بی ایس او کی تقسیم سے قبل اور نیپ کی سیاست کے بعد بلوچستان میں بادی النظر میں شعوری اور نظر یاتی سیاست کا فقدان نظر آتاہے ۔ پا رلیمانی سیاست کی راہدا ریوں میں سفر کر نے کی وجہ سے بلوچستان کی سیاست کی منزل گو یا آ ب و سراب کی نظر ہوگئی ہے ۔ اب یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ شا ید بلوچستان میں نظر یاتی سیاست دفن ہوگئی ہے ۔ لیکن اس کا دوش پارلیمانی سیاست کو نہیں دیا جا سکتا کیونکہ دیگر دنیا میں پارلیمانی سیاست نظر یاتی کمٹمنٹ کو شاذو نادر ہی متزلزل کر گیا ہے مگر بلوچستان میں پارلیمانی سیاست کو نظر یاتی سیاست کی تباہی کا ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے جو المیہ ہے اور اس کی توجیح یہ پیش کی جارہی ہے کہ پارلیمانی سیاست میں انٹر ی کے بعد نظریاتی سیاست کے معیار کو استعمال کرنے کی بجائے مر ا عات کی تقسیم اور اس کی چاشنی کے رجحان نے نظر یاتی کارکنوں اور رہنماؤں کااپنے نظریہ سے دوری بنائے رکھنے کا سبب بناہے ۔ نیپ کو بلوچستان حکومت سنبھالنے کا موقع ملا تھا چہ جائیکہ یہ موقع قلیل عرصے کا تھا لیکن نیپ میں شامل بلوچ رہنماؤں نے بلوچستان کی محرومیوں کو دور کرنے کی حتیٰ الوسع کوشش کی بلوچستان میں پہلے میڈ یکل کالج کا قیام عمل میں لا یا گیا لیکن اس عر صے کے بعد بلوچستان میں جیسے محرومیوں کے سائے گہرے ہوتے گئے ۔ اختر مینگل کو کچھ وقت کا سی ایم شپ عطا کیا گیا ۔ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ مری معاہد ہ کے تحت ڈھائی سال تک اس عہد ہ پر قائم رہے ڈاکٹر مالک کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا یا جارہا ہے لیکن یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ڈاکٹر مالک کے دور حکومت میں تین میڈیکل کالج اور چھ یونیو رسٹیاں بنائی گئی ہیں ۔ ابھی کل بحث ہورہی تھی کہ ہم بلوچستان میں ہونے والی زیادتیوں کا طعنہ دوسر وں کو دیتے ہیں لیکن صوبے سے لیکر مقامی حکومتوں تک سب کی بھاگ دوڑ بلوچ زعماء کے ہاتھوں میں ہے پھر کیونکر محرومی کی تشنگی پائی جاتی ہے ؟ کچھ لوگوں کا موقف ہے کہ بھاگ دوڑ بلے ہی ہما رے اپنوں کے ہاتھ میں ہو مگر طاقت کا سر چشمہ یہ لوگ نہیں ۔ نظریاتی سیاست کے فقدان کے باعث اجتماعی کاموں کی کوئی حوصلہ افزائی نہیں کر تا اگر کسی کا لوکل سرٹیفکٹ نہیں بنے تو وہ نظر یاتی سیاست کی کمی کو جواز بنا کر نشتر کے تیر چلاتا ہے یا سیاسی وفاداری تبدیل کرنے میں ذرا بھی تاخیر نہیں کرتا ۔ پھر ان لوگوں سے جا ملتاہے جن کو اس نے خود ہی ماضی میں لعن طعن کیا تھا اورجب اس بارے میں اگر کوئی استفسار کر ے تو سامنے سے یہی جواب ملتا ہے کہ بلوچستان میں نظر یاتی سیاست دفن ہوچکی ہے بس اپنی فکر کرو کھاؤ پیو اورعیش کرو۔
بلوچستان کی سیاست ایک زمانہ میں شعوری طو ر پر استوار تھی بی ایس او کی تقسیم سے قبل ایک مر بوط نظم و نسق موجود تھا اورنیپ کے رہنماؤں نے اپنے عمل اور کردار سے ہر ایک کو گر وید ہ بنا رکھا تھا۔ بابا ئے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو کی در ویشانہ سیاسی زندگی آ ج بھی مثال کے طور پر پیش کی جاتی ہے جس نے بلوچستان کے طول و عرض میں واقع ہر بلوچ گدان کا رخ کر کے شعوری اور فکر ی سیاست کی تبلیغ کی جبکہ سر دار عطاء مینگل اور نواب خیر بخش مری کی سیاست کو بھی آ ئیڈ یل کا درجہ دیا جا رہاہے۔ حیف کہ اب یہ رجحا ن کب کا تہہ و بالا ہوچکاہے ۔ بلوچستان کی سیاست پر خود ماضی کے نظر یاتی سیاست کی پر چار کر نے والے ہد ف تنقید بناکر گروہی سیاست کے قر یب ہوتے جارہے ہیں ۔ بلوچستان میں سیاسی ماحول جیسے گم گشتہ ہوتی جارہی ہے اب چائے خانوں اور تھڑ ے پر سیاست کر نے والا کامر یڈ نظر نہیں آ تا البتہ بہتر سے بہترمر اعات کا حصول ہی سیاست بن گئی ہے۔
بلوچستان میں سیاست تقسیم در تقسیم کا شکار ہے اور سب سے تشو یش ناک امر یہ بھی ہے کہ خاندانی گروہ بندی کا عنصر بھی غالب آ رہا ہے۔ اب لوگ بر ادریوں کو اپنی بقاء کا ضامن سمجھ رہے ہیں اس لےئے اسمائے شر یف کے ساتھ قبیل کا نام استعمال کرنا فیشن بن چکا ہے۔ بلوچستان میں نظر یاتی سیاست کی کمی کے باعث بلوچستان ایشوپر اجتماعی سیاست کا رجحان بھی نا پید ہوتا جارہا ہے بلوچستان میں اس وقت مر دم شماری کے حوالے سے بلوچ قو م کو کئی خطرات در پیش ہونے کا خدشہ ہے بلوچستا ن کی سیاست میں متحر ک سیاسی جماعتیں بلوچ قوم کی اقلیت میں تبد یل ہونے کے خدشہ کااظہار کررہی ہیں لیکن ڈر لگتا ہے کہ نظر یاتی سیاست کے نا پید ہونے اور سیاسی کھینچا تانی کے اس ماحول میں اجتماعی مسائل کے لےئے جد و جہد موثر ہوگی بھی کہ نہیں۔ بلوچستان کی قوم پرست جما عتیں مردم شماری کے حق میں نہیں ہیں۔ لیکن خیال رہے کہ اس حوالے سے مذکورہ جما عتیں صرف میڈ یا تک محدود ہیں عملی سطح پر یہ جماعتیں اس حوالے سے عوامی رائے عامہ کو اپنی طرف متوجہ نہ کر سکی ہیں ۔ یقیناًبلوچستان میں موجود لاکھو ں افغان پنا ء گز ینوں کی موجودگی میں بلوچستان کی آبادی کا توازن متاثر ہو سکتا ہے اور بلوچ آبادی کے اقلیت میں تبد یل ہونے کا خدشہ بھی اپنی جگہ درست ہے مگر اس سے اس صورت بچا جاسکتا ہے جب بلوچ قوم پرست قیادت اپنا مشترکہ لائحہ عمل بنا ئیں کیونکہ اس وقت بلوچستان حکومت اور وفاق میں بلوچ قوم پرست جما عتوں کے پاس چندسیٹیں اور وزارتیں ہیں جس کے تحت وہ لاکھ کوشش کر یں مر دم شماری کو نہیں رکوا سکتے ۔نیشنل پارٹی اور بی این پی ( مینگل) نے عدالت عظمیٰ میں مر دم شماری رکوانے کے لےئے اپنا اپنا مقدمہ بھی دائر کیا ہے دیکھتے ہیں کہ وہ عدالت کو اس حوالے سے کس طرح مطمئن کر تے ہیں۔ اگر اس حوالے سے اُ نہوں نے وسیع النظر اور بالغ نظری کا مظا ہر ہ نہیں کیا تو خدشہ ہے کہ بلوچستان میں موجود لاکھوں افغان پنا ء گزینوں کی موجودگی میں ہونے والے مر دم شماری کی صورت میں بلوچ قوم کی اکثریت کم ہو جائے گی اگر مردم شماری کے بعد بلوچ قوم کی حیثیت تبدیل ہوگئی نہ تو قبیل کی اہمیت ہوگی، نہ مراعات کی طرف مراجعت سہل ہوگا اور نہ ہی حکمرانی کے تاج کا حصول ممکن ہوسکے ہوگا۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