|

وقتِ اشاعت :   November 29 – 2016

علاقائی معاشی گروپنگ میں روس کی اعلانیہ شرکت کے بعد پورے خطے کا معاشی منظر نامہ بدلتا نظر آرہا ہے اب یہ قوی امید پیداہوچکی ہے کہ روس گوادر ،چاہ بہار کی معاشی گزر گاہ کو تجارت کیلئے استعمال کر سکے گا۔ چین سے کہیں زیادہ روس معاشی فوائد حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہوگا۔ گوادر اور ماسکو کے درمیان ریل کے ذریعے تجارت کے زبردست امکانات ہوں گے نہ صرف روس بلکہ خطے کے تمام ممالک بشمول چین ،مغربی ایشیائی اور جنوبی یورپی ممالک تجارت کرسکیں گے۔ سب سے زیادہ فوائد وہ 16وسط ایشیائی ممالک حاصل کریں گے جو عرصہ دراز سے اس امید پرانتظار کررہے تھے کہ سمندری راہداری تجارت کیلئے کھلے گی ان میں روس اور سنگیانگ کے خطے بھی شامل ہیں یہ تجارت کے لیے طویل ساحل مکران پر واقع دو بڑی بندر گاہوں گوادر اور چاہ بہار کو استعمال کر سکیں گے ۔ ساحل مکران تین ہزار کلو میٹر طویل ہے ۔ اس کے ایک سرے پر پاکستان اور دوسرے سرے پر ایران ہے جہاں پر آبنائے ہرمز بھی واقع ہے جس سے دنیا کا چالیس فیصد تیل گزرتا ہے ۔ خوش قسمتی سے بلوچستان میں کوئٹہ زاہدان ریلوے لائن بھی واقع ہے جو برطانوی استعمار نے ایک صدی قبل اپنی فوجی ضروریات کے لیے تعمیر کیا تھا اب اس کو معاشی اور تجارتی ضروریات کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ بلکہ بین الاقوامی تجارت کے فروغ کے لئے کوئٹہ ‘ زاہدان ریلوے کا کلیدی کردار ہوگا گو کہ پاکستانی حکمرانوں اور منصوبہ سازوں نے ریلوے کہ اس سیکشن کو گزشتہ ستر سالوں سے نظر انداز کر رکھاہے حالانکہ یہ دنیا کے معاشی اور تجارتی سرگرمیوں کے سنگم پر واقع ہے ۔ اس کے ساتھ پورا بلوچستان ان معاشی اور تجارتی سرگرمیوں کا محور ہوگا۔ ایران نے چاہ بہار ریلوے کی ترقی کا ایک متوازی منصوبہ بنایا ہے جس میں اہم کردار بھارت ادا کرے گا حالانکہ کوئٹہ ‘زاہدان ریلوے ایران اور ایرانی بندر گاہ کی تمام ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ واضح رہے کہ ایران کی حکومت تیس سال قبل زاہدان کی تنہائی ختم کررہا تھا اور زاہدان کو کرمان کے ساتھ ریل کے ذریعے ملا دیا تھا ۔ زاہدان سے ہر طرف ریل سروس موجود ہے اگر ہم گوادر کو اس ریلوے ٹریک سے ملا دیں گوادر کی بندر گاہ جلد سے جلد فعال ہو سکتی ہے بلکہ ایک سال کے اندر فعال ہو سکتی ہے ۔ ہم نے اپنے کالموں میں بار ہا یہ تجویز دی تھی کہ گوادر بندر گاہ کو پنجگور ‘ پلانتوک اور نوکنڈی سے ریلوے ٹریک کے ذریعے ملا دیا جائے جس سے ریلوے کا سرکل مکمل ہوجائے گا یوں گوادر بندر گاہ ہر طرف سے دنیا کے تمام خطوں کے ساتھ منسلک ہوجائے گا۔ دوسرے الفاظ میں پاکستان ایران کے ریلوے کے نظام کو بین الاقوامی تجارت کے لئے استعمال کر سکے گا۔ زاہدان کو کرمان سے ملانے کا بڑا کارنامہ ایران نے انجام دیا تھا جس کی وجہ سے ہم پورے خطے میں ریل کے ذریعے منسلک ہو گئے ہیں لیکن آثار اسی بات کی نشاندہی کررہے ہیں کہ ہمارے حکمران اس کو استعمال میں لانا نہیں چاہتے۔۔۔ کیوں؟ یہ ہمیں معلوم نہیں اس سے قبل ریل روڈ کے لیے ایشیائی ترقیاتی بنک کے بڑے منصوبے کو سازش کے ذریعے ناکام بنا یا گیا تھا۔ امریکی کمپنی یونی کول ترکمانستان سے گیس بھارت بذریعہ افغانستان اور پاکستان پہنچانا چاہتی تھی ۔ یہ زمانہ وہ تھا جب طالبان کا بل پر حکمرانی کررہے تھے طالبان نے امریکی کمپنی سے ارب ڈالر اور ہزاروں ملازمتیں طلب کیں مطالبات اتنے زیادہ تھے امریکی کمپنی کو اپنا منصوبہ طالبان کی وجہ سے ترک کرنا پڑا۔ اس کے ساتھ ایشیائی ترقیاتی بنک نے ترکمانستان کو گوادر سے ملانے کیلئے سڑک اور ریل کا منصوبہ بنایا تھا جس کیلئے بنک نے بارہ ارب ڈالر مختص بھی کردئیے تھے چونکہ وہ منصوبہ ناکام بنایا گیا ان میں طالبان کی کابل میں حکومت اور اس کی پشت پر سیاسی قوتیں تھیں جو درحقیقت امریکا کو اس خطے سے نکالنا چاہتی تھیں۔ شاید اس کیلئے ہمارے ایک سابق فوجی افسر نےdepth Strategic کا نظریہ خود ہی سے گھڑ لیا تھا اس میں صرف پاکستان ‘ ایران ‘ افغانستان اور صدام کے عراق کو شامل کیا گیا تھا جس سے سعودی عرب کو بے دخل کردیا گیا تھا۔ طالبان اور ان کی کابل میں حکومت ان لوگوں سے رہنمائی لیتی تھی آج بھی حکومت پاکستان ایشیائی ترقیاتی بنک سے اس پروجیکٹ پر دوبارہ مذاکرات کر سکتی ہے وہ روس اور چین کی مدد سے گوادر ریلوے لائن کو جلد سے جلد مکمل کرسکتی ہے ۔فی الحال ایران نے بھارت سے معاہدہ کیا ہوا ہے وہ چاہ بہار ‘ زاہدان ریلوے تعمیر کرے گا جبکہ جرمنی تہران اور مشہد ریلوے لائن کو جدید بنائے گا۔ 1996ء کے دوران جب طالبان نے ان تمام منصوبوں کو ویٹو کردیا تھا جس سے بھارت گوادر پورٹ کے منصوبے سے مایوس ہوگیا تھا اور بھارت نے ایران کا رخ کر لیا اور ایران کو پیش کش کی کہ وہ چاہ بہار کی تعمیر میں امداد فراہم کرے گا۔ چنانچہ چاہ بہارکا منصوبہ بھارتی دلچسپی کی عکاسی کرتا ہے اب بھارت اربوں ڈالر خرچ کررہا ہے اور چاہ بہار کی بندر گاہ پر 22برتھ تعمیر کرے گا۔اس میں سے دو برتھ بھارتی تجارت کے لئے مخصوص ہوں گے ۔ بھارت چاہ بہار زاہدان ریلوے لائن بھی تعمیر کررہا ہے حالانکہ ایران اور بالخضوص چاہ بہار بندر گاہ کی تمام ضروریات کو کوئٹہ ، زاہدان ریلوے پوری کر سکتا ہے اگر ہماری خارجہ پالیسی اچھی ہوگی تو ایران ہم پر زیادہ انحصار کرے گا ہمارے فارن پالیسی کے دانشوروں نے ایران کو بھارت کے گود میں پھینک دیا ۔ جب ایرانی صدر پاکستان تشریف لائے تھے مقتدرہ کے حامیوں نے ایرانی صدر سے اچھا سلوک نہیں کیا۔ ان کی موجودگی میں میڈیا کو ایران کے خلاف پروپیگنڈا کے لئے استعمال کیا ۔ اب بھی ایران کو اس بات کیلئے قائل کیا جا سکتا ہے کہ وہ متوازی ریلوے لائن کے بجائے کوئٹہ ‘ زاہدان کو روٹ کے طورپر استعمال کر سکتاہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم گوادر کو جلد سے جلد نوکنڈی سے ملا دیں ۔ نوکنڈی پہلے ہی زاہدان ریلوے کا اہم ترین جنکشن ہے صرف ہم کو ریلوے ٹریک اپ گریڈ کرنے پڑیں گے ۔ نوکنڈی پورے تجارتی راہداری نظام کا مرکزی مقام ہوگا ۔ نوکنڈی کے گردونواح میں کھربوں ڈالر کی دھاتیں موجود ہیں جو مقامی طورپر قائم ہونے والی صنعتوں کو خام مال فراہم کریں گی۔ دوسری جانب ہمارے حکمرانوں اور منصوبہ سازوں کو ایران کسی وجہ سے پسند نہیں ہے تو نوکنڈی سے ریلوے لائن کو براہ راست افغانستان کے شہر ہرات سے ساتھ ملادیا جائے جو ترکمانستان کی راہ پر واقع ہے۔ پاکستانی حکمرانوں اور منصوبہ سازوں کیلئے دونوں آپشن موجود ہیں کہ وہ زاہدان کے ذریعے ماسکو جائیں یا نوکنڈی کو ہرات اور اشک آباد سے ملا دیا جکائے۔ جتنی جلد ی یہ ریلوے لنک تعمیر ہوگی اتنی جلدی گوادر پورٹ فعال ہوجائے گی اور پاکستان کے لئے اربوں ڈالر کمانا شروع کرد ے گی۔ گوادر پورٹ منصوبہ کی تکمیل میں جان بوجھ کر تاخیر کی گئی شاید حکمرانوں پر یہ خوف طاری تھا کہ ا سکے ذریعے بھارت کو بھی سمندری گزر گاہ استعمال کرنے کی اجازت ہوگی۔ بھارت نے اپنا چاہ بہار پورٹ بنا لیا ہے اب حکمرانوں کو خوف سے باہر نکل آنا چائیے اور گوادر پورٹ منصوبے کو مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی تجارت کا آغاز کرنا چائیے۔ پاکستان اور پاکستان کے عوام کے لئے کراچی اور پورٹ قاسم موجود ہیں گوادر پورٹ بین الاقوامی تجارت اور ملکوں کے درمیان باہمی تجارت کے لئے ہے ۔ یہی پاکستان کو معاشی مشکلات سے نجات دلائے گی پاکستان کے اندر سے کوئی قابل ذکر کارگو گوادرکے لئے نہیں ہے ۔ اس لیے گوادر کو تجارتی راہداری کے لئے ہی استعمال کیاجائے اس لیے اس مسئلہ سے توجہ ہٹانے کی کوشش نہ کی جائیں ۔