لورالائی : لورالائی تا سنجاوی روڈ اس علاقے کے دیگر شاہراہوں کی طرح یہاں کے عوام کیلئے آسان سفر کے بجائے کسی عذاب سے کم نہیں۔یہ روڈ مسافروں کے لیے ایک مشکل گذرگاہ بن چکا ہے۔لورالائی تا سنجاوی روڈ اس روڈ کی تعمیر سے بھی کر پشن کی بو نظر آتی ہے۔اس سڑک کی تعمیر کا کام کا آغازاکتوبر 2014ّّء میں شروع ہوا جبکہ ستمبر 2016ء میں مکمل ہونا تھا۔مگر اس 2سالہ پروجیکٹ جو صرف 12کلومیٹرہے اس پر کام کے آغاز کے بعد صرف پراناروڈ توڑنے،چند ایک پل کی تعمیر و مرمت،اورمٹی ڈالنے کے سوا تعمیر کو آگے نہیں بڑھایا جا سکا۔اس دو سالہ پروجیکٹ کے لیے حکومت بلوچستان نے 10کروڑ روپے بجٹ میں مختص کےئے جس سے صرف بارہ کلومیٹر سڑک تعمیر کرنا تھی۔اس روڈ کے ٹھیکیداروں کے مطابق اب تک اس روڈ کی تعمیر پر 5کروڑ روپے لاگت آئی ہے۔جس میں 3کروڑ روپے انہوں نے اپنے جیب سے خرچ کیے ہیں۔مگر زمینی حقائق اسکے برعکس کچھ اور نظر آتے ہیں جو اتنی بڑی رقم خرچ ہونے کے باوجوداتنا کام نظر نہیں آتا۔اس روڈ کی تعمیر کے لیے 4،4کلو میٹر کے حساب سے 3ٹھکیداروں کو ٹھیکے دےئے گئے ہیں جو کہ کل 12کلومیٹر آتا ہے۔تینوں ٹھکیداروں کا اس روڈ پر ایک جیسا نامکمل کام ،ایک طرح کی رقم خرچ کرنا،ایک جیسا موقف رکھنا،اور ایک ہی ساتھ ایک ہی وقت میں کام کو بند کرنااور مذید رقم کا مطالبہ کرنا ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔جس کے لیے تحقیقات کرنے کی زمہ داری تحقیقاتی اداروں کی ہے۔ٹھکیداروں کے مطابق ابھی تک حکومت کی جانب سے 2کروڑ روپے ان کو ادا کردہیے گئے ہیں اور 3کروڑ روپے حکومت بلوچستان کی جانب سے ادا کرنے ہیں۔اور ان کا کہنا ہے کہ اس سال2016ء میں حکومت نے بجٹ میں صرف 50لاکھ روپے رکھے ہیں جو نا ہونے کے برابر ہے۔یہ قومی شاہراہ جو انتہائی اہمیت کی حامل ہے جوکہ زیارت،ہرنائی،سنجاوی،دکی،اور لورالائی سے ہوتے ہوئے یہ پنجاب سے جا ملتی ہے۔اس روڈ سے روزانہ سینکڑوں بڑی اور چھوٹی گاڑیاں بڑی تعداد میں گزرتی ہیں ان میں ہرنائی اور تحصیل دکی کوئلے کے بڑے ٹرک شامل ہیں جنہیں اس نامکمل روڈ کی وجہ سے شدید عزیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ان ٹرکوں کے مالکان اور ڈرائیورز کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ٹرکوں کے لیے انتہائی پریشان رہتے ہیں کیوں کہ اس روڈ کی وجہ سے لاکھوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے جو ٹائر 8سے 10ماہ چلا کرتے تھے وہ اب صرف 3 ماہ چلتے ہیں۔اسکے علاوہ لورالائی سے سنجاوی تک کا سفر جو کہ نا مکمل ہونے کی وجہ سے 20 منٹ کا سفر اب 3سے 4 گھنٹوں میں طے کرنا پڑتا ہے جو یہ سڑک عوام کے لیے ایک عذاب بن چکا ہے۔ابھی تک اس روڈ پر جتنا کام ہوا ہے اور جتنے پل بنائے گئے ہیں وہ اپنی مدت تک ٹھک جائے گی یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔محکمہ بی اینڈ آر کے مطابق اس روڈ کے ٹھکیدار وں نے ایک اور پی سی ون (PC1)حکومت بلوچستان کو دیا ہے جس میں مذید 10کروڑ روپے مانگے گئے ہیں جو 2 کروڑ روپے فی کلو میٹر ہو جائیں گے۔حکومت کے ترقیاتی سکیموں میں آئین کے مطابق کوئی بھی کمپنی اور ٹھیکیدار مقررہ مدت تک پروجیکٹ کو مکمل کرنے کا پابند ہوتا ہے اور آئین کے مطابق نیشنل ہائی ویز،اور بڑے روڈ ز کی تعمیر بجائے کسی چھوٹے ٹھیکیداروں کو دیا جائے وہ ایک بڑی کمپنی کو دینا ہوتا ہے۔مگر یہاں اس کے بر عکس کیا گیا ہے۔جو شفافیت کے نام پر سوال ہے۔حکومت اور ٹھکیداروں کے درمیان مذید 10کروڑ روپوں کے ڈیمانڈ کے مسلئے کی وجہ سے پچھلے 8ماہ سے تعمیر کا کام مکمل طور پر بند ہے جس سے خد شہ ہے کہ بارشوں اور بھاری ٹریفک کی وجہ سے 5کروڑ روپے جو ابھی تک بقول ٹھکیدار اور بی اینڈ آرکے اس روڈ کی تعمیر پر خرچ ہو ئے ہیں وہ ساری رقم ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔لہذا حکومت کو اس روڈ کی تعمیر پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ اتنی بڑی رقم کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکے اور اس روڈ کی تعمیر جلد مکمل ہو سکے تاکہ عوام کو سفر کرنے میں آسانی ہواور وقت کی بچت ہو جائے۔