( فیڈریشن آف چیمبرز کامرس اینڈ انڈسٹری کی رپورٹ اور حق ملکیت کی اہمیت۔)
بلوچستان میں مارچ میں ہو نے والی مردم شماری افغان مہاجرین کی وجہ سے تناز عات کاشکار دکھائی دیتی ہے۔اس و قت بلوچستان اور خاص کر کو ئٹہ میں تقریباً40 لاکھ افغان مہا جر آباد ہیں ۔صوبے کی پشتون پار ٹیاں مہاجرین کی بلو چستان میں آباد کاری اور مردم شماری میں انکا اندراج چاہتی ہیں۔مرکزی حکومت نے ان پار ٹیوں کے مشورے پرمہاجرین کی وطن واپسی ایک سال مزید مؤخرکردی اور اوپر سے مردم شماری کا بھی اعلان کیا۔ایک مذہبی جماعت اسلامی بھا ئی چارے کے نام پر مہاجرین کی مردم شماری میں اندراج اور بلوچستان میں انکی آباد کاری کی خواہاں ہے ۔حالا نکہ سعودی عرب جہاں ہمارے پیغمبر ﷺپیدا ہوئے ،اسلام وہاں سے پھیلا،انکی زبان یعنی عربی میں قرآن مجید کا نزول ہوا، میں کسی غیر سعودی مسلمان کو مستقل رہائش یا شہریت دینے کا تصور نہیں ۔کیا اسلام کی پہچان ہمیں زیادہ ہے یا سعودیوں کو ؟ پھر ہمارے علماء ہم پرلاکھوں غیر ملکی اسلام کے نام پرکیوں تھوپ رہے ہیں؟حقیقت میں مہاجر انکے ووٹر ہیں ۔ما ضی میں ا س پارٹی کی پلیٹ فارم سے کئی مہاجر قومی اور صوبائی اسمبلی تک پہنچے اور بلوچستان میں وزیر بھی رہے،اس لیئے مفادات اور خواہشات کو اسلامی لبادہ پہنادیا گیاہے ۔ایک اور قوم پرست پارٹی کا مو قف ہے کہ بلوچستان میں پشتون آبادی بلو چوں کے برابر ہے۔یہ پارٹی بغیرکسی دلیل کے ماضی میں ہونے والی تمام مردم شماریوں کے اعدادو شمار ماننے سے انکاری ہے۔اگر 1931 سے 1998 ہونے والی مردم شماریوں کا اوسط نکا لیں تو ؛بلوچ 65.15% ،پشتون25.07% ،دوسرے 9.86% ہیں ۔ ہم مسئلے کی اہمیت کے پیش نظریہاں 1931 ء سے 1998 ء تک ہونے والی مردم شماریوں کے سرکاری اعداو شمارپیش کر رہے ہیں۔تاکہ حقیقت سب کے سا منے آئے اور غلط فیصلوں سے بچا جا سکے۔
1931 ء 1951 ء
بلوچ آبادی: 545189 (62.8% ) بلوچ آبادی: 779209 (67.8% )
پشتون آبادی: 197983 (22.8% ) پشتون آبادی: 267519 (23.2% )
دیگر آبادی: 125615 (14.6% ) دیگر آبادی: 107441 (9.3% )
کل آبادی: 868787 (100% ) کل آبادی: 1154169 (100% )
1961 ء 1972 ء بلوچ آبادی: 887679 (65.6% ) بلوچ آبادی: 1567836 (64.6% )
پشتون آبادی: 329196 (24.3% ) پشتون آبادی: 617158 (25.4% )
دیگر آبادی: 136620 (10.1% ) دیگر آبادی: 243684 (10% )
کل آبادی: 1353484 (100% ) کل آبادی: 2428678 (100% )
1981 ء 1998 ء
بلوچ آبادی: 2819755 (65.1% ) بلوچ آبادی: 4233039 (65% )
پشتون آبادی: 1138665 (26.3% ) پشتون آبادی: 1850897 (28.42% )
دیگر آبادی: 374029 (8.6 ) دیگر آبادی: 427422 (6.56% )
کل آبادی:4332449 (100% ) کل آبادی: 6511358 (100% )
اگر مر کزی حکومت اور وزارت دا خلہ کی نیت صاف ہو تو افغان مہا جرین اورمقامی آبادی میں پہچان بالکل آسان ہے ۔ اول یہ کہ بر طا نیہ وقت کے ریوی نیوریکارڈ (Revenue record ) یعنی بندوبست اراضی میں خاندان کا سربراہ ،فر قہ اور قبیلے کا نام درج ہے اورقبیلے کے موروثی زمین (آباد وغیر آباد )میں قبیلے کے ہر فردکا قدرتی حصہ ہو تاہے۔قدرتی طور پر بلو چستان میں ہر قبیلے کا مخصوص اورجدا علاقہ ہے۔اگر کوئی شخص شہر میں آ کربس بھی جائے اسکے اپنے ضلع میں اسکی جا ئیداد اورمکمل ریکارڈ موجودہے۔ مہاجرین کا بلو چستان کے ریوی نیوریکارڈمیں کوئی موروثی جا ئیداد نہیں۔دوئم یہ کہ افغان مہا جر جب آئے مہاجر کی حیثیت سے انکااندراج ہوااور اسکی بنیاد پر کئی سال انہیں امدادملتی رہی ،اس ریکارڈسے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔سو ئم یہ کہ سا بقہ مردم شماریوں کا ریکارڈ سب سے معتبر ذریعہ ہے ۔اس طرح سو سال کے بعد بھی مہا جر اور مقامی کی پہچان آسان اور ممکن ہے۔
