گوادر کی ترقی اور پاک چائنا اقتصادی راہداری کے چرچے اور گوادر کو سنگاپور بنانے کی خبریں اور اشتہارات کی برمار نے ہم جیسے پسماندہ ذہن رکھنے والوں کو کافی پریشان کر دیا ہے کہ گوادر تو ترقی کرکے کہاں پہنچا ہے اور ہم تعلیمی لحاظ سے کہاں کھڑے ہیں ۔کیا ہم آنے والے چلینجز کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہیں ۔اس طرح کے کافی سوالات نے مجھے کئی مہینوں سے پریشان کرکے رکھ دیاہے ۔گوادر اس وقت عالمی دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے اور گوادر کو اپنابنانے کیلئے کئی اہم ممالک اس وقت سر گرم عمل ہیں گوادر کی ترقی کئی ممالک کیلئے ایک خوش آئند عمل ہے تو کہیں گوادر کی ترقی اور خوشخالی کئی ممالک کیلئے سر درد بن چکا ہے ۔ٹی وی پر خبریں سُن کر اور اشتہارات میں گوادر کے کشادہ سڑکوں اور تمام پروجیکٹس پر جاری تیز کام کی رفتار کو جس طرح ٹی وی میں دکھایا جاتا ہے اس سے نہ صرف مجھے بلکہ اہل بلوچستان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں کہ گوادر کی ترقی کے ثمرات ضرور بلوچستان کے کونے کونے تک پہنچیں گے اور بلوچستان کے سابقہ دورکے تمام دلدّر دور ہو ں گے اور ایک خوشحال زندگی ہمارے حصے میں آئے گی ۔اشتہارات کو دیکھ کر مجھے پرانے زمانے کے گوادر اور آج کے گوادر میں کافی فرق محسوس ہوا کہ پرانے زمانے کے گوادر میں سڑکیں جو جگہ جگہ ٹھوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، گٹر لائنیں عوام کیلئے درد سر بن چکی تھیں۔لیکن اب شاید گوادر میں ایک بہترین سیوریج لائن بنایا گیا ہے ۔گوادر کے بے روز گار نوجوانوں کو روزگار کے کئی مواقع فراہم کئے گئے ہیں اور اس وقت گوادر میں کوئی نوجوان بے روزگار نہیں ہے ۔یہ بھی میرے دماغ میں گردش کر رہا تھا کہ گوادر کے ماہی گیرجدید دور کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے سمندر میں جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ شکار کو جاتے ہیں اور ماہی گیروں کیلئے بہترین رہائشی کوارٹر زکا انتظام کیا گیا ہے ۔گوادر کی تنگ گلیوں کو کشادہ کیا گیا ہے اور اب گوادر امریکہ اور دوسرے یورپی ممالک کی طرح خوبصورت بن کر پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے ۔لیکن درج بالا تمام خواہشات اور خواب ادھورے ثابت ہوئے جب گوادر جانے کا موقع ملا اور گوادر کو میں نے قریب سے دیکھا ۔کشادہ سڑکیں خوبصورتی کے مناظر سمیت دیگر ترقیاتی منصوبے ٹی وی پر اشتہارات کی حد تک محدود نظر آتے ہیں ۔1997اور آج کے گوادر میں اگر کوئی واضح فرق مجھے ملا وہ تھا گوادر میں پانی کا بحران ۔1997میں گوادر میں پانی کا کوئی بحران نہیں تھا اور اُس وقت گوادر کے ماہی گیر ایک خوشحال زندگی گزار رہے تھے اور دن کو مچھلی پکڑنے کیلئے جاتے اور رات کو اپنے بچوں کے ساتھ گھر میں آرام کرتے ۔گوادر کی سڑکوں پر اُس وقت گندے پانی کے تالاب نہیں تھے ۔گوادر کے باسی شام کو ساحل سمندرپر جا کر ذہنی ذہنی سکون حاصل کرتے ۔ساحل سمندر پر شام کے وقت بچے فٹبال اور کرکٹ کھیلتے اور نوجوان ساحل سمندر پر ٹہلتے ہوئے نظر آتے تھے ۔گوادر کے باسی جب چاہتے کہیں بھی جا سکتے تھے لیکن اب ساحل سمندر پر میں نے بچوں کوفٹبال اور کرکٹ کھیلتے نہیں دیکھا ۔ میں نے سوچا شاید بچے سرسبز گھاس والی گراؤنڈ میں کھیل رہے ہونگے اور نوجوان شاید مختلف اسپورٹس کے کلبوں میں جدید دور کے ورزش کے آلات کے ساتھ ورزش کر رہے ہوں گے ۔لیکن گوادر کی تنگ گلیوں میں ابھی تک اسی طرح گٹر کا بہتا ہوا بد بودار پانی بہنے کو ملا ۔جگہ جگہ نوجوانوں اور بزرگوں کی محفل میں اگر کوئی موضوع زیر بحث تھا تو گوادر میں پانی کی کمی کا تھا ہر کوئی گوادر میں پانی کی کمی کو شدت سے محسوس کر رہا تھا ۔صاحب مال تو کسی نہ کسی طریقے سے کچھ بندوبست کر سکتے تھے لیکن غریب گھرانوں کے سکول کے چھوٹے بچوں کو پانی کا ڈبہ سر پر اُٹھائے پھرتے میں نے گوادر کے تمام علاقوں میں دیکھا ۔گوادر میں چائنا کی آمد اور چائنی زبان کو فروغ دینے کیلئے پنجاب میں تو چائنیز زبان سیکھنے کیلئے کئی ادارے کھولے گئے ہیں۔ میں سوچنے لگا کہ شاید گوادر میں بھی چائنیز زبان سکھانے کے کئی ادارے کام کر رہے ہونگے لیکن گوادر کے بہت کم لوگ ایسے ہونگے جنہوں نے چائنیز کو چائنیز بولتے سنا ہوگا ۔زبان ن سکھانے کے ادارے تو کہیں بھی نظر نہیں آئے ۔گوادر میں بے روزگاری ایک بد ترین شکل ختیار کر چکی ہے اور گوادر کے بے روزگار نوجوان مختلف قسم کے ذہنی امراض کا شکار ہو کر منشیات کے عادی بن چکے ہیں ۔گوادر میں کئی اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو میں نے منشیات استعمال کرتے دیکھا جو بے روزگاری کی وجہ سے مایوسی کا شکار ہو رہے تھے ۔گوادر کے اکثر گھرانوں سے تعلق رکھنے والے میں نے سات سات نوجوانوں کو بے روزگار ہوتے دیکھا ۔اگر سڑکوں کی تعمیر کی بات کی جائے تو گوادر میں سڑکیں ٹوٹ پھوٹ چکی ہیں اور گوادر کی بد ترین سڑکوں کی مثال شاید کہیں اورملے ۔گوادر کے نوجوانوں میں صلاحیت کی کوئی کمی نہیں بلکہ گوادر کے نوجوان پاکستان کے تمام علاقوں سے بہترین کارکردگی دکھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اگر نوجوانوں کو کسی بھی قسم کا کام کرنے کا موقع دیا جائے تونہایت آسانی سے کر سکتے ہیں اور کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔گوادر میں سڑکیں بنانے ،بے روزگاروں کو روزگار دینے ،اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کرنے سمیت دیگر سہولیات فراہم کرنے سے پہلے گوادر کے باسیوں کو صاف ستھرا پانی فراہم کرنا حکومت وقت کی پہلی ذمہ داریوں میں شامل ہے ۔ٹی وی چینلز پر بڑے بڑے اشتہارات چلانے والو ذرا گوادر کی پیاس کو ختم کرنے پر بھی تھوڑی توجہ دو ۔اس وقت گوادر پیاسا ہے اور سب کچھ کرنے سے پہلے گوادر کو پانی پلادیجئے کیونکہ پیاس میں کسی سے اچھا برتاؤ کرنا وقت کا ضیاع ہے اور جب تک کسی کی پیاس نہیں بجھتی ، اُس کے چہرے پر مردگی سی چھائی رہتی ہے ایسی حالت میں اُس سے پیار بھری باتیں نہیں کی جاتیں ۔گوادر کا فرد فرد پانی پانی کرکے تھک چکا ہے اور پانی کی عدم دستیابی سے گوادر کی گلیاں اور بازار ویران پڑے ہیں ۔