سی پیک کی اہمیت کو عالمی سطح پر محسوس کیا جا رہا ہے ۔یہ صرف 57 بلین ڈالر خرچ کرنے کا منصوبہ نہیں بلکہ اسکے تحت چا ئنا 3000کلو میٹر طویل ،کاشغر سے لیکر گوادر تک روٹ کی تعمیر ،پائپ لائن اور ریل کی پٹڑی بچھانے کا منصوبہ شامل ہے ۔ اسکے علاوہ چین پاکستان کے توانائی کے شعبے میں بھی مالی وفنی معاونت کریگا ۔اسے دنیا کا بہترین معاشی پروجیکٹ مانا جا رہا ہے اور پاکستان نے چین کو اس پروجیکٹ پر کام شروع کرنے کے لئے تین روٹس کا منصوبہ پیش کیا ہے ۔ ان میں مغربی روٹ کم فاصلے کی وجہ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے جو بلوچستان اور خیبر پختونخواہ سے گزرے گا اسی طرح دوسرا روٹ سندھ اور پنجاب سے گزرے گا اور تیسرا شمالی راستہ ہے یہ پورے ملک کو کور کریگاجو شاہراہ قراقرم کے ذریعے کاشغر سے ملتا ہے اس لئے کہا جا رہا ہے کہ سی پیک پاکستان کے لئے صرف گیم چینجر ہی نہیں بلکہ فیٹ چینجر ثابت ہوگا جس سے خطے میں امن و معاشی استحکام آئے گا اور ملک کے چاروں صوبے اس سے استفادہ کرینگے اس سے نہ صرف علاقائی تجارتی سرمایہ کار مستفید ہونگے بلکہ ہر عا م وخاص کو فائدہ پہنچے گا ۔سی پیک کے تحت ملک میں سڑکوں کے جال بچھائے جائیں گے جس سے ملک کا مواصلاتی نظام بہتر ہوگا اس میں کوئی شک نہیں کہیں بھی مواصلاتی نظام میں بہتری سے علاقے میں ترقی وخوشحال آتی ہے کلچرل گیپ ختم ہوجاتا ہے کرایوں میں کمی آجاتی ہے اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں کمی ودیگر سامان برباد ہونے سے بچ جاتا ہے اس کے علاوہ برآمدات بھی بڑھنے لگیں گی مزید برآں پاک چین اقتصادی راہداری سے ملک میں روزگا ر اور ترقی کا نیا باب شروع ہوگا اور زندگی کے ہر شعبے میں چاہے تعلیم ہو یا صحت کے میدان میں اقتصادی انقلاب برپا ہوگا نوجوانوں کو فنی تعلیم دی جائیگی تاکہ وہ سی پیک کے تحت بننے والے منصوبوں میں کام کرنے کے قابل ہوں جس سے غربت میں کمی آئے گی ساتھ ہی سی پیک کی وجہ سے یہ ملک دنیا بھر کے سیا حوں وسرمایہ کاروں کی توجہ کا مرکز بنے گا اس لئے سی پیک سے نہ صرف چائنا بلکہ پاکستان کو بھی عالمی منڈیوں تک آسانی سے رسائی حاصل ہو جائیگی جس سے پاکستان اپنی معیشت کومستحکم اور خطے میں اپنی پوزیشن مضبوط کریگا اور خطے میں اپنے طورنمایاں ہونے کے قابل بن جائے گا۔ جس طرح پاکستان کی معیشت کا دارومدار تقریباً 70فیصد زراعت پر ہے اور اسے معیشت کی ریڑھ کی ہڈی مانی جاتی ہے لیکن بدقسمتی سے پچھلی کئی دہا ئیوں سے بڑے پیمانے پر تباہ ہوچکی ہے کیو نکہ ایک طرف بارشیں معمول سے کم ہوتی ہیں تو دوسری طرف لوڈشیڈنگ کا مسئلہ ہے لیکن سی پیک کے بڑے بڑے منصوبے جو 33ارب ڈالر مالیت کے توانائی کے لئے جیسے کوئلہ سے توانائی حاصل کرنے ،شمسی توانائی اور ہائیڈرو الیکٹرک پاور پلانٹ کے منصوبے شامل ہیں جیسا کہ کوئلہ سے توانائی حا صل کرنے کے لیے 1320MWکے منصوبے پر ساہیوال میں ، سچل پاور پروجیکٹِ سے50 میگاواٹ کا، او ر پورٹ قاسم میں بھی1320 میگاواٹ کے منصوبے اور اسی طرح اینگرو تھر کول کے منصوبے پر تیزی سے کام جاری ہے جس سے300میگاواٹ بجلی کی پیداوار ہو گی ، گوادر میں 300 میگاواٹ کے منصوبے کی منظوری دی گئی ہے کئی اور منصوبے بھی ہیں جن پر کام جا ری ہے جو 2017 سے 2018تک 10000MW سے زائد بجلی کا ا ضافہ کر کے قومی گریڈ میں شامل ہو جائے گی جس سے زرعی اور اقتصادی شعبے میں ترقی ہو گی۔اس کے علاوہ دوسرے منصوبے جیسے آئل ریفائنری انڈسٹری کے قیام، فائبر آپٹکس لائن جو سنکیانگ صوبے سے راولپنڈی تک بچھانے کا منصوبہ، علاوہ ازیں کراچی ٹو پشاور ریل روڈ کی اپ گریڈیشن ،لاہور ٹو کراچی موٹروے کی تعمیر جو تقریباً 1100کلومیٹر ہے ایسے کئی منصوبوں جن پر کام ہورہا ہے اور بہت سارے منصوبے کامیابی کے ساتھ مکمل ہونے کے مراحل میں ہیں جیسا کہ دسمبر میں وزیر اعظم نوازشریف نے بلوچستان میں 22ملین روپے کی لاگت سے مکمل ہونے والی 105کلومیٹر طویل سوراب ۔ہوشاب ٹو گوادر ہاوے ؛کا افتتاح کیاہے ۔ سب سے بڑی اور خوش آئند بات تو یہ ہے کہ دسمبر2016کے آخری ہفتے میں جے سی سی پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی مشترکہ رابطہ کمیٹی کا چھٹا اجلاس منعقد ہواجس میں 30 اہم منصوبوں کو سی پیک میں شامل کرنے کی منظوری دی گئی.۔ مشترکہ رابطہ کمیٹی( جے سی سی) جو کہ سی پیک کا اہم اور بڑا فورم ہے جو نظر ثانی اور نئے منصوبوں کی منظوری دیتی ہے جن میں بلوچستان کیلئے ۱۲ بڑے منصوبوں کو سی پیک میں شامل کرنے کی منظوری دی گئی۔جن میں چار اہم منصوبوں کو وزیراعلیٰ بلوچستان کی کاوشوں کی بدولت شامل کیا گیا.جیسا کہ کوئٹہ ماس ٹرانزٹ ٹرین جس پر25 ارب ر وپے کی لاگت آئے گی،نوکنڈی،ماشکیل،پنجگور316کلومیٹر شاہراہ جسے این اے85سے منسلک کیا جائے گا، پٹ فیڈرسے کوئٹہ کو فراہمی آب کا منصوبہ جس کی لاگت40 ارب روپے ،بوستان اور خضدار میں انڈسٹریل اسٹیٹ کے قیام کے منصوبے شامل کئے گئے ہیں۔اس کے علاوہ (این اے50 ) 110 کلومیٹر طویل خضدار بسیمہ روڈ، 210کلومیٹرطویل ژوب ڈی آٰٗئی خان شاہراہ کی اپ گریڈیشن کا فیز1گوادر بندرگاہ میں پانچ اضافی برتھوں بمعہ بریک واٹر کی تعمیر اورڈریجنگ،گوادر بندرگاہ کو گوادر ائرپورٹ سے منسلک کرنے ایسٹ بے ایکسپر یس وے فیز۱۱ ، گوادر میں باؤ سٹیل پارک کی تعمیر ، گوادر فری زون میں سٹین لیس سٹیل فیکٹری کا قیام،اورگوادر فری زون میں فوٹون آٹو موبائل پلانٹ بنانے کی منظوری سی پیک میں شامل کر دی گئی۔ ان ترقیاتی منصوبوں کے مکمل ہونے سے نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے خطے میں تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا اور روزگار کے مواقع بڑھنے کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہوگی۔دنیا بھر کے ماہرین کے مطابق پاکستان کو سی پیک سے بھر پور استفادہ کرنا چائیے کیو نکہ اس سے نہ صرف ملک کی اقتصادی ترقی بلکہ ملک کے سماجی شعبوں میں اسکے مثبت اثرات نمایا ں ہونگے اور خطے کے تین ارب افراد کو فائدہ ہوگا اسطرح یہ ایک گیم چینجر ثابت ہوگااسی لئے پاکستان کی ہمیشہ سے یہ کو کوشش رہی ہے کہ ہمسایہ ممالک سے دوستانہ تعلقات قائم کرے اور ہمیشہ مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پرزور دیتا ہے اور مثبت سفارتکاری ہی سے کام لیتے آرہے ہیں ’ڈائریکٹر آف اپلائیڈریسرچ اکنامک سینٹر پروفیسر ڈاکٹر ثمینہ خالد کے مطابق پاکستان کا اقتصادی حجم 2025تک229بلین ڈالر سے بڑھ کر 1.30ٹریلین ڈالر تک ہوسکتا ہے اسی طرح فی کس آمدنی 5000ڈالر تک بڑھ جائیگی ساتھ ہی برآمدات پر مثبت اثرات مرتب ہو نگے جو کہ25بلین ڈالر سے 150بلین ڈالرتک جا سکتے ہیں اور جی ڈی پی قومی بچت میں سالانہ 26فیصد کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مزید یہ کہ 2015سے لیکر 2030تک روزگا ر کے 70,0000 مواقع بھی میسر آئیں گے اور سالانہ ملکی معیشت میں 2سے2.5فیصد کا اضافہ بھی ہوگا ۔ امید ظاہرکی جا رہی ہے کہ سی پیک کے جتنے بھی منصوبے ہیں اگر ان پر دلچسپی کے ساتھ کام ہو اتو پاکستان بہت جلد دنیا کے نقشے پر مضبوط معاشی ،تعلیمی وترقی یافتہ ملک کے طور پر نمودار ہوگا ۔ اب اگر چائنا کی بات کریں تو اتنی دلچسپی سی پیک اور گوادر میں کیو ں لے رہی ہے جیسا کہ گوادر کو اللہ تعالیٰ نے ایک خوبصورت جغرافیائی محل وقوع عطا کیا ہے اور یہ دنیا کی تیسری گہری پورٹ ہے اور یہاں دنیا کے بڑے بڑے بحری جہاز لنگر انداز ہوسکتے ہیں .ا ن خصوصیات نے گوادر کی اہمیت کو مزید بڑھا دیا ہے اور یہ آبنائے ہرمزسے 72کلو میٹرکی دوری پر ہے جہاں سے تقریباًدنیا کا ایک تہائی تیل گزرتاہے اور چین بھی زیادہ تر تیل مشرق وسطیٰ ممالک سعودی عرب ،عراق اور ایران ہی سے خریدتا ہے اور اپنے ملک پہنچاتے ہوئے انھیں 35سے40دن لگتے ہیں لیکن پاکستان کے زمینی راستے سے اسے دس دن لگیں گے ۔ چین کا 75فیصدتیل South China Sea کے راستے سے ہی گزارا جاتا ہے اگر اس تیل کا آدھا حصہ بھی پاکستان کے زمینی راستے سے گزارا جائیگا تو اسے سالانہ دوارب ڈالر کا منافع ہوگا کیونکہ انھیں گلف سے ہوتے ہوئے آبنائے ہرمز پھر بحیرہ عرب اس سے آگے South China Seaکو کراس کرتے ہوئے ہانگ کانگ،شنگھا ئی یا پھر تیا زنگ پورٹ پہنچا یا جاتا ہے اوریہ تقریباً 12000سے زائد کلو میٹر بنتا ہے دوسرا یہ کہ South China Seaپر مسئلے چل رہے ہیں جیسا کہ فلپائن ،ویتنام اور تائیوان اور کئی دوسرے ممالک اس پر اپنا قبضہ جمانا چا ہ رہے ہیں اس کے علاوہ آبنائے ملائکا پر چین کے لیے مستقل خطرہ ہے جو مستقبل میں چین کی تجارتی سرگرمیوں کو متا ثر کر سکتا ہے اس لئے چین کی یہ دیرینہ خواہش تھی کہ پاکستان کا زمینی راستہ استعمال کرنے سے ایسے تمام مسائل سے چھٹکار ا حاصل کیا جائے ۔ ان وجوہا ت کی بناء پر چین گوادر اور اقتصادی راہداری میں بے انتہا دلچسپی لے رہاہے تا کہ وہ ان مشکلا ت سے جان چھڑاکر اپنے تجارتی سرگرمیوں کوفروغ دے سکے ۔یہاں پر چین کے لئے سب سے بڑا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ چین کا مغربی حصہ جو بہت پسماندہ ہے اسے بھی ڈو یلپ کریگا جو کافی عرصے سے سیاسی ابتری کا شکار ہے یا د رہے سی پیک ،ون بیلٹ ون روڈکا ایک اہم حصہ ہے جس کے ذریعے چین پورے دنیا کے ساتھ نیٹ ورک بچھائے گا تا کہ افریقہ ،یورپ اور دوسرے ممالک کے ساتھ تجارت کو فروغ دے کر عالمی منڈیو ں تک آسانی سے رسائی حاصل کر سکے اس سے نہ صرف چین کو بلکہ خطے کے دوسرے ممالک بھی استفادہ کرسکیں گے۔ سی پیک کے تحت پہلے تجارتی قا فلے کا نومبر 2016میں افتتاح کر کے براستہ مغربی روٹ گزارکے گوادر پورٹ پہنچا یا اور وہا ں سے تجارتی سامان کوافریقہ اور دوسرے ممالک روانہ کر دیا تھا۔یعنی سی پیک کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا، اس وقت دنیا کی نظریں سی پیک پر جمی ہوئی ہیں ا وربہت سے ممالک نے گوادر پورٹ میں سرمایہ کاری کی خواہش ظاہر کی ہے تو دوسری طرف بعض ممالک کی نظروں میں گوادر پورٹ کھٹک رہی ہے اسے اسکی بڑھتی ہوئی اہمیت برداشت نہیں ہو رہی اور خطے میں امن وامان کی صورت حال کو کشیدہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں پاکستان اتنی صلاحیت رکھتا ہے کہ اپنی سرحدوں کی حفاظت کر سکے اور ہمسا یہ ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کر کے تجارت کو فروغ دے ۔سی پیک کو ناکام بنانے کے لئے جو ممالک کوشش کر رہے ہیں ایسے میں چین نے بھی واضح پیغام دے کر کہا ہے کہ وہ اس اقتصادی راہداری کی حفاظت کے لئے ہر ممکن مدد فراہم کریگا اس طرح چین بھی اب ایک فریق سے بڑھ کر ایک قسم کا شریک بن چکا ہے تاکہ خطے میں امن وامان قائم کر کے ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔ آخر میں چند تجاویز پیش کرتاہوں کہ حکومت بلوچستان چین کے ساتھ باقاعدہ یہ معاہدہ کر ے کہ بلوچستان کے پڑھے لکھے نوجوانوں کو چین میں چائنیز زبان سیکھنے ،اور ٹیکنیکل ٹر یننگ دینے کو اپنے اولین ترجیحات میں شامل کرے۔میرین سائنسسزاور پورٹ سے متعلق چین کی اعلٰی یونیورسٹیوں میں باقاعدہ ڈگری حاصل کرنے کے لئے سالانہ طور پر لوگوں کو بھیجا جائے تاکہ وہ پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کر نے کے بعد پورٹ کو فنکشنل کرنے اور صوبے میں بننے والے اسپیشل اکنامک زونز میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ساتھ ہی صوبے میں فنی تعلیم سیکھنے کے لئے سینٹرز کھولیں جائیں جس سے مرد اور خواتین دونوں مستفید ہوں تاکہ مقامی افراد کو روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کر کے غربت پر قابو پاکر ا حساس محرومی کا خاتمہ کیا جاسکے۔