ہم سب انسان اس دنیا میں مسافر کی طرح ہیں اور مسلسل سفر میں ہیں اور سفر کا نام ہی اذیت ہے۔ دنیا جیسے جیسے ترقی کرتا گیا انسان نے اپنے سفر کو بھی آسان بنانے کیلئے تجربات کرتا گیا اور اپنے سفر کو آسان سے آسان تر بنانے کیلئے کامیابیاں سمیٹ تا رہا۔ آج عالم یہ ہے کہ اب مہنیوں کا سفر گھنٹوں میں ہوتا ہے اور وہ بڑی آرام سے لیکن پاکستان میں سب کچھ اْلٹ ہی ہے یہاں سفر کرنانہ نا صرف اذیت ناک ہے بالکل غیر محفوظ ہے یہاں کسی سڑک پر نکلنا ، ہوائی جہاز یا ٹرین میں سفر کرنا اپنی جان و مال کو اپنے ہاتھوں سے برباد کرناجیسا ہے کیونکہ یہاں کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ کیونکہ ہمارے ملک میں سب کچھ کالے بکروں کے صدقے اور جگاڑ پر چل رہا ہے۔ اور جب تک کوئی حادثہ نہ ہو جائے 100 لوگ زندگی ہار نہ دیں تب تک کوئی نیند سے نہیں جاگے گا کیونکہ ہماری قوم حادثوں کی قوم ہے اورحادثوں ہی میں جاگ اٹھتی ہے۔ اسی طرح اگر آپ بلوچستان کے کسی بھی علاقے سے کراچی آرہے ہوں تو پھر ایک اذیت ناک سفر کیلئے تیار ر ہیے جہاں قدم قدم پر لیویز اور باقی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہزاروں چیک پوسٹیں ہیں۔ اور ہر چیک پوسٹ پر بس کو روکھا جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بس مالکان بڑی آسانی سے ڈیزل سمگلنگ کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے بس کے اندر ایسے خفیہ خانے بنادئیے ہیں جو ہزاروں ٹن ڈیزل سے بھرے ہوتے ہیں۔مسافروں کی آڑ میں ان کا یہ مکروہ دھندہ چل رہا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اور ان بس ملکان کو مسافروں کے جانوں کی بھی کوئی پرواہ نہیں وہ تو انہیں بھیڑبکریاں سمجھتے ہیں۔ انہیں پرواہ ہے تو اپنی ڈیزل کی کہ کسی بھی طرح منزل تک پہنچ جائے۔ بلوچستان سے روزانہ ہزاروں لوگ علاج کیلئے کراچی کا سفر کرتے ہیں کیونکہ بدقسمتی سے بلوچستان کے کسی بھی شہر میں کوئی اچھا ہسپتال نہیں جہاں لوگوں کو علاج کی سہولتیں ملیں اس لیے لوگوں کو مجبوراً کراچی جانا پڑتا ہے یعنی عام طور پر بسوں کے مسافروں میں مریض بھی ہوتے ہیں جو پہلے ہی بہت تکلیف میں ہوتے ہیں اور اوپر سے یہ اذیت ناک لمبا سفر اور قدم قدم پر چیک پوسٹیں جہاں ہر 2 کلومیڑ کے بعد بس کو روکھا جاتا ہے اوراس طرح ایک اذیت ناک سفرمزید اذیت ناک بن جاتا ہے۔ سمجھ نہیں آتا وہ ان چیک پوسٹوں پر چیک کیا کرتے ہیں وہ بھی ہر دو کلومیٹر کے بعد؟آپ جیسے جیسے کراچی کے نزدیک آتے جاتے ہیں ویسے ویسے چیک پوسٹوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے۔ اگر کہیں 2 گھنٹے کا سفر ہے تو وہ 5 گھنٹے کاہو جاتاہے اور بس ڈیزل سے اتنا بھرا ہوتا ہے کہمشکل سے چلتا ہے اورجیسے ہی حب کی حدود میں آتا ہے تو بس کو روکھا جاتا ہے اور مسافروں کو باہرنکالا جاتا ہے اورپھر مسافروں کو زبردستی ویگن میں سوار کیا جاتا ہے اور مرد و خواتین کو زبردستی جانوروں کی طرحٹھونس کر ویگن کو یوسف گوٹھ کی طرف روانہ کیا جاتا ہے۔اگر کبھی بس سے آپ کراچی کی حدود میں داخل ہوں تو پھر سب سے بڑا چیک پوسٹ جو رینجرز کی ہے یہاں پھرچیکنگ ہوتی ہے کیونکہ کراچی نے بھی تو حساب برابر کرنا ہے ۔ اس انٹری پونیٹ پر سارے صوبہ بلوچستان کی گاڑیاں ، بسیں اکھٹی ہوجاتی ہیں اس لئے ایک لمبی لائن بن جاتی ہے اور رینجرز کے ہلکار ایک ٹائم میں ایک ہی بس کا پوسٹ مارٹم کررہے ہوتے ہیں اس چیکنگمیں کئی گھنٹے لگجاتے ہیں تب کہیں جاکے آپ کے بس کی باری آتی ہے اوراس وقت ہر مسافرپاگل ساہوجاتا ہے۔
یہاں عوام سوال کرنے میں حق بجانب ہے آخر ان سب چیک پوسٹوں کا فائدہ کیا جو جرم کرتا ہے یا سمگلنک کررہا ہوتا ہے وہ تو آسانی سے ان چیک پوسٹوں سے گزر جاتا ہے لیکن ذلیل تو عام آدمی ہورہا ہے۔ ان مسافروں کا کیا قصور جو مفت میں ذلیل و خوار ہورہے ہیں۔ ریاست کا مطلب لوگوں کے جان و مال کا تحفظ کرنا ہے نہ کہ ان کوذلیل و خوارکرنا۔