|

وقتِ اشاعت :   December 30 – 2016

کھیلوں کی دنیا کا ایک بہت بڑا نام لیکن جسمانی طور پر معذورکھلاڑی راجر کریفورڈکا کہنا تھا “آزمائشوں کا سامنا زندگی کے چند بنیادی حقائق میں سے ایک ہے جس سے روگردانی نہیں کی جاسکتی، تاہم جدوجہد ترک کرتے ہوئے خود کو شکست کے دہانے پر لا کھڑا کرنا انسان کے اپنے اختیار میں ہے”۔ پولیوجس کا تدارک ناگزیر ہو چکا ہے، چیچک کے بعد عالم انواع میں دوسری مہلک ترین بیماری ہے جو خاص طور پر نومولودیت سے لڑکپن کی عمر میں داخل ہونے والے بچوں کو بڑی آسانی سے اپنا شکار بنا سکتی ہے۔ایک صدی سے زائد عرصہ پر محیط دورانیہ میں یہ موذی وائرس دنیا بھر میں کروڑوں بچوں کو جسمانی معذوری میں مبتلا کر چکا ہے۔گذشتہ صدی میں ، اس موذی وائرس کے تدارک اور انسانی جسم میں بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت میں اضافے اور بہتری کے لیے موثر اور محفوظ ویکسین کی تیاری عمل میں لائی گئی جس میں وقت کے ساتھ ساتھ ہونے والی جدید طبی تحقیق کی بنیادوں پر مزید بہتری لائی جا رہی ہے تاکہ پولیو کے موذی وائرس کے مکمل تدارک کو یقینی بنایا جا سکے (بد قسمتی سے ایک مرتبہ کوئی بچہ اس مرض کی وجہ سے جسمانی معذوری کا شکار ہو جائے تو پھر اس کا کو ئی علاج نہیں ہے)۔ جیسا کہ 2016ء اپنے اختتام کو آن پہنچا ہے، اس سال دنیا کے تین متاثرہ ممالک میں پولیو کے صرف 35 کیسز سامنے آئے ہیں جو کہ دنیا بھر میں پولیو ویکسینیشن کے بہترین نظام اور اس ضمن میں کی جانے والی براہ راست کاوشوں کا ثمر ہے۔یہ موذی وائرس آج بھی اپنا سر اٹھائے دنیائے انواع کو وقتاَ فوقتاَ اپنی موجودگی کا احساس دلاتا رہتا ہے اور بقایا رہ جانے والے متاثرہ ممالک میں اپنی آماجگاہوں کے گردونواح میں خود کی افزائش میں اضافے کے لیے مسلسل سرگرم عمل ہے تا ہم قوتِ افرادی کی انتھک جدوجہد نے نا صرف اس موذی وائرس کے پنپنے کی صلاحیت کو محدود کر دیا ہے بلکہ اسے محفوظ علاقوں میں مزید پھیلنے سے بھی روک دیا گیا ہے۔ پولیو وائرس سے متاثرہ بقایا رہ جانے والے ممالک کی فہرست میں اب صرف تین ممالک باقی ہیں جن میں پاکستان، افغانستان اور نائجیریا شامل ہیں۔ قومی ، صوبائی اور علاقائی سطح پر حکومتی عزم، علاوہ ازیں سیکورٹی ادارے، پولیو تدارک کے لیے عالمی اقدامات (GPEI) اور اشتراکی اداروں کے تعاون سے ماہانہ گھر گھر پولیو مہم کے دوران لگ بھگ 37۔20 ملین (2کروڑ سے لیکر 3کروڑ 70 لاکھ)پانچ سال سے کم عمر بچوں تک رسائی کو ممکن بنایا جا رہا ہے تاکہ انہیں بروقت پولیو ویکسین کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔پولیو ویکسین کے لیے بچوں تک پہنچنے میں عدم رسائی اب اتنا بڑا معاملہ نہیں رہا، 23996 فیصد ایسے بچے جوکسی وجہ سے پولیو مہم کے دوران حفاظتی قطرے پینے سے محروم رہ جاتے تھے ان تک رسائی ممکن بناتے ہوئے اب انہیں پولیو کے حفاظتی قطرے پلانے کے عمل کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔ویکسینیشن کوریج کادائرہ کار وسیع کرتے ہوئے اب پسماندہ اور دور دراز علاقے کے لوگوں تک رسائی کو بھی ممکن بنایا جا رہا ہے۔ویکسینیشن کوریج میں توسیع کے ثمرات پولیو کیسز کی شرح میں سالانہ بنیادوں پر کمی کی صورت میں سامنے آ رہے ہیں۔ محتاط اعدادوشمار کے مطابق ویکسینیشن کوریج میں توسیع کے باعث دس لاکھ بچوں میں اوسطََ0.5کیسز میں پولیو کی تشخیص مشاہدے میں آئی ہے(2014ء میں 306 کیسز، 2015ء میں 54جبکہ 2016ء میں صرف 19 پولیو کیسز سامنے آئے ہیں)۔ پولیو کے قومی پروگرام کی کارکردگی گذشتہ 24 ماہ میں انتہائی متاثر کن رہی ہے لیکن پولیو کا مکمل تدارک دراصل صفری عدد پر مشتمل ایک ہدف ہے جسے تاحال حاصل نہیں کیا جاسکا۔اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم یہ تعین کریں کہ ہدف کا حصول کیسے ممکن بنایا جائے اور اس جدوجہد کو کیسے پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔ سب سے پہلے، والدین کو اپنے بچوں کی بہبود اور صحتمند زندگی کو مد نظر رکھتے ہوئے پولیو ویکسینیٹرز اور بلاشبہ پولیوویکسین کو اپنانے میں ذاتی دلچسپی کا اظہار جاری رکھنا ہو گا۔پاکستان میں کی جانے والی حالیہ رائے شماری میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ دنیا بھر میں 23997 والدین پولیو ویکسین کی افادیت کو دل سے قبول کر چکے ہیں اور وہ یہ جان چکے ہیں کہ پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیمیں جب بھی والدین سے رجوع کریں ، وہ اپنے بچوں کو ہر مرتبہ پولیو کے لازمی قطرے پلوائیں جس سے نہ صرف ان کے اپنے بچوں میں پولیو کے خلاف تحفظ کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے بلکہ ان کے گردو نواح میں بسنے والے دیگر بچوں میں بھی اس موذی مرض کے خلاف مضبوط ڈھال کی تعمیر میں مدد مل سکتی ہے۔ پولیو ویکسین کی اس بڑھتی ہوئی طلب کو جاری رہنا چاہیے بلکہ معمول کی دیگر حفاظتی ویکسین کو بھی جاری رکھتے ہوئے بچے کو مختلف موذی امراض سے تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے۔ اس میں پولیو کے حفاظتی ٹیکے بھی قابل ذکر ہیں جو کہ پولیو کے مرض کے خلاف بچے کی قوت مدافعت میں اضافے کا اہم ذریعہ ہیں۔ دوسرا یہ کہ لگ بھگ 250,000 کے قریب پولیو ورکرز، صحت محافظ پولیوویکسینیشن پروگرام کے ہمارے ہیرو اور ہیروئن ہیں۔ پرعزم، اعلیٰ تربیت یافتہ اور نظم و ضبط سے سرشاریہ ورکرز گرمی ہو یا سردی، بہار کا موسم ہو یا خزاں کی پت جھڑ، دشوار گزار پہاری علاقوں، کٹھن راستوں میں آبادبستیوں، دریا ؤں کے کناروں پر آباد علاقوں، صحراؤں، شہروں اور ملک کے کونے کونے میں بچوں کو اس موذی مرض سے محفوظ بنانے میں ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں اور ان کی خدمات کا یہ لا متناہی سلسلہ جاری رہتا ہے۔ تیسرا یہ ہے کہ پولیو پروگرام میڈیکل، مذہبی نقطہ نظر، میڈیا ترقی پسند تنظیموں اور شراکتی اداروں کے لیے انتہائی معاون ہے۔مثال کے طور پر 57 رکن ممالک کے سربراہوں پر مشتمل اسلامی تعاون کی تنظیم (OIC) کا حالیہ اجلاس “کانفرنس نے اس عزم کاا عادہ کیا کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق بچوں کی جسمانی صحت اور نشوونما والدین کا بنیادی اولین فرض ہے”۔اس لیے یہاں تمام مذہبی رہنماؤں اور مبلغین سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ پولیو کے تدارک کے لیے عوام میں شعور و آگاہی کے لیے اپنا کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے اس تعاون کو جاری رکھیں”۔ لوگوں کا اعتماد بحال رکھنے کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ ہم گاہے بگاہے پولیو پروگرام کی حوالے سے حکمت عملی، انتظامی اور تکنیکی ڈھانچے کا جائزہ لیتے رہیں تاکہ بروقت مطلوبہ اہداف حاصل کیے جا سکیں۔ اس سلسلے میں حائل رکاوٹوں اور مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے لیے متعلقہ ادارے اور افرادی قوت دن رات سرگرم عمل ہیں۔یہ ایک انتہائی مشکل عملی تجربہ ہے جو کہ پولیو سے ہٹ کے بھی پاکستان میں جاری دیگر صحت سے متعلق اٹھائے جانے والے اقدامات میں معاون ثابت ہو گا۔سردیوں کا موسم آتے ہی اس موذی وائرس کی جہاں نشوونما محدود ہو جاتی ہے وہیں ہمیں اپنی کارکردگی کے معیار کو جانچتے ہوئے مربوط حکمت عملی کی تخلیق نو کی اشد ضرورت ہے۔عملی نقطہ نظر سے یہاں اس کا یہ مطلب بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ہمیں آنے والی پولیو مہم کے دوران ہر بچے تک رسائی اور اسے پولیو سے بچاؤ کے حفاظتی قطروں کی فراہمی یقینی بنانی چاہیے جیساکے 16 جنوری سے شروع ہونیوالی قومی مہم اور حالیہ ماضی کی کچھ دیگر ذیلی مہمات جو مئی 2016 تک جاری رہیں میں مشاہدہ کیا گیا۔ ہم اس لیے نئے سال 2017ء میں مثبت حکمت عملی کے ساتھ داخل ہو رہے ہیں۔بین الاقوامی سفارشات کے تحت پولیو تدارک کے لیے گھر گھر پولیو مہم کے دوران اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ تمام شعبہ ہائے زندگی سے منسلک افراد انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنا اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔مہم کے دوران غیر ضروری واقعات اور گمراہ کن کہانیاں ہماری جدوجہد کی راہ میں غیر ضروری بوجھ ہیں۔ دنیا بھر کے 2.5ارب سے زائد بچوں کو پولیو سے بچاؤ کی 10ارب سے زائد خوراکوں کی بڑی کامیابی سے فراہمی کے بعد اب یہ پولیو ویکسین کے محفوظ ہونے اور حلال حرام کی بحث کو ختم ہو جانا چاہیے۔ یہی وقت ہے کہ والدین، صحت محافظ، مذہبی رہنماؤں، میڈیکل کے شعبے سے وابستہ افراد ، علاقے کے عمائدین، کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز پر انحصار کرتے ہوئے ان سب کے بھرپور تعاون سے ہم ان پولیو مہموں کو کامیاب بنا سکتے ہیں۔ہماری یہ ساری جدوجہد صرف اور صرف پاکستان کے بچوں پر مشتمل موجودہ اور مستقبل کی نسلوں کو اس موذی مرض سے یقینی تحفظ فراہم کرنا ہے۔ آئیے پولیو کے اس وائرس کے خاتمے اور پاکستان کو پولیو سے ہمیشہ کے لیے نجات دلانے کے اس مشترکہ مقصد کے حصول میں ملکر اپنا کردار ادا کریں۔
لکھاری نیشنل ایمرجنسی آپریشنز سینٹر میں کوارڈینیٹر ہیں