روزنامہ ’دی نیوز‘2 فروری 2017 کے ایک مضمون میں 2011 میں ہونے والی خانہ شماری کے اعدادو شمار پیش کیئے گئے جن کے مطابق مہاجرین کی اندراج کی بناء پر 1998 کے مقابلے پاکستان کی آبادی46.9% ، اور بلوچستان کی آبادی139% بڑھی،اور قلعہ عبداللہ جسکی سرحد افغا نستان سے ملتی ہے اور جہاں مہاجر بڑی تعداد میں آباد ہیں کی آبادی1998میں370,269 تھی اور 2011 میں بڑھکر2,138,997 ہو گئی۔اس 447% اضافہ کا مطلب ہے کہ مہاجرین کا اندراج ہوا ہے۔نہ صرف قلعہ عبداللہ میں بلکہ کوئٹہ اور ہر کہیں انکا اندراج ہوا۔دوسری جانب صوبے کے کئی بلوچ علاقوں میں انسر جنسی کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگ دوسرے علاقوں ،صوبوں میں چلے گئے۔ملک اور صوبے کے لوگوں کے مفاد میں بہتر یہ ہوگا جہا جرین کی واپسی تک بلوچستان میں مردم شماری مؤخرکی جائے اورنیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ،اسمبلی سیٹوں میں اضافہ،مرکزی کوٹہ کے لیئے صوبے کی پروجیکٹڈپا پو لیشن (Projected population ) ملک کی آبادی میں اضافہ کے او سط بنیاد پر نکالی جائے اور در میانی مدت میں اس سے استفادہ کیا جا ئے۔ یہ سب سے بہتر حل ہے۔
فیڈریشن آف چیمبرز کامرس اینڈ انڈسٹری کے ایڈوا ئزری کمیٹی نے گوادر کے مستقبل اور آبادی کے توازن کے بارے میں ایک جا مع رپورٹ تیار کی جسکا اعلان فیڈریشن کے صدر رؤف عالم نے کراچی میں ایک پریس کانفرنس میں کیااور کہاکہ۔’’چین پاکستان اکنامک کاریڈورکے مکمل ہو نے کے بعد چینی با شندوں کی گوادر میں آباد کاری اور ملک کے مختلف علا قوں سے مزدوری ،ملازمت اور کاروبار کے لیئے آنے والوں کی وجہ سے گوادر کی مقامی آبادی کا توازن مکمل طور بگڑ جائے گا۔اور آنے والے 28 سالوں میں گوادر میں غیرمقامی لوگ اکثریت میں آجا ئیں گے۔رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا کہ بلوچ جس عدم تحفظ کا شکار ہیں حکومت انکے تحفظات کو دور کر نے کے لیئے قا نون سازی کرے، اور اس کے ساتھ ساتھ مقامی آبادی کے لئے تکنیکی اور پیشہ ورانہ تربیت کا بندوبست کرے تاکہ اقتصادی ترقی میں انکا حصہ محفوظ رہے۔رپورٹ کے مطابق جو سیٹلرز
اور سر مایہ کا ر یہاں آ ئیں گے وہ زمینوں کی مہنگی قیمت ادا کریں گے جسکی وجہ سے مقا می غریب آبادی کو فا ئدہ ہوگا لیکن وہ اپنی تمام زمینوں سے جلد محروم ہو جا ئیں گے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ بلوچ صرف ایک سوال پوچھ رہے ہیں کہ ’ وہ حق مالکانہ کے بغیراپنے حقوق کا تحفظ کیسے کر سکتے ہیں‘؟اس بات کا انحصار حکومت ، ملکی و غیر ملکی سر مایہ کاروں پر ہے کہ وہ کیاحکمت عملی اختیار کر تے ہیں۔‘‘(روزنامہ انتخاب کوئٹہ30 دسمبر2016 ء)۔
بلوچوں کے پاس صوبہ کا نام اورآبادی کی اکثریت کے سوااور کیا ہے،اب اسے بھی چھیننے کی سازش ہو رہی ہے۔بلوچ عوام موجودہ تناسب کو بر قرار رکھنے کی سر توڑ کوشش کریں گے۔اگر پھر بھی غیر ملکیوں کااندراج کر کے اسے تبدیل کیا گیا تو اسکے نتیجہ میں جو انتشار اور نفرت پھیلے گی ، اسکی تمام ترذمہ دار ی مر کزی حکومت اور وزارت دا خلہ پر عائد ہوگی۔وزیراعظم نواز شریف نے اس سے قبل بھی شہید نواب محمد اکبر بگٹی اور سردار اختر مینگل سے تحریری معا ہدے کیئے اور ان سے مکر گئے۔جنکاخمیازہ بلو چستان کے عوام آج تک بھگت رہے ہیں۔