|

وقتِ اشاعت :   December 18 – 2016

کہتے ہیں کسی بھی معاشرے کے ترقی میں نوجوانوں کاکلیدی کردار ہوتا ہے نوجوان معاشرے میں ریڈھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں جس طرح ریڈھ کی ہڈی کے بغیر انسانی جسم اپنے افعال سرانجام نہیں دے سکتا اسی طرح نوجوانوں کی شمولیت کے بغیر کوئی بھی معاشرہ اپنے اہداف کے حصول میں کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔نوجوان کسی بھی ملک کاسرمایہ ہوتے ہیں اور آنے والے دور میں ملک کی بھاگ دوڑ ان ہی کے ہاتھ میں ہوتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ ان کی تعلیم وتربیت مؤثر انداز میں سرانجام دیا جائے تاکہ آنے والے دور میں وہ ملک و ملت کی بہتر خدمت کرسکیں۔ پاکستان کی آبادی میں نوجوانوں کی شرح 63فیصد ہے یمن کے بعد پاکستان نوجوانوں کی کثیر آبادی والا ملک ہے جو اس ملک کی خوش قسمتی ہے اور یہاں کے نوجوان صلاحیت کے اعتبار سے دنیا میں کسی سے کم نہیں ہیں ۔لیکن اس ملک میں 63فیصد آبادی کے حامل نوجوانوں کو جس طرح نظر انداز کیا گیا ہے وہ باعث افسوس ہے۔ ملک کے دیگر حصوں اور گوادر کے نوجوانوں کا موازنہ کیا جائے تو گوادرکے نوجوان ملک کے دیگر علاقوں کے نوجوانوں سے صلاحیتوں میں کسی بھی طرح کم نہیں ہیں گوادر کے نوجوان اتنے ہی باصلاحیت ہیں جتنا ملک کے دیگر حصوں کے نوجوان ۔فرق صرف مواقعوں کی کمی ہے ملک کے دیگر حصوں میں نوجوانوں کو آگے بڑھنے کے لئے جس طرح کے مواقع میسر ہوتے ہیں ان کا عشرعشیر بھی ہمارے نوجوانوں کو ملتا تو وہ کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ۔آج گوادر کو دنیا میں ایک اہم اہمیت حاصل ہے سی پیک منصوبے کا مرکز گوادر ہے اور گوادر پورٹ کو چلانے کے لئے چائنا کی خدمات حاصل کی گئیں ہیں جہاں پر وہ 46ارب روپے کی سرمایہ کاری کرنے جارہا ہے گوادر کو مستقبل کے دبئی اور سنگاپور کے ناموں سے پکارا جارہا ہے بلکہ گوادر پورٹ کو اس خطے میں خوش حالی لانے کاسبب اور گیم چینجر قراردیا جارہا ہے اور گوادر کے مقامی لوگ جو صدیوں سے یہاں آباد ہیںیہاں کی ہرسردوگرم کا مقابلہ کرتے آئے ہیں اور اس ساحل کی حفاظت کے لئے ان کے آباء واجداد نے بے شمار قربانیاں دی ہیں ۔بحر بلوچ کو بیرونی حملہ آوروں سے محفوظ رکھنے کے لئے اس سرزمین کے سپوتوں نے ہمیشہ بہادری کے لازوال کارنامے انجام دیئے ہیں ۔حمل جیئند کا نام آج بھی تاریخ میں امر ہے جس نے پندرہ ویں صدی میں اس ساحل کی حفاظت کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے بہادری کی لازوال داستان رقم کی ہے جس پر آج بھی مقامی نوجوان نازاں ہیں ۔گوادر کے نوجوان بھی آنے والے دورمیں ترقی و خوش حالی کے سہانے خواب دیکھنا چا ہتے ہیں تو کیا تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی سہولیات سے محروم گوادر کے نوجوان آنے والی تبدیلیوں میں اپنی شناخت کو برقرار رکھ سکیں گے ؟ انتقال آبادی کے سیل بلا خیز میں وہ اپنی حیثیت کو کس طرح برقرار رکھ پائیں گے۔معیاری تعلیم اور فنی اداروں سے محروم گوادر کا نوجوان پورٹ اور دیگر اداروں میں اپنی حق ملازمت کا دفاع کس طرح کرسکے گا ؟ محرومیوں اور مایوسیوں کے دلدل میں پھنسے نوجوان آنے والے دور کے چمک دمک سے کس طرح بہرہ ور ہوسکیں گے ؟ یہ وہ چند سوالات ہیں جو ہرنوجوان کے ذہن میں سلگتے ہیں اور حکومت وقت سے ان سوالات کے جوابات کے متقاضی ہیں ۔گوادر کا نوجوان آج ملازمت،تعلیم ، صحت کے حصول اور حق شہریت کا تحفظ چاہتا ہے ۔