حالیہ بارشوں کے بعد گوادر شہر اور نواحی علاقوں میں پانی کا بحران وقتی طور پر ٹل گیا ہے بارشوں کے نتیجے میں آ نکاڑہ ڈیم میں پانچ فٹ پانی کا ذخیر ہ جمع ہوچکا ہے اور محکمہ پبلک ہیلتھ ( پی ایچ ای ) کا کہنا ہے کہ پانی کا ذخیر ہ بمشکل تین یا چار ماہ کے لےئے استعمال ہوسکے گا۔ واضح رہے کہ پورٹ سٹی گوادر کے علاوہ جیونی، پشکان، نگور اور سر بندن کی پانی کی ضر وریات آ نکاڑہ ڈیم سے پوری کی جاتی ہیں لیکن طو یل خشک سالی کے باعث آ نکاڑہ ڈیم گزشتہ سال کے آخر میں خشک ہوگیا تھا اس سے قبل 2012اور 2014میں بھی آنکاڑہ ڈیم خشک ہو چکا تھا دوسرے متبادل آبی ذخائر موجود نہ ہونے کے باعث پانی کے بحران پر قابو پانے کے لےئے واٹر باؤزر کاا ستعمال دوسراآ پشن رہا ہے ۔ حالیہ بحران کے دوران گوادر سے تقر یباً 180کلو میٹر دور واقع میرانی ڈیم سے پانی سپلائی کی گئی تھی ۔
آ نکاڑ ہ ڈیم نو ے کی دہائی میں محترمہ شہید بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں تعمیر کی گئی تھی مگر اس وقت شہر کی قلیل آبادی کو مد نظر رکھا گیا تھا گوادر پورٹ کی تعمیر اور سی پیک کی سر گر میاں شروع ہونے کے بعد گوادر کی آبادی پھیل چکی ہے یہی وجہ ہے کہ خشک سالی طو یل ہو جانے کے بعد آ نکاڑہ ڈیم کا خشک ہو جانا معمول بن گیا ہے اور پانی بحران پورٹ واسیوں کے لےئے اضطراب پید ا کررہا ہے ۔
ماضی میں حکومت بلوچستان کی جانب سے گوادر، پسنی اور جیونی میں سمندری پانی کو میٹھا بنانے کے لےئے ڈیسا لینیشن پلانٹ لگائے گئے ۔ گوادر میں پلانٹ کارواٹ کے مقام پر تعمیر کی گئی تھی جس پر 98کروڑ روپے کی لاگت آ ئی تھی اور مذکورہ پلانٹ سے یومیہ بیس لاگھ گیلن پانی پیدا کر نے کی گنجا ئش کی توقع کی گئی لیکن پلانٹ کا منصوبہ مکمل ہونے کے بعد اس سے صاف پانی کا حصول ممکن نہیں رہا ۔ 2014کے پانی بحران کے موقع پر پلانٹ کو چلا یا گیا جس سے یومیہ چار سے پانچ لاکھ گیلن پانی حاصل ہوسکا مگر منصو بے میں موجود نقائص کے باعث یہ پلانٹ مز ید چل نہ سکا۔ پسنی اورجیونی کے پلانٹ کے منصو بوں پر کافی رقم خرچ ہوئی لیکن ان سے بھی استفادہ نہیں کیا جاسکا۔
حالیہ بارشوں نے پانی کا بحران وقتی طور پر حل کیا ہے اور حکومت کے پاس منصو بہ بندی کے لےئے کافی وقت بھی ہے کیونکہ اس سیزن کے اختتام کے بعد ضلع گوادر میں بارشوں کا سلسلہ رک جاتا ہے اور خدشہ ہے کہ ضلع میں ایک مرتبہ پھر خشک سالی ہوگی جس کے لےئے ضرورت اس امرکی ہے کہ حکومت پانی کے مستقل حل کے لےئے راہیں تلاش کرے۔ سو ڈ ڈیم مکمل ہو چکی ہے اس سے پانی کی سپلائی کے لےئے ساڑھے تین ارب کی لاگت سے پائپ لائن بچھانے کی بھی منظوری دی گئی ہے لیکن پائپ لائن کا منصو بہ اب تک پائپ لا ئن میں ہی نظر آتاہے ۔ کارواٹ ڈیسالینیشن پلانٹ کو بھی کارآمد بنایا جاسکتا ہے لیکن اس پر سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ پسنی اور جیونی کے ڈیسالینیشن پلانٹس کو بھی موجودہ حالات میں استعمال میں لانا، نا گزیر بن چکا ہے ۔ پی ایچ ای کا کہنا ہے کہ گوادر اور اس سے منسلک علاقوں کی پانی کی ضروریات یومیہ تقر یبا 35لاکھ گیلن ہے ۔اس وقت آنکاڑہ ڈیم میں پانی کا ذخیرہ موجود ہے لیکن پانی کی وافر مقدار میں فراہمی اب بھی ایک چیلنج ہے ذخیر ہ شدہ پانی کو احتیاط کے ساتھ استعمال کرنا انتہائی ضروری ہے تاکہ پانی ضائع نہ ہو اور طویل مدت تک کام آسکے ۔
گوادر کی اہمیت کے باعث یہاں پر پانی بحران پر مستقل قابو پانا ناگزیر امر بن گیا ہے کیونکہ چائنا ولیج بننے کے بعد گوادر میں تجارتی اور دیگر سر گرمیوں میں شدت آنے کی توقع کی جارہی ہے ۔ شہر میں پانی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لےئے دیر پا منصو بے وقت کی اہم ضرورت ہیں پھر کوئی یہ سوال نہ کرے کہ سمندر کے کنارے آباد لوگ پیاس کی عفریت کا کیونکر شکار بن جاتے ہیں؟