|

وقتِ اشاعت :   February 12 – 2017

کوئٹہ:بلوچستان میں فارنزک سائنس ایجنسی کے قیام کے منصوبے پر چار سالوں بعد بھی کام شروع نہ ہوسکا۔ نوے کروڑ روپے کے منصوبے کیلئے صوبائی حکومت نے صرف تین کروڑ روپے مختص کئے ہیں جو زمین کی خریداری کیلئے بھی ناکافی ہے۔ وفاقی حکومت نے منصوبے کیلئے خریدی گئی زمین بلوچستان حکومت کو دینے سے انکار کردیا۔ ایک دہائی سے دہشتگردی کے شکار صوبے کی پولیس اور لیویز فورس فارنزک رپورٹس کیلئے لاہور ، کراچی اور اسلام آباد کی لیبارٹریوں پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔ سرکاری ذرائع کے مطابق فارنزک لیبارٹری کا منصوبہ چند سال قبل وفاقی حکومت کے ادارے نیشنل فارنزک سائنس ایجنسی نے کوئٹہ میں بھی فارنزک سائنس ایجنسی قائم کرنے کے منصوبے پر کام شروع کیا تھا اور اس سلسلے میں وفاقی حکومت نے کوئٹہ میں زمین بھی خرید لی تھی لیکن اٹھارہویں ترمیم کے بعد یہ منصوبہ صوبائی حکومت کو منتقل ہونے کے بعد وفاقی حکومت نے خریدی گئی زمین بلوچستان کو دینے سے انکار کردیا۔ وفاقی حکومت کا مؤقف ہے کہ رقم کی ادائیگی کے بعد ہی زمین کا قبضہ بلوچستان حکومت کو دیا جائے گا۔ منصوبہ بلوچستان حکومت کو منتقل ہونے کے بعد مالی سال 2013-14 سے صوبائی بجٹ کے سالانہ پی ایس ڈی پی پروگرام میں منصوبہ شامل کیا گیا اور اس کیلئے تین کروڑ روپے مختص کئے گئے۔ اس کے بعد گزشتہ چار سالوں سے صوبائی بجٹ میں منصوبہ شامل کیا جارہا ہے لیکن اس پر کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی۔ صوبائی کابینہ کے بعد اگست 2015ء میں بلوچستان اسمبلی نے بھی بلوچستان فارنزک سائنس لیبارٹری کا مسودہ قانون بھی منظور کیا لیکن حکومت کی عدم توجہی کے باعث منصوبے کو عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکا ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق پراسکیویشن ڈیپارٹمنٹ نے کوئٹہ میں اسپنی روڈ پر چار ایکڑ اراضی پر فارنزک سائنس ایجنسی کے منصوبے کا 90کروڑ روپے کا پی سی ون تیار کرلیا ہے اور اسے منظوری کیلئے اعلیٰ حکام کو بجھوادیا ہے لیکن اس کی منظوری بھی اب تک نہیں دی جاسکی ہے۔ بلوچستان جہاں دہشتگردی کے واقعات میں گزشتہ ایک دہائی سے ہر سال اوسطا تین سو شہری اپنی جانیں گنوارہے ہیں میں فارنزک لیب نہ ہونے کی وجہ سے پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکوں سمیت دہشتگردی اور جرائم کے دیگر واقعات کی تفتیش میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ پولیس اور لیویز کو فارنزک رپورٹس کیلئے کراچی ، لاہور اور اسلام آباد کی لیبارٹریز سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح نہ صرف اخراجات زیادہ ہوتے ہیں بلکہ رپورٹس آنے میں بھی تاخیر ہوتی ہے۔ پنجاب میں دار الحکومت لاہور میں تقریبا پانچ ارب روپے کی لاگت سے جدید طرز کی فارنزک لیب ایجنسی قائم کی گئی ہے جہاں روزانہ چھ سو سے زائد کیسز پر کام کیا جاتا ہے۔ اس لیبارٹری میں ڈی این اے ، فنگر پرنٹس، ویڈیو، آیڈیو اور کرائم سین سے جمع کئے گئے دیگر شواہد کی بہترین طریقے سے جانچ پڑتال کی جاتی ہے جس کی مدد سے پنجاب میں سینکڑوں کیسز حل کئے گئے ہیں۔ جبکہ بلوچستان میں کرائم برانچ پولیس کوئٹہ میں 1984ء میں قائم کی گئی فارنزک لیبارٹری اب تقریباً ناکارہ ہوگیا ہے ۔ یہاں اب تک 40ہزار سے زائد کیسز کی جانچ پڑتال کی جاچکی ہے لیکن 33 سالہ پرانی اس لیبارٹری میں صرف فنگر پرنٹس، ہتھیاروں اور منشیات کی جانچ پڑتال ہوسکتی ہے۔ بم دھماکے اور دیگر اہم نوعیت کے جرائم میں جائے واردات سے ملنے والے شواہد کا لیبارٹری میں تجزیہ نہیں ہوسکتا۔ ڈی این اے اور دیگر جدید فارنزک ٹیسٹ کیلئے بھی اس لیبارٹری میں آلات اور نہ ہی تربیت یافتہ عملہ دستیاب ہے جس کی وجہ سے پولیس جرائم کے واقعات کی روایتی انداز میں تفتیش کرتی ہے۔ ماہرین قانون کے مطابق دہشتگردی اور جرائم کے واقعات کی سائنسی بنیادوں پر تفتیش کیلئے فارنزک لیبارٹری کا قیام ضروری ہے۔ ایڈووکیٹ نادر چھلگری کے مطابق جرم کے کسی بھی واقعہ کی تفتیش میں مجرم اور بے گناہ کے تعین کیلئے فارنزک سائنس کا بے حد اہم کردار ہے۔ جدید دور میں سائنسی بنیادوں پر تفتیش کے بغیر مجرم تک پہنچانا مشکل ہوتا ہے اور بے گناہ افراد کو سزا ہوجاتی ہے۔ چوری ، قتل ، بم دھماکے سمیت کسی بھی جرم کی واردات کی تفتیش میں فنگر پرنٹس، ڈی این اے ٹیسٹ اور کرائم سین سے جمع کئے گئے دیگر شواہد کی مدد سے مجرم تک آسانی سے پہنچا جاسکتا ہے لیکن بلوچستان میں پولیس اب بھی روایتی انداز میں کام کرتی ہے جس کی وجہ مجرم با آسانی عدالتوں سے رہا ہوجاتے ہیں۔ کوئٹہ میں گزشتہ سال اگست اور پھر اکتوبر میں سول اسپتال اور پولیس ٹریننگ کالج پر حملوں کے بعد دھماکوں کی جگہ سے پنجاب فارنزک سائنس ایجنسی کی ٹیم نے شواہد اکٹھے کئے تھے۔ سول اسپتال واقعہ کی تفتیش کرنے والی ٹیم میں شامل ایک سینئر پولیس آفیسر نے بتایا کہ پنجاب فارنزک لیبارٹری کی رپورٹس اور سائنسی بنیادوں پر تفتیش کے نتیجے میں ہی پولیس کو سانحہ سول اسپتال کے ملزمان تک پہنچنے میں کامیابی ملی۔ بلوچستان میں پولیس اور لیویز میں سائنسی بنیادوں پر تفتیش کرنے والا تربیت یافتہ عملہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اہلکار بہت کرائم سینز کو محفوظ کرپاتے ہیں۔ بیشتر مقدمات میں مشتبہ افراد کی بجائے اہلکاروں کو اپنے ہی فنگرپرنٹس کرائم سنز پر ملتے ہیں۔ روایتی طریقوں سے تفتیش کی وجہ سے ہی عدالتیں پولیس پر بھروسہ نہیں کرتیں ۔جبکہ فارنزک سائنس کسی ملزم تک پہنچنے کا فوری اور مستند طریقہ ہے۔ اس سے ایک طرف بے گناہ شخص کو جرم سے کے الزام سے نجات ملتی ہے تو دوسری طرف حقیقت میں جرم کرنے والا پکڑا جاتا ہے۔ ڈی آئی جی کوئٹہ پولیس عبدالرزاق چیمہ کا کہنا ہے کہ فارنزک سائنس ایجنسی کے قیام میں کیا رکاوٹیں ہیں انہیں علم نہیں لیکن اب صوبائی حکومت اور پولیس دونوں اس منصوبے پر پیشرفت میں سنجیدہ ہیں۔اس وقت فارنزک سائنس لیبارٹری نہ ہونے کی وجہ سے کوئٹہ پولیس کو اپنے سیمپلز لاہور بجھوانے پڑتے ہیں۔ پہلے ہم کراچی اور اسلام آباد کی لیبارٹریز میں بھی سیمپلز بجھواتے تھے لیکن اب صرف لاہور لیبارٹری کو اس لئے بجھواتے ہیں تاکہ تمام واقعات سے متعلق ہمارا ڈیٹا بیس ایک ہی لیبارٹری میں جمع رہا جو تفتیش میں بھی مدد گار ثابت ہوگا۔ اگر کوئٹہ میں جدید سہولیات سے آراستہ فارنزک سائنس ایجنسی قائم ہوتی ہے تو اس سے پولیس کو کیسز کو حل کرنے میں بہت فائدہ ہوگا۔ یاد رہے کہ کوئٹہ انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں قاضی فائز عیسیٰ نے تمام صوبوں میں پنجاب طرز کی فارنزک سائنس لیبارٹری کے قیام کی سفارش کی تھی لیکن ایک دہائی سے دہشتگردی کے شکار صوبے کی حکومت کی اس منصوبے کو آگے بڑھانے میں دلچسپی نظر نہیں آرہی۔