گوادر کے نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں لے کر حصول روزگار کے لئے دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں نچلے درجے سے لیکر اعلیٰ درجے تک کی ملازمتوں میں سے مقامی نوجوانوں کو دودھ میں بال کی طرح سے نکال دیا گیا ہے وہ اس وقت ایک عجیب کشمکش اورکنفیوژن کا شکار ہیں جس سے نکلنے کے کوئی آثارانھیں نظر نہیں آرہا ۔حکومت وقت کی جانب سے اب تک ایسا کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا ہے جس سے امید کی کوئی کرن نمودار ہو اور نوجوانوں کے لئے تسلی کا باعث بن سکے تاکہ آنے والے دور میں وہ اپنے مستقبل کو محفوظ دیکھ سکیں۔گوادر کے نوجوانوں کی تنظیم گوادر یوتھ فورم روزگار اور تعلیم کے حوالے سے اپنے پانچ مطالبات بھی سامنے لاچکی ہے لیکن ان پربھی ابھی تک پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے ۔ گوادر یوتھ فورم کے مطالبات درج ذیل ہیں۔ *سی پیک اور گوادر پورٹ کی ملازمتوں میں گوادر کے نوجوانوں کے لئے چالیس فیصد کوٹہ مختص کیا جائے۔*پاک چائنا ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ کا قیام جلد عمل میں لاکر نوجوانوں کو فنی تعلیم سے آراستہ کیا جائے۔*ہرسال گوادر کے پانچ سو طلباء و طالبات کو چائنا میں تعلیمی اسکالرشپ فراہم کیا جائے۔*گوادر میں چائنیز لینگویج سینٹر کا قیام عمل میں لاکر نوجوانوں کو چائنیز لینگوئج سکھانے کا بندوبست کیا جائے۔*گوادر کے تمام تعلیمی اداروں (اسکول ، کالجز،فنی اداروں)کو جدید خطوط پر آراستہ کرکے جدید تعلیمی سہولیات سے آراستہ کیا جائے۔ یہ وہ بنیادی مطالبات ہیں جن پر عملی اقدامات کرکے نوجوانوں کو کچھ حدتک مطمئن کیا جاسکتا ہے روزگار کے حوالے سے گوادر کے نوجوانوں کا تجربہ تلخ رہا ہے وفاقی اداروں سے لیکر نجی کمپنیوں تک کی ملازمتوں میں گوادر کے نوجوانوں کویکسر نظرانداز کیا جاچکاہے اور کئی آسامیوں کے لئے اپلائی کرنے والے مقامی نوجوانوں کو شارٹ لسٹ کے قابل بھی نہیں سمجھا گیا ہے ۔مسلسل نظراندازی اور حق ملازمت سے محروم ہونے کے باعث گوادر میں بیروزگاری کی شرح میں خوفناک حدتک اضافہ ہوا ہے اور بیروزگاری کی اس عفریت نے نوجوانوں میں مایوسی اور بددلی کی کیفیت پیدا کی ہے۔جس کے باعث منشیات استعمال کرنے والے نوجوانوں کی تعداد میں ہوش رباء اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔گزشتہ دنوں صوبائی حکومت کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں یہ انکشاف بھی ہوا ہیکہ بلوچستان کے مختلف اداروں میں تیس ہزار آسامیاں خالی ہیں اگر چھہ مہینے میں بھرتیاں نہ ہوئیں تو یہ آسامیاں ضائع ہوجائینگی۔اتنی بڑی تعداد میں آسامیاں خالی ہونے کے باوجود نوجوانوں کو روزگار مہیا نہ کرنا اور نوجوانوں کو جان بوجھ کر غربت کے منہ میں دھکیلنا باعث افسوس ہی نہیں بلکہ باعث حیرت بھی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ سب کچھ دانستہ طور پر کیا جارہا ہے تاکہ نوجوانوں کو معاشی مسائل میں الجھا کر اپنے مفادات کی تکمیل کی جاسکے۔سی پیک منصوبے کے حوالے سے کہا جارہا ہے کہ اس کے باعث آٹھ لاکھ روزگار کے مواقع پیداہونگے لیکن حکومت کی موجودہ پالیسی سے نہیں لگتا ہے کہ ان ملازمتوں میں بھی گوادر کے مقامی نوجوانوں کو آٹے میں نمک کے برابر بھی حصہ مل سکتا ہے۔کیونکہ مقامی نوجوانوں کے متعلق حکومت کی سنجیدگی کہیں بھی نظر نہیں آتی ہے جس کی مثال گوادر پورٹ اور چائنااوورسیزہولڈنگ کمپنی کی حالیہ بھرتیوں میں بھی نظرآتا ہے جس میں مقامی نوجوانوں کو یکسر نظراندازکیا گیا ہے اور گوادر کی آسامیوں پر پنجاب ڈومیسائل کی شرط رکھی گئی ہے ۔تعلیم کی حالت زار کا مت پوچھئیے، تعلیمی نظام تو پہلے سے ہی تباہی کا شکار ہے ہماری تعلیم اور تعلیمی ادارے جس زبوں حالی کا شکار ہیں اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہیکہ ہمارا مستقبل کس طرف جارہا ہے اور ان ناقص تعلیمی سہولیات کے باعث ہمارا مستقبل کیسا ہوگا۔