تاریخی طورپر کوئٹہ برطانوی استعمار کا ہیڈ کوارٹر رہا ہے ۔ یہ گیریژن ٹاؤن تھا اور برطانوی افواج کی چھاؤنی بھی ۔ یہاں پر تاج برطانیہ کا نمائندہ اے جی جی رہتا تھا ۔ برطانوی راج کے خاتمے کے بعد کوئٹہ کی اہمیت چھاؤنی کی وجہ سے تھی اور ون یونٹ میں یہ کوئٹہ ڈویژن کا دارالخلافہ تھا۔ ون یونٹ کے خاتمے کے بعد کوئٹہ بلوچستان صوبے کا دارالخلافہ بن گیا ۔ گزشتہ 35سالوں میں کوئٹہ کی یہ حیثیت برقرار ہے یہاں کے مقامی قبائل میں شاہوانی ‘ رئیسانی ‘ کرد‘ کانسی کے علاوہ بڑی تعداد میں ہزارہ قبائلی اور پنجابی آباد کار بھی تقریباً ایک صدی سے موجود ہیں۔ مقامی قبائلی صدیوں سے یہاں رہتے ہیں جبکہ آباد کاروں کو بھی کوئٹہ میں رہتے ہوئے ایک صدی سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا ہے۔ کوئٹہ نوکر شاہی کا بلوچستان میں سب سے بڑا مرکز تھا یہاں پر ملک کے طاقتور ترین افسروں نے حکمرانی کی ان میں بعض اتنے طاقتور ہوگئے کہ ان کے انگلی کے اشارے پرپوری وفاقی حکومت ناچتی نظر آئی ۔ وزرائے اعظم اور وفاقی وزراء ان طاقتور افسران کی چاپلوسی کرتے نظر آئے ۔ اتنے طاقتور افسران نے بلوچستان میں خدمات سرانجام دیں لیکن سب نے کوئٹہ اور یہاں کے عوام کی کوئی خدمت نہیں کی بلکہ اپنی بلوچستان جیسے مشکل ترین صوبے میں تعیناتی کو اپنے ذاتی مفادات اور جلد سے جلد بلکہ تیز ترین ترقی کیلئے استعمال کیا ۔ کوئٹہ میں مسائل کے انبار کی ایک بڑی وجہ یہی تھی اور دوسری بات یہ کہ مقامی قبائل اور قبائلی رہنماؤں نے کوئٹہ کی ترقی میں اپنا جائز حصہ نہیں ڈالا بلکہ دور بیٹھ کر تماش بین کا کردار ادا کیا ۔ اس امتیازی سلوک کی وجہ سے کوئٹہ ایک وسیع تر کچی آبادی کا منظر پیش کرتا نظر آتا ہے جب کہ چھاؤنی کا علاقہ صاف ستھرا ہے اور کسی افغان مہاجر یا غیر قانونی تارکین وطن کو اس علاقے میں رہنے نہیں دیا گیا۔ صرف ایک محدود علاقے میں شہری آبادی کو گھر تعمیر کرنے کی اجازت دی گئی ۔ شہری آبادیوں سے چھاؤنی کا علاقہ محفوظ صاف ستھرا ہے جہاں پر ماحولیات کے مسائل کو جائز اہمیت دی گئی ہے ۔حالات نے 1985میں غیر سیاسی جماعتی انتخابات کے بعد ایک زیادہ سنگین صورت حال پیدا کردی ہے چونکہ ذمہ دار سیاسی پارٹیوں کو اقتدار سے باہر دھکیل دیا گیا تھا تو تمام مفاد پرست، موقع پر ست اورکرپٹ عناصر نے انتخابات میں حصہ لیا اور حکومت بنائی تو ایم پی اے ترقیاتی فنڈ کا اجراء ہوا اور اس کے غلط استعمال کے الزامات بڑے پیمانے پر عائد ہوئے ۔ جب وزیراعظم پاکستان نے کوئٹہ شہر میں بہتر شہری سہولیات کی فراہمی کے لیے پانچ ارب روپے دئیے تو بلوچستان اسمبلی کی 65اراکین کی اکثریت نے اس رقم کو برابر ایم پی ایز میں تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا حالانکہ اس رقم کو صرف اور صرف شہری سہولیات کو بہتر بنانے پر خرچ کرنا ہے ۔ اسی دوران وزیراعلیٰ کی خصوصی دل چسپی تھی کہ سریاب کے علاقے میں چند ایک مقامی صحت وصفائی، سڑکوں کی تعمیر کے لئے اسکیم بجٹ میں منظور ہو’ لیکن وزیراعلیٰ نے ایم پی اے حضرات یا سیاسی مافیا کے خوف سے ان تمام چھوٹی چھوٹی اسکیموں کو چوری چھپے مکمل کیا اور یہ ثابت ہوا کہ منصوبہ بندی اور خزانہ پر اچھے لوگوں کی حکمرانی نہیں ۔کوئٹہ میں یہ ممکن نہیں کہ بہتر سہولیات شہریوں کو ملیں ۔ حالیہ سالوں میں آبادی کا دباؤ کوئٹہ شہر پر بڑھ گیا ہے خصوصاً افغان تارکین وطن کی بہت بڑی تعداد نے کوئٹہ اور اس کے گردونواح کا رخ کیا۔ مرحوم عبدالصمد خان اچکزئی نے 1973ء میں جلوس کی صورت میں افغان باشندوں کو پشتون آباد میں آباد کیا ۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب افغان قوم پرست اور ترقی پسند فوجیوں نے افغانستان میں بادشاہت کا تختہ الٹ دیا تھا اور ملک کو جمہوری بنانے کا اعلان کیا جس کے بعد پاکستان کی مقتدرہ سیخ پا ہوگئی تھی اور اسی وقت افغان خانہ جنگی کا آغاز کردیا گیا۔ اس دوران افغانوں کے بہت بڑے بڑے رہنماء پاکستان آئے تھے۔ خان شہید مرحوم نے مقتدرہ کی معاونت سے ان افغانوں کو پشتون آبادمیں آباد کیا تھا۔ اس وقت نیپ کی بلوچ منتخب حکومت کو برطرف کیا جا چکا تھا اس کے بعد افغانوں کی بلوچستان میں یلغار ہوگئی اور آج تک پچاس لاکھ لگ بھگ افغان غیر قانونی تارکین وطن یہاں موجود ہیں جن کی اکثریت کوئٹہ اور اس کے گردونواح میں ہیں اور یہ شہری سہولیات اورکمزور معیشت پر زبردست بوجھ ثابت ہوئے ہیں ۔ تاریخی طور پر بلوچ اور افغان ایک دوسرے کے ہمسائے رہے ہیں اور ان میں کوئی بڑی چپقلش نہیں ہوئی ہے بلکہ یہ ایک دوسرے کے مشکل وقت میں کام بھی آئے ہیں اور تاریخی طور پر بھی ان دو اقوام میں کبھی کوئی علاقائی تنازعہ نہیں بنا۔ وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ کے مطابق افغان تارکین وطن نے پاکستان کو 104ارب ڈالر کا نقصان پہنچا یا جو ان کی دیکھ بھال پر خرچ ہوئے ہیں۔ مقامی طورپر بھی آبادی کا رخ کوئٹہ کی طرف ہے ۔ اس میں کئی ایک عناصر کارفرما ہیں ایک قرب و جوار بلکہ صوبے کے تیس اضلاع طویل ترین خشک سالی‘ امن عامہ کی خراب صورتحال ہے۔ حالیہ سالوں میں امن عامہ کی صورت حال زیادہ مخدوش رہی خصوصاً 2012کے فوجی کارروائی کے بعد بڑی تعداد میں لوگوں نے شہروں کا رخ کیا مگر بلوچستان واحد صوبہ ہے جہاں نقل مکانی کرنے والے لوگوں کے حق کو سیاسی بنیاد پر تسلیم نہیں کیا گیا اس طرح سے کوئٹہ پر آبادی کا دباؤ بڑھ گیا ۔ پھر شہری سہولیات کی فراہمی پر کوئی توجہ نہیں دی گئی افغانوں کو یہ اجازت دی گئی وہ مقامی شہریوں سے گل مل جائیں جبکہ ایران نے ان سب سیاسی مہاجرین کو کیمپوں میں رکھا اور ان کو باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی ۔کوئٹہ میں آبادی کا دباؤ اس کے قدرتی وسائل کے مقابلے میں بڑھ گیا ہے یہ شہر صرف ڈہائی لاکھ نفوس کے لئے ہے اس میں پچیس لاکھ یا اس سے زائد لوگ رہ رہے ہیں۔ پانی کی قلت کی وجہ سے ایک بار عسکری قیادت کے سامنے یہ تجویز رکھ دی گئی تھی کہ کور ہیڈ کوارٹر کیلئے کسی نئی جگہ کو تلاش کیا جائے جہاں بڑی فوجی چھاؤنی کے لئے وافر پانی مہیا ہو ۔ اس وقت کے کمانڈر اعلیٰ جنرل ضیاء الحق نے اس تجویز کو رد کیا اور چھاؤنی کی ضروریات کے لئے پانی کا انتظام کیا گیاجو اب پانی کی نصف ضروریات کو پوری کررہا ہے ۔ آئندہ نسلوں کیلئے پانی کم دستیاب ہوگا۔ کوئی شخص کوئٹہ کے قرب و جوار میں نہ کھیتی باڑی کا سوچے اور نہ ہی صنعتیں لگانے کا۔ حکومت نے یہ منصوبہ بنایا ہے کہ دریائے سندھ کا پانی کوئٹہ یعنی چھ ہزار فٹ بلندی پر پہنچائی جائے۔ یہ ممکن تو ہے مگر اس کی سالانہ لاگت صوبہ بلوچستان کے لئے زبردست بوجھ ثابت ہوگی شاید اس پر آنے والے اخراجات کی وجہ سے یہ منصوبہ ترک کیا جائے۔ کوئٹہ کی اہمیت صرف اور صرف انگریزوں کے لیے تھی کیونکہ وہ افغانستان کو فتح کرنے کا خواب دیکھتے رہے اس لیے کوئٹہ کو افغان سرحد کے قریب گیریژن ٹاؤن بنایا جوآنے والے سالوں میں شہری انتظامیہ کا بھی ہیڈ کوارٹر بنا کیونکہ فرنگی حکمرانوں نے کوئٹہ میں سکونت اختیار کر رکھا تھا ۔ بلوچ دارالحکومت قلات تھا کوئٹہ نہیں تھا۔ اب جب بین الاقوامی معاشی قوتیں اس بات کے درپے ہیں کہ گوادر اور ساحل مکران کو بین الاقوامی تجارت کی فروغ کے لئے استعمال کیاجائے تو بلوچ عوام اتنی بڑی بین الاقوامی قوت کی مخالفت نہیں کر سکتی اور نہ ہی ان کی رائے تبدیل کر سکتی ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ ساحل مکران خطے میں بہت زیادہ اہمیت حاصل کر گیاہے ۔ ساحل مکران تین ہزار کلو میٹر طویل ہے ۔ 1800کلو میٹر طویل ساحل مکران ایران کے زیر انتظام ہے جبکہ باقی بارہ سو کلو میٹر پاکستان کے ماتحت ہے پورے تین ہزار کلو میٹر پر کلی طورپر بلوچ آباد ہیں دوسری کوئی قومیت نہیں ہے چونکہ دونوں بڑی بندر گاہیں گوادر اور چاہ بہار قریب واقع ہیں اور ایک دوسرے سے صرف ستر کلو میٹر کی دوری پر واقع ہیں ۔ گمان ہے کہ آئندہ معاشی اور تجارتی سرگرمیوں کے مراکز گوادر اور چاہ بہار ہوں گے اگر مناسب منصوبہ بندی کی گئی گوادر پورے خطے کی اہم ترین بندر گاہ ہوگی جو اربوں ڈالر کی تجارت کا مرکز ہوگا اور ساتھ ہی چاہ بہار میں تجارتی سرگرمیاں عروج پر ہوں گی ۔ اس لیے سیاسی دارالخلافہ بھی اس تجارتی مرکز کے قریب ترین ہو ۔ ایسی صورت میں کوئٹہ اپنی اہمیت کھو دے گا اس لیے حکومت کو چائیے کہ ابھی سے گوادر پورٹ کے قرب وجوار میں ایک مناسب مقام تلاش کیا جائے جس کو بلوچستان کے مستقبل کا خوبصورت دارالخلافہ بنایا جائے جو بڑھتی ہوئی تجارت اور بلوچستان کے محل و قوع کی اہمیت کے شایان شان ہو ۔ یہ علاقہ پسنی یا جیونی کے قرب وجوار میں ہوسکتا ہے خصوصاً دریائے دشت اور دریائے نہنگ کے داہنے پر ۔