|

وقتِ اشاعت :   January 6 – 2017

نااہلی اور تحقیق کے فقدان کے علاوہ لاپرواہی اور غفلت کا عنصر اس ملک کے دیگر اداروں کے ساتھ ساتھ صحت کے متعلقہ محکموں اور اسپتالوں میں بھی انتہائی عمومی ہے۔سرکاری ہسپتالوں کی قابل رحم حالت اپنی جگہ ،صحت کے نامی گرامی پرائیویٹ ادارے بھی اس روش کا شکار ہوکر اپنی افادیت کھوچکے ہیں.جس سے نہ صرف عوامی اعتماد میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے بلکہ مستقبل میں قیمتی جانوں کے ضیاع سے بچنے اور علاج معالجے کے لئے صاحب استطاعت لوگ انڈیا، لندن امریکہ اور دیگر ممالک کی جانب تیزی سے رجوع کررہے ہیں۔اندھی تقلید کے منفی رجحان کی طرف مائل ہم جیسے سادہ لوح افراد آغا خان جیسے مہنگے ترین پرائیویٹ ہسپتالوں پر آنکھیں بند کرکے اعتماد کرکے اپنی جان اور مال دونوں کھو بیٹھتے ہیں اور پھر من کی تسکین کے لئے “لاعلاج” اور “زندگی و موت اللہ کے ہاتھ میں ہے” جیسی تاویلیں گڑھ کر لاشعوری طور پر ذمہ داروں کو بری الزمہ قرار دیتے ہیں۔والدہ کی بیماری ایک برس بعد دوبارہ تشخیص ہونے پر Oncologist,Surgeon سے جب میں نے دریافت کیا کہ آخر یہ بیماری دوبارہ آئی کیسے؟ تو کسی منطق اور دلیل سے سمجھانے کے بجائے وہ ہچکچائے بغیر بولے “یہ سب اللہ تعالی کی مرضی سے ہوا ہے”، میں نے جب پوچھا کہ آپ کے مطابق کیموتھراپی کی سائیکلیں مکمل کرلی گئی تھیں اور کامیاب سرجری پر آپ نے ایک سال پہلے ہمیں مبارکباد بھی دی تھی تو آخر وجہ کیا ہے کہ بیماری دوبارہ آگئی ہے، کہیں یہ آپ کی نااہلی یا غفلت کا نتیجہ تو نہیں ہے، کیونکہ میری ناقص معلومات کے مطابق جسم کے ایک خاص عضو تک محدود سرطان کو اگر سائنسی پیمانے پر پرکھ کر مکمل طور پر نکالاجائے اور پھر احتیاطاً اگلے کچھ عرصے تک وقتاً فوقتاً CT۔Scan، PET MRI Scan,CA۔125یا اس طرح کے متعلقہ دیگر ریڈیولوجی اور لیب ٹیسٹوں کی مدد سے چیک اپ کرائی جائے تو یہ ایسی بیماری نہیں ہے کہ پہلے ہی اسٹیج میں جان لیوا ثابت ہو ، خاص کر Ovarian Tumour!!! تو ڈاکٹرکو میرا یہ سوال نا صرف سخت ناگوار گزرا اور مجھے مطمئن کرنے میں بری طرح ناکام رہے بلکہ ری ایکشنری ہوکر مجھے جواب میں ڈانٹ سنادی اور کہا کہ “آپ لوگوں کو کس نے کہا تھا کہ آغاخان سے علاج کراؤ، امریکہ لندن یا کہیں اور چلے جاتے وہیں علاج کراتے”۔اس طرح ڈاکٹر نے میری عزت نفس کو مجروح کرنے کے ساتھ ساتھ آئندہ علاج کے لئے رجوع نہ کرنے کی تنبیہہ کرکے راہ فرار اختیار کیا اور کمرہ معائنہ سے نکل گئے۔حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ ہمیں کسی طرح مطمئن کرتے اور اپنی کمی کوتاہیوں اور کمزوریوں پر نظر دوڑاتے یا کم از کم اس پر ریسرچ کرتے(لیکن اس ملک میں انسانی جان کی کوئی قدر نہ ہونے کی وجہ سے بدقسمتی سے ریسرچ ناپید ہے)انہوں نے بالواسطہ طور پر اس بیماری کو عذاب الٰہی سے تعبیر کیا جبکہ دوسری جانب طب کے مقدس پیشے کو انہی صحت کے منظم اداروں کے سربراہوں نے بڑے قانونی اندازسے کاروباری شکل دے رکھی ہے۔والدہ کی بیماری پر تادم تحریر دو ملین روپے تک کی رقم خرچ کرنے کے باوجود ڈاکٹرز اور میڈیکل اسٹاف کا غیر انسانی رویہ یہی ثابت کرتا ہے کہ وہ جہاں ایک طرف اپنی نااہلی و نالائقی کو چھپانے کے لئے “اللہ کی مرضی سے سب کچھ ہو رہا ہے” کا جواز تراش کر اپنی جان چھڑا رہے ہیں تو دوسری طرف انسانوں کو حیوانوں کی طرح اپنے تجربے اور مشاہدہ کا ذریعہ بنا کر اور ان کی قیمتی جانوں کو رسک میں ڈال کر اور لوگوں کی مجبوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھا کر محض پیسے کا کھیل کھیل رہے ہیں اور مسیحا کی رْوپ میں پیشہ ور قاتل بنے بیٹھے ہیں۔کینسر کا شکار سترہ سالہ قیوم بلوچ ولد دولت خان کی حالیہ موت اس بات کی واضح مثال ہے، جنہیں ہفتہ وار کیموتھراپی اور ریڈیو تھراپی کے لئے9 مہینے کا پروٹوکول ہاتھ میں تھما کر آٹھویں مہینے میں ان کی جان لے لی گئی جبکہ علاج کی مد میں انہوں نے 40 لاکھ سے زائد کی رقم خرچ کی تھی. اگر نوٹس نہیں لیا گیا اور لوگوں میں شعور پیدا نہیں کیا گیا تو خدشہ ہے کہ انگنت قیوم بلوچ ان مسیحا نما پیشہ ور قاتلوں اور ادارہ صحت کے کاروباری سربراہوں کے مفادات کی بھینٹ چڑھ جائیں گے اور موت کا رقص اسی طرح شدت سے جاری رہے گا۔