کراچی کے ایک بہت بڑے ہوٹل میں جہاں اس ملک کے رئیس زادوں اور بیرونی ممالک سے تشریف فرما بزنس مینوں کی راتیں بڑے سکون کے ماحول میں بسر ہوتی ہیں اورجہاں ہم جیسے مڈل کلاس لوگوں کا داخل ہونا ہمارے لئے ایک اعزاز کی بات سمجھی جاتی ہے کیوں کہ وہاں اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بڑی بڑی محفلیں اور بڑی بڑی این جی اوز کی عالیشان تقریبات سجتی ہیں تو ایسے میں وہاں لیاری کے معصوم بچوں کا اپنے اسکول کی نمائندگی کرتے ہوئے اشرافیہ کو یہ باور کرانا کہ ہم باصلاحیت لوگوں کے باصلاحیت بچے ہیں یقیناًایک معرکے سے کم نہیں ۔
قصہ مختصر یہ کہ کراچی کے ایک معروف ہوٹل میں ہر مہینے باقاعدگی کے ساتھ ہمدر فاؤنڈیشن کی نونہال اسمبلی سجتی ہے جس میں کراچی کے بڑے اور نامی گرامی اسکولوں اور کالجز کے بچے اپنی تقریری اور فنی صلاحیتوں کا بھر پور اظہار کرتے ہیں اور ان بڑے اسکولوں کے درمیان لیاری کی نمائندگی کرتے ہوئے لیاری کے ایک چھوٹے سے اسکول دی میپ اسکولنگ سسٹم لیاری کے بچے بھی اپنی تقریری و فنی صلاحیتوں کا بھر پور اظہار کرتے ہوئے ہوئے نظر آتے ہیں۔ہر مہینے کی طرح نومبر کے مہینے میں بھی ہمدرد کی نونہال اسمبلی کا اسٹیج سجا، اس مرتبہ 9نومبر کے حوالے سے ڈاکٹر علامہ محمد اقبال تقریری مقابلے کا موضوعِ بحث تھے جس میں حسب معمول کراچی کے بڑے اسکولوں سے تعلق رکھنے والے ایلیٹ کلاس کے بچوں کے
درمیان لیاری کے دی میپ اسکول کی ایک بچی کا نام بھی شامل فہرست تھا اس کے علاوہ ٹیبلو پیش کرنے کا اعزاز بھی اس مرتبہ دی میپ اسکولنگ سسٹم کے بچوں کوحاصل ہوا۔
حسب روایات تقریری مقابلے کے اختتام پر تقریب کے مہمان خصوصی نے اپنے خطاب میں نونہالوں کی تقریری صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں داد سے نوازا اور پھر موضوع کی مناسبت سے محترم مہمان خصوصی نے ڈاکٹر اقبال کی شاعری اور پھر ان کی شخصیت کے حوالے سے روشنی ڈالتے ہوئے ان کو خراج عقیدت پیش کیا ۔ہال میں موجود حاضرین کی بھرپور تالیوں کے ساتھ جب مہمان خصوصی کی تقریر اختتام پذیر ہوئی تواسٹیج سے اعلان ہوا کہ اب دی میپ اسکولنگ سسٹم لیاری کے بچے آپ کے سامنے اپنا ٹیبلو پیش کریں گے، اس اعلان کے ساتھ ہی پورے ہال میں موجودلوگوں کے درمیان سرگوشیاں ہونے لگیں کہ پتہ نہیں ٹیبلو میں یہ لوگ کیا پیش کریں گے، ، کہیں ان کے ٹیبلو سے اقبال کی روح تو نہیں تڑپے گی، کچھ کے چہروں پر طنزیہ مسکراہٹ بھی دیکھنے کو ملی بحرحال ان طنزیہ لہجوں اور جملوں کے ساتھ جب ٹیبلو کا آغاز ہوا تو پورے ہال میں سناٹا سا چھا گیا اور اب پورے ہال سے کوئی آواز آنے لگی تو وہ صرف تالیوں کی تھی وہ بھی ان لوگوں کی طرف سے جو کچھ لمحہ پہلے لیاری کے ان عظیم بچوں کو اپنے طنز کا نشانہ بنائے ہوئے تھے اور اب ٹیبلو کے ہر منظر پر ان کے منہ کھلے اور ہاتھ دوسرے ہاتھ سے ٹکرا کر تالیوں کی گونج پیدا کر رہے تھے اور پھر جب مظلوم لیاری کے بچوں کا ٹیبلو اختتام پذیرہوا تو انہوں نے اپنی خوبصورت پرفارمنس سے ہال میں موجود تمام لوگوں کو مجبور کردیا کہ وہ کھڑے ہوکر اپنی بھرپور تالیوں سے ان کو داد تحسین سے نوازیں ، اسی اثناء میں ہمدرد نونہال اسمبلی کے روح رواں اور شہید حکیم محمد سعید کے دست راست حکیم عثمان صاحب اسٹیج پر نمودار ہوئے اور انہوں نے لیاری زندہ باد ، دی میپ اسکول زندہ باد کے نعرے لگوائے جس کا بھر پور ریسپانس ہال میں موجود لوگوں کی طرف سے بھی آیا ۔یہ یقیناًنہ صرف لیاری کے ان بچوں کے لئے بلکہ پوری لیاری کے لئے ایک اعزاز اور تکریم کا سماں تھا کہ لیاری زندہ باد کے نعروں سے پورا ہال گونج رہا تھا ۔
لیاری کہ جس پر پسماندگی کا لیبل لگا کر اس کو تعمیر و ترقی کے عمل سے ہمیشہ دور رکھنے کی کوشش کی گئی ۔کبھی گینگ وار تو کبھی جہالت کا نام دیا گیا تو کبھی سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھاکرلیاری کی احساس محرومی میں اضافہ کرنے کی کوشش کی گئی ۔ حالانکہ اگر حقیقت پسندی سے کام لیا جائے تو کراچی کو جنم دینے اور کراچی کی تعمیر و ترقی میں لیاری کا ایک بہت بڑا کردار رہا ہے ۔ لیاری کی سب سے بڑی خاصیت یہ رہی ہے کہ نامساعد حالات میں بھی اس نے اپنے بطن سے ہر دور میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے عظیم لوگ پیدا کئے ۔ میوزک کی بات کریں یا اسپورٹس کا تذکرہ کریں کہ لیاری کے نامی گرامی گلوکاروں اور موسیقاروں نے ملکی و بین الاقوامی سطح پر اپنے فن کا لوہامنوایا،اسی طرح فٹبال اور باکسنگ کے میدان میں لیاری نے بہت بڑی تعداد میں نایاب ہیرے پیدا کئے اور فٹبال سے دیوانہ وار لگاؤ کے پیش نظر لیاری کو منی برازیل کا نام بھی دیا گیا ،اسی طرح علم و دانش اور سیاست کے میدان میں بھی لیاری کی زمین بانجھ نہیں رہی اس نے اپنے بطن سے بڑے بڑے اہل علم ، دانشوروں ،ادیبوں، صحافیوں اور نامی گرامی سیاستدانوں کو جنم دیا کہ جنہوں نے اپنے عمل اور گرانقدر کردار کے ذریعے نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اپنی بیش بہا صلاحیتوں کا لوہا منواکر شہرت حاصل کی۔
لیاری کے بچوں کو ہمدرد نونہال اسمبلی میں ملنے والی پذیرائی دراصل لیاری کے اسی تاریخی سلسلے کا ایک تسلسل ہے کہ جو لیاری کاوطیرہ رہا ہے،لیاری میں آج بھی بے پناہ ٹیلنٹ موجود ہے بس موقع ملنے کی دیر ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی لیاری کے نوجوانوں کو موقع دیا گیا تو انہوں نے اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پرکامیابیوں کے ریکارڈ قائم کئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ کچھ سالوں کے دوران ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت لیاری کے خوبصورت چہرے کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی جس کے نتیجے میں لیاری کا اصل چہرہ اس بھیانک چہرے کے پیچھے چپ کر رہ گیا تھا ، لیکن آج کا جو منظرنامہ ہے اس کے تناظر میں یہ کہنا مشکل نہ ہوگا کہ اگر اسی طرح حالات نے لیاری کا ساتھ دیا تو یہاں موجود مثبت سوچ کے مالک لوگ لیاری کے خوبصورت چہرے کو تعلیم اور اسپورٹس کے تاریخی رنگ میں رنگتے ہوئے اس کو دوبارہ اسی مقام پر لا کر کھڑا کردیں گے کہ جو لیاری کا خاصہ رہا ہے ، اورجہاں لیاری زندہ باد کے نعرے کے ساتھ لیاری کا پڑھا لکھا باشعورطبقہ آگے کی سمت روواں دواں ہوکرایک بار پھر ترقی و کامرانی کے منازل طے کرنے کے سفر پر گامزن نظر آئے گا۔