ہمارے تعلیمی ادارے آج بھی طالب علم کو چند گھنٹے مصروف رکھنے کے سواء کسی کام کے نہیں لگتے۔جس طرح سی پیک منصوبے میں شامل پروجیکٹس کی تکمیل میں نظرآرہی ہے اگروہ تیزی تعلیمی اداروں کی ترویج وترقی میں نظرآتی تو شاید آج حالات مختلف ہوتے لیکن افسوس کہ سی پیک منصوبے میں کارخانے ،فیکٹریاں سڑکیں ،انڈسٹریل زون سب کچھ شامل ہے تعلیم اور تعلیمی ادارے شامل نہیں ۔یہ تو بھلا ہو ڈپٹی کمشنر گوادر طفیل احمد کا کہ جن کی ذاتی کوششوں اور کاوشوں سے تعلیمی میدان میں کچھ بہتری ہوئی اور بچیوں کو علیحٰدہ گرلز کالج کی سہولت نصیب ہو ئی وگرنہ اس طرف کسی کی توجہ تک نہیں جاتی تھی حقیقت تو یہی ہیکہ ہمارے یہ تعلیمی ادارے کسی بھی طرح پورٹ سٹی کے شایان شان نہیں ہیں اور نہ ہی آنے والے دور کے چیلنجز کے مقابلے کے لئے ان پر انحصار کیا جاسکتا ہے کہ ان تعلیمی اداروں سے فراغت حاصل کرنے والے نوجوان مستقبل میں گوادر پورٹ کی بھاگ دوڑ سنبھالنے کے قابل ہوسکیں گے ۔پنجاب حکومت کی جانب سے پنجاب کے مختلف علاقوں میں چا ئینز لینگویج سینٹرز کا قیام عمل میں لایا جاچکا ہے اور نوجوانوں کو چائنیز لینگویج سیکھنے کی ترغیب دی جارہی ہے اور نوجوانوں کو سرکاری اسکالرشپس پر بھی چائنا بھیجا جارہا ہے اور یہ سب کچھ سی پیک میں بھرپور انٹری کی تیاریاں ہیں جبکہ بلوچستان حکومت کی جانب سے ایسا کوئی بھی اقدام نہیں اٹھا یا گیا ہے جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکے کہ صوبائی حکومت نے سی پیک منصوبے کے چیلنجز کے مقابلے کے لئے کمر کس لی ہے اور اس منصوبے میں صوبے کا جائز حصہ دلانے کی تیاریاں شروع کی ہوں۔حالانکہ سی پیک کا مرکز گوادر ہے اور گوادر پورٹ ہی سی پیک منصوبے کی بنیاد ہے لیکن ہماری حکومت شاید کسی معجزے کے انتظار میں بیٹھی ہے یا اس کے پاس الہ دین کا چراغ ہے جسے آخری وقت رگڑ کر اپنے تمام خواہشات کو عملی جامہ پہناکر عوام کو خوشحالی کے زینے پر چڑھائیگی ۔گوادر کے نوجوانوں کو جب بھی اور جہاں بھی اور جس شعبے میں موقع ملا ہے انھوں نے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا ہے چاہے وہ شعبہ تعلیم کا ہو ، اسپورٹس کا ہو،علم و ادب کا ہو یا ذہانت کی ۔گوادر کے نوجوان نہ صرف لڑکے بلکہ لڑکیاں بھی مختلف شعبوں میں اپنا لوہا منواچکی ہیں ۔گوادر کے نوجوانوں کی صلاحیتوں کا اعتراف چیئرمین گوادر پورٹ اتھارٹی دوستین جمالدینی ان الفاظ میں کرتے ہیں ” گوادر کے نوجوان نہ صرف میرے حلقے نوشکی بلکہ ملک بھر کے نوجوانوں سے زیادہ باشعور ہیں “یہ سن کریہی خیال آتا ہے کہ اس پسماندگی کا جرم شاید یہی شعور ہے جس کے سبب گوادر کے نوجواں کی حق تلفی کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع کیا جاچکا ہے۔گونا گوں ابتر سماجی مسائل کے باوجود گوادر کے نوجوانوں میں یہ عزم پختہ ہے کہ انھیں آگے بڑھنا ہے اور ہمت نہیں ہارنی ہے اور درپیش چیلنجز کامقابلہ مردانہ وار کرنا ہے ۔کیونکہ گوادر کے نوجوانوں کو آج جس قسم کے چیلنجز کا سامنا ہے شاید ہی کسی اور علاقے کے نوجوانوں کو ہو اور ان چیلنجز کے مقابلے کے لئے وہ پوری طرح کمر بستہ ہیں بس ضرورت اس امر کی ہے کہ انھیں سی پیک جیسے منصوبے میں جائز مقام دیا جائے اوراسٹیک ہولڈرز کی طرح رکھا جائے کیونکہ صدیوں کی محرومیوں کا ازالہ بھی اسی صورت ممکن ہے نیک نیتی سے مقامی نوجوانوں کے ایشوز کو ایڈریس کیا جائے ،بے اعتناہی اور نظراندازی والا روش دفنایا جائے ترقی و خوشحالی کی بنیاد کومقامی نوجوانوں کی ترقی سے مشروط کیا جائے۔