|

وقتِ اشاعت :   February 27 – 2017

ملک بھر میں 19 سالوں بعد عدالتی حکمنا مہ پر وفاقی حکومت مردم شماری کرانے جارہی ہے جس کا باقاعدہ آغاز آئندہ ماہ کے دوسرے ہفتے سے بلوچستان سے کیا جارہا ہے،صوبے میں آخری مرتبہ 1998 میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ سردار اختر جان مینگل کے دور حکومت میں مردم شماری کرائی گئی تھی جس کا پشتون قوم پرست جماعت کی جانب سے بائیکاٹ کیا گیا تھا جوسمجھتی تھی کہ مردم شماری میں جعلی لوگوں کا اندراج کیا جارہا ہے جو اس وقت اس جماعت کے لیے ناقابل قبول تھا مگر اب کی بار وزیر اعظم نواز شریف جو اتفاق اس وقت بھی وزیر اعظم تھے کوماضی میں بائیکارٹ کرنے والی جماعت کی جانب سے مردم شماری کرانے پر آمادہ کیا گیا ہے صوبے کے تمام اضلاع میں مردم شماری کے انتظامات کے سلسلے میں تