بلوچستان خزانہ کیس میں سابق سیکرٹری خزانہ بلوچستان مشتاق رئیسانی اور ٹھیکیدار سہیل مجید شاہ کے اعتراف جرم اور پلی بارگین کی درخواست نے ملک بھر میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے، جتنے منہ اُتنی باتیں، بھانت بھانت کی بولیاں بولی جا رہی ہیں، کوئی نیب کو آڑے ہاتھوں لے رہا ہے تو کوئی پلی بارگین کے قانون کو ملزم کے ساتھ ساز باز سے تعبیر کر رہا ہے۔ نیب کی جانب سے خزانہ کیس میں ملزمان سے لوٹی گئی رقم سے زائد کی ریکوری اور 6 ماہ کے مختصر عرصے میں کرپشن کے اتنے بڑے کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے باوجود میڈیا کا کردار انتہائی مایوس کن رہا، میڈیا میں کرپشن کی رقم کے حجم کے حوالے سے انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ تاثر دیا گیا کہ خزانہ کیس میں 40 ارب کی کرپشن ہوئی اور ملزمان سے 2 ارب روپے کی پلی بارگین کی گئی جبکہ اس کے بر عکس حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان میں لوکل گورنمنٹ کا کل سالانہ فنڈز ہی 6 ارب روپے ہے اور تحقیقات 2 ارب اکتیس کروڑ روپے کی کرپشن کی کی جا رہی تھی، ایسے میں 40 ارب روپے کی کرپشن کی بے پر کی اڑانا مضحکہ خیز ہے۔ پلی بارگین کے قانون کو میڈیا میں اس طرح پیش کیا گیا کہ جیسے نیب نے ماورائے قانون اقدام اُٹھا کر ملزمان کو کلین چیٹ تھما دی ہے۔ خزانہ کیس کیا تھا ، خزانہ کیس میں کرپشن کی رقم کا حجم کیا تھا، پلی بارگین کیوں کی گئی، اسکے محرکات کیا تھے۔ پلی بارگین کا قانون درحقیقت ہے کیا ؟ نیب اس قانون کو کیوں تر جیح دیتا ہے کیا اس میں نیب کا کوئی اپنا مفاد ہے؟ پلی بارگین کے قانون کے حوالے سے سارا ملبہ نیب پر ڈالنا کیا درست سوچ ہے ؟دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں اس قانون کی کیا اہمیت ہے؟ جب ہر طرف سے بلا تحقیق پلی بارگین کے حوالے سے رائے زنی کی جا رہی ہو ایسے میں ایک ایسے بیانئے کی اشد ضرورت ہے کہ جس میں عوام الناس کو اصل حقائق سے روشناس کیا جا سکے ۔ حقائق کے صحیح ادراک کے لئے خزانہ کیس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ حکومت بلوچستان سالانہ بجٹ میں ہر سال لوکل گورنمنٹ کی 726 میونسپل کونسلزکے لئے 6ارب کی گرانٹ منظور کر تی ہے نیب کو اطلاع ملی کہ لوکل گورنمنٹ کا پیسہ ایک خاص حلقے میں کرپشن کی نذر ہو رہا ہے۔ نیب نے تحقیقات کے ذریعے سراغ لگا لیا کہ سابق سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی، سابق مشیر خزانہ ، خالد لانگو، ٹھیکیدار سہیل مجید شاہ، میونسپل آفسیر سلیم شاہ نے بلوچستان کی 726 میونسپل کونسل کے لئے مختص گرانٹ میں 2 ارب اکتیس کروڑ صرف مچھ اور خالق آباد کے لئے ریلیز کروا کر 2ارب 24 کروڑ پر ہاتھ صاف کر لئے ہیں ، نیب نے سیکرٹری خزانہ کے گھرپر چھاپہ مار کر نہ صرف 65 کروڑ ، سوا تین کلو زیورات برآمد کئے بلکہ میگا کرپشن سکینڈل کے دیگر ملزمان مشیر خزانہ خالد لانگو، سہیل مجید شاہ، ایکسین طارق علی، ایڈمنسٹر یٹر سلیم شاہ اور اکاونٹنٹ ندیم اقبال کو بھی گرفتار کر لیا، بینک اکاونٹس کی چھان بین سے عقدہ کھلا کہ ایڈ منسٹر یٹر سلیم شاہ کی توسط سے بے نامی داروں کے نام پر تقریباً ایک ارب کی جائیداد یں خریدی گئی ہیں جنہیں ملزمان سے بحق سرکار دست بردار کرا لیا گیا، جب کہ بعد ازاں راہِ فرار نہ پاتے ہوئے ملز مان مشتاق رئیسانی اور ٹھیکیدار نے اپنا جرم تسلیم کرتے ہوئے تقریباً 2 ارب روپے کی پلی بارگین کی درخواست دی۔ یہ نیب کی اس لئے بھی بہت بڑی کامیابی ہے کہ خزانہ کیس میں کرپشن 2 ارب 24 کروڑ روپے کی کی گئی اور ملزمان سے کرپشن کی گئی تمام رقم وصول کر لی گئی مزید یہ کہ اس رقم کی مدد سے حاصل کی گئی تمام جائیدادیں ، بحق سرکار دستبردار کروائی گئیں، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وائٹ کا لر کرائم کا 6 ماہ کے مختصر عرصے میں کامیابی سے مکمل ہونے اور ملزمان سے کرپشن کی تمام رقم کی ریکوری کے بعد نیب کی مخلصانہ کاوشوں کو سراہا جاتا، اس کے بر عکس نیب کی کردار کشی کی گئی، یہ غلط تاثر پھیلایا گیا کہ پلی بارگین کے قانون کے ذریعے ملزمان کو سزا سے بچایا گیا ہے حالانکہ ایسا کچھ نہیں پلی بارگین کرنے والا در اصل مجرم قرار پاتا ہے، سوائے جیل جانے کے اس پر نوکری سے بر خاستگی، بینکوں سے قرضہ حاصل کرنے اور الیکشن لڑنے کی نا اہلی سمیت تمام سزاؤں کا اطلاق ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے 2001 اسفند یار ولی کیس میں سپریم کورٹ کے بنچ نے پلی بارگین کے قانون کو اس لئے سراہا کہ اس میں پلی بارگین کرنے والا مجرم قرار پاتا ہے اور مراعات سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ اس قانون کا خاصہ یہ ہے کہ نیب نے قیام سے لیکر اب تک وی آر اور پلی بارگین کی مد میں 285 ارب سے زائد کی رقم کرپٹ عناصر سے حصول کر کے قومی خزانے میں جمع کروائی ہے جس سے اس قانون کی اہمیت مسلمہ ہے۔ اگر عدالت سے پلی بارگین کی درخواست منظور ہو جاتی ہے تو مشتاق رئیسانی ایک مجرم ہی تصور کیا جائے گا۔ وہ تمام مراعات جو سیکرٹری کو دوران سروس اور سروس کے بعد حاصل ہوتی ہیں وہ تمام مشتاق رئیسانی سے نوکری کے ساتھ ساتھ چھن چکی ہیں۔ پلی بارگین کے بارے میں لوگوں میں ابہام پایا جاتا ہے۔ ایک تاثر یہ ہے کہ نیب ایک کروڑ کی کرپشن میں ملزم سے 50 لاکھ لیکر چھوڑ دیتی ہے ایسا ہر گز نہیں اگر ملزم پر ایک ارب کی کرپشن ثابت ہے تو وہ ایک ارب ہی کی پلی بارگین کرے گا اور اگر پلی بارگین کے بعد اس ملزم پر دوبارہ مزید کرپشن کے ثبوت سامنے آتے ہیں تو اس پر دوبارہ بھی کیس شروع کیا جا سکتا ہے۔ مشتاق رئیسانی نے بھی اپنے حلفیہ بیان میں اس بات کا اقرار کیا ہے کہ پلی بارگین کے بعد اگر اس پر مزید کوئی کرپشن کے ثبوت آئے تو وہ قانون کے مطابق ادا کرنے کا پابند ہو گا۔ اس کے علاوہ میڈیا میں یہ بھی غلط تاثر قائم کیا جاتا رہا ہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود پلی بارگین کی گئی ہے یہ بھی ایک غلط تاثر ہے سپریم کورٹ نے نیب کو ملزمان سے رضا کارانہ واپسی سے منع کیا ہے پلی بارگین سے نہیں۔ پلی بارگین کے قانون کو نیب کیوں ترجیح دیتی ہے اسکی وجہ محدود وسائل، قانونی موشگافیاں، اور عدالتی نظام ہے ، کیسز کی طوالت کا فائدہ ملزم کو ہوتا ہے ، نیب کے بیشتر وہ کیسزجن میں پلی بارگین کے بجائے ٹرائل کورٹ کو ترجیح دی گئی وہ گزشتہ 16 سالوں سے مختلف عدالتوں میں چل رہے ہیں ، نیب کے تفتیشی افسران اور پراسیکیوٹرز عرصے سے پیشیاں بھگتا رہے ہیں جبکہ کروڑوں اربوں کی کرپشن کرنے والے ملزمان ضمانت پر آزادانہ گھوم رہے ہیں ۔ مزید براں پلی بارگین لوٹی گئی رقم کی ریکوری کی تیز ترین صورت ہے جسے امریکہ، برطانیہ، بھارت ، کینیڈا ، آسڑیلیا ، جرمنی سمیت 34 ممالک میں کرپشن کے کیسز میں استعمال کیا جاتا ہے۔ پلی بارگین کی ابتدا ہانگ کانگ اور سنگاپور سے 80s میں ہوئی تھی آج یہ دونوں ملک کرپشن فری ملک ہیں۔ امریکہ میں پلی بارگین کرمنل جسٹس سسٹم کا حصہ ہے جہاں 90 فیصد کرپشن کے کیسز پلی بارگین کے ذریعے حل کئے جاتے ہیں ، آسٹریلیا میں پلی بارگین کرنے والوں کے جرم کی سزا میں 10 سے 25 فیصد کی رعایت کی جا تی ہے جبکہ اٹلی میں یہ شرح ایک تہائی ہے۔پلی بارگین کا قانون پارلیمنٹ نے بنایا ہے نیب تو اس قانون پر عملدر آمد کرنے والا ادارہ ہے۔ اگر عوام ، میڈیا، عدلیہ اور پالیمنٹ یہ سمجھتی ہے کہ پلی بارگین کا قانون کرپشن کو پھیلانے کا سبب ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ نیب کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا کہ سخت قوانین بنانے کے لئے فور ی اتفاق رائے قائم کیا جائے۔ یہ امر باعث مسرت ہو گاکہ اداروں کو مضبوط کرنے کے لئے اقدامات اُٹھائے جائیں تاکہ کرپشن سمیت دیگر جرائم میں ملوث عناصر کو عبرت کا نمونہ بنایا جا سکے ، کسی کو یہ جرات نہ ہو کہ وہ عوامی وسائل کو اپنی لونڈی سمجھے اور عوام کے پیسے کو جیبوں کی نذر کر کے اکڑاتا پھرے ، ہمسایہ ملک چین کی ترقی کی مثالیں دی جاتی ہیں وہاں تو کرپشن کے مرتکب ملزمان کی سز ا پھانسی ہے۔ اگر قوم کرپشن کے خاتمے اور سخت قوانین کے بارے میں سنجیدہ ہے تو پھر ایسی ہی سزاؤں کے لئے قانون سازی کے لئے رائے عامہ ہموار کی جائے کہ جس سے کرپٹ عناصر کو واقعی دنیا کے سامنے مثال بنا جا سکے، پلی بارگین کے لئے صرف نیب کو موردِ الزام ٹھہرانا اس لئے نا مناسب ہے کہ نیب کا کام تو مروجہ قوانین پر روبہ عمل ہونا ہے ، کہیں ایسا نہ ہو کہ نیب جس نے وطن عزیز کی285 ارب کی لوٹی ہوئی رقم کو کرپٹ عناصر کے منہ سے چھین کر خزانے میں جمع کروائے ہیں، مورال کھو بیٹھے، ہمیں یہ ضرور سوچنا ہو گا کہ جس تفتیشی افسر اور ٹیم نے 16 ،16 گھنٹے اپنے بچوں سے دور رہ کر مشتاق رئیسانی کیس کو چھ ماہ میں منطقی انجام تک پہنچایاکہیں اپنے اداروں اور عوام سے مایوس نہ ہو جائے اور معاملہ معمول کی کاروائیوں اور بے دلی کا سبب نہ بن جائے، کہیں بے جا تنقید برائے تنقید سے ہم کرپٹ عنا صر کو مزید شہہ نہ دے بیٹھیں۔ ہمیں ضرور سوچنا ہو گا۔