|

وقتِ اشاعت :   January 13 – 2017

گزشتہ ادوار میں بھی لوگ لاپتہ ہوتے تھے۔ سالوں ان کی خبر نہیں ہوتی تھی۔ مگر لواحقین کو یہ یقین ہوتا تھا کہ وہ زندہ ہیں سلامت ہیں اور کسی وقت وہ واپس اپنی خاندانی زندگی میں دوبارہ آجائیں گے۔ گزشتہ 15سالوں میں طریقہ کار تبدیل کر دیا گیا۔ اب اگر کسی کو اُٹھا لیا جاتاہے تولواحقین کو اسی وقت اس کی زندگی سے مایوس ہوجاتے ہیں ان کو یہ یقین ہوجاتا ہے کہ لاپتہ فرد دوبارہ گھر واپس نہیں آئے گا۔ اس کی لاش کہیں نہ کہیں سے مل جائے گی۔ تقریباً 90فیصد معاملات میں ایسا ہی ہوا ہے۔ بعض اوقات یہ شکایات عام تھیں کہ بعض لوگوں کو لاپتہ اس لئے کیا گیا کہ ان سے غیر اہم اور لاتعلق سوالات پوچھے جاتے تھے۔ اس کے لئے حکومت اور حکومتی اہلکار دنیا بھر میں بڑی بدنامی مول لیتے تھے اور رسوائی کا سامنا کرتے تھے کہ حکومت یا اس کے اہلکار انسانی حقوق کو پامال کررہے ہیں۔ حکومت نے ایک کمیشن بنائی جس نے حکومتی اور سرکاری اہلکاروں کی رائے کو ہمیشہ اولیت دی اور عوام کے بجائے صرف اور صرف حکومت اور حکومتی اداروں کی خدمات سرانجام دیں۔ اس لئے لاپتہ ہونے والے افراد کے لواحقین نے یہ مطالبہ کیا کہ اس فراڈ کمیشن کو فوری طور پر توڑا جائے اتنے سالوں بعد بھی کوئی ایک معروف لاپتہ فرد زندہ سلامت اپنے گھر نہیں آیا۔ چند ایک نامعلوم اور غیر معروف لوگ واپس آئے ہوں گے تو ان کو کوئی نہیں جانتا۔ اس لئے ریاست اپنے وسائل اس کمیشن پر صرف نہ کرے اور اس کو فوراً توڑدے اوراس کمیشن کے سربراہ سابق جج صاحب اگرکوئی اتنے بڑی ’’قومی اثاثہ‘‘ ہیں تو ان کے لئے کسی اور نوکری کا بندوبست کیا جائے ۔گزشتہ دنوں لاہور اور اسلام آباد سے چارمعروف پاکستانی دانشور لاپتہ کئے گئے۔ پورے پاکستان میں عوام کو یہ معلوم ہے کہ وہ کیوں لاپتہ کئے گئے اس کے خلاف پورے ملک میں غم و غصہ ہے۔ وزیر داخلہ نے اخباری بیان میں یہ فرمادیا کہ عالمی اداروں کو یقین ہے کہ وہ جلد زندہ اور سلامت گھروں کو واپس آئیں گے۔ ان کے اغواء کے بعد پوری دنیا میں ایسی غیر انسانی کارروائیوں کے خلاف زبردست آواز اٹھائی گئی کیونکہ یہ واقعات اسلام آباد اور لاہور میں ہوئے بلوچستان میں نہیں۔ اس لئے وزیر داخلہ ان کو ضرور تحویل سے بازیاب کرائیں گے۔ باقی دوسرے لاپتہ افراد کے لواحقین ایسی کوئی امید نہ رکھیں۔