے گی۔ جھوٹ کے دن کم ہوتے ہیں لیکن آج میں سمجھ گئی میرے باباجان کے یہ لفظ کتنے قیمتی ہیں جو میں کل تک نہیں سمجھتی تھی آج سمجھ گئی ہوں۔ میرے بابا کی زندگی لالچ جھوٹ سے پاک صاف ہے۔ اب میں فخر سے کہتی ہوں میں عظیم باپ کی بیٹی ہوں، ہم کھانا بھی محض زندہ رہنے کی خاطر کھاتے ہیں۔ لیکن میرے بابا جان لوگوں کو زندہ رکھنے کے لئے کھانا کھاتے تھے ان کو حوصلہ اور جینے کی تمنا دیتے تھے، لوگ جنت میں جانے کے لئے نماز ادا کرتے ہیں لیکن میرے بابا جان جنت میں جانے کے خواب نہیں دیکھتے تھے بلکہ لوگوں کو جنت دکھاتے تھے۔ بابا روزانہ کہا کرتے تھے دنیا میں بھی جنت ہے اگر ہسپتال میں سینکڑوں نادار مسیحا مریضوں کی مدد کی جائے جو بے یارو مددگار ہیں۔ اگر مدد نہیں کر سکتے تو مسکرا کر بات کرو آپ کو جنت یہاں بھی ملے گی۔ جب آپ کے دل میں ان بوڑھی ماؤں کے لئے تڑپ ہو جب وہ اپنے لخت جگر کے انتظار میں روزانہ تڑپتی ہوں گی، جو عقوبت خانوں میں اذیت اور کربناک زندگی میں اذیت سہہ رہے ہوں گے، اگر آپ ان ماؤں کو تسلی بھی دیں گے تو یقین مانیں آپ پرسکون محسوس کرو گے۔
لیکن میرے باباجان کو کیا معلوم تھا کہ ان کی ماں بھی تڑپ کر ہسپتال کے بستر میں اپنی اولاد کے بچھڑ جانے کا ماتم کر رہی ہوگی۔ میرے بابا جان جو دوسروں کی بیٹیوں اور بہنوں کو تڑپتے ہوئے دیکھتے تو یہ کہا کرتے تھے میں ان کے لئے کچھ نہیں کرسکتا لیکن انسانیت کے ناطے میں ان کے پاس بیٹھ کر انہیں تسلی دے سکتا ہوں تا کہ میں اپنے ضمیر سے مطمئن ہوجاؤں۔ میں ان کے چہروں پر ہلکی سی مسکراہٹ بھی دیکھتا ہوں تو بہت خوشی محسوس کرتا ہوں۔ اب میں یہ سوچتی ہوں شاہد میرے بابا جان کے لاپتہ ہونے کے دو مہینے تک میں چیختی چلاتی فریاد کرتی گئی کہ میرے بابا جان کے لئے آواز اُٹھاؤ۔ لیکن دو مہینے بعد بھی ماسوائے ڈان نیوز (Dawn News) کے ہمیں آج تک کسی نے کوریج نہیں دی۔ لیکن ڈان نیوز کے پروگرام “ذراہٹ کے “میں ہمیں دعوت دی گئی اور اس کے بعد اپنی ویب سائٹ پر میرےمضامین پبلش کئے۔ News Dawn کی قربانیوں کی بدولت سب رائٹرز آج تک باباجان کے لئے آواز اُٹھا رہے ہیں۔ سینکڑوں کی تعداد میں آرٹیکل لکھے جا رہے ہیں۔ ان کے علاوہ سندھی اخبار “عبرت” میں بھی بہت آرٹیکل پبلش ہوئے ہیں۔ آج یہ سب میری محنت نہیں بلکہ میرے بابا جان کی وہ محنت اور ایمانداری کا ثبوت ہے جو ہمیشہ کہتے تھے سچائی کی راہ پر چلو گے تو کامیاب ہوجاؤ گے۔ آج میں ایک مرحلے میں کامیاب ہوئی ہوں لیکن جب باباجان زندان سے دوبارہ گھر لوٹیں گے تب وہ میری کامیابی نہیں بلکہ ہر اس انسان دوست کی کامیابی ہوگی جس نے میرا ساتھ دیا ہوگا۔ جنہوں نے میرا ساتھ دے کر یہ ثابت کیا کہ سچے اور ایماندار لوگوں کے لئے آواز اُٹھانا انسانی فرض ہے اور اس کی واضح مثال میرے بابا جان ہیں جنہوں نے ہمیشہ بہادری سے سچ اور ایمانداری کو اپنا کر جدوجہد کی۔ غرض یہ ہے کہ لوگ اپنی لالچ کی خاطر کام کرتے ہیں جب کہ میرے باباجان لوگوں کے لئے کام اور جدوجہد کرتے ہوئے آرہے ہیں۔ میں جب سول ہسپتال میں گائنی (Gynecology) کی کلاسس لے رہی تھی، وہاں جب بھی اپنے باباجان کو دیکھتی ان کے اردگرد مریض ہوتے۔ جب بھی وہ OPD میں مریضوں کو لے کر آتے تھے ڈاکٹروں سے کہتے تھے میرے رشتہ دار ہیں۔ ایک مرتبہ ایک ڈاکٹر پوچھنے لگی واحد بھائی آپ کے کتنے رشتے دار ہیں؟ کتنی بہنیں اور بھائی ہیں؟ بابا جان مسکرانے لگے۔۔ میرے باباجان لوگوں کو پہچانتے بھی نہیں تھے لیکن ہر طرح ہر طبقے کے لوگوں کے لئے جدوجہد کرتے ہوئے نظر آتے۔ ایک مرتبہ جب میں میڈیکل وارڈ میں ڈیوٹی کر رہی تھی وہاں ایک بزرگ آدمی داخل تھے۔ جب بھی صبح میں انہیں سلام دیتی تھی وہ مجھے کہا کرتے تھے بیٹی آپ رائٹر ہیں۔ میں تعجب سے سوال کرتی بابا آپ کو کیسے معلوم؟ وہ کہنے لگے میں خود شاعر ہوں اس لئے پہچان لیا بیٹی۔ پھر انہوں نے مجھے ایک صفحے پر یہ اشعار بھی لکھ کر دیے:
آسانیوں سے نہ پوچھ مشکل کا راستہ خود اپنی راہ کے پتھر تلاش کر ذرے سے کائنات کی تقدیر پوچھ لے قطرے کی وسعتوں میں سمندر تلاش کر
جب میں گھر آگئی میں نے اپنے بابا جان سے کہا کہ اس طرح کسی بزرگ نے مجھے کچھ لکھ کر دیا ہے لیکن وہ بہت مجبور اور بیمار ہیں۔ ان کے بیٹے والد کو پوچھتے بھی نہیں۔ یہ سن کر میرے باباجان کے آنکھوں میں آنسو آگئے۔ جب دوسرے دن صبح میں دوبارہ گئی تو وہاں میرے بابا جان بھی اس وارڈ میں آگئے۔ جب میں نے اپنے بابا جان سے کہا کہ آپ کیوں آئے ہیں تو بابا جان کہنے لگے میں بھی وہ ان بابا جی سے ملنے آیا ہوں جو بیمار ہیں۔ پھر میں نے کہا باباجان وہ آپ کو پہچانتے بھی نہیں ہیں تو اباجان کہنے لگے بیٹا کوئی بات نہیں میں ضرور ملوں گا اور یہ واضح کردوں گا کہ وہ اکیلے نہیں۔ اگر اس دنیا میں کچھ باقی ہے تو انسانیت کی وجہ سے قائم ہے۔
اس لئے میں یہ سمجھتی ہوں میرے باباجان ایسے بہادر اور سچے ہیرو ہیں جو میرے لئے فرشتے سے بھی بڑھ کر ہیں۔
بشکریہ ہانی بلوچ اور ہم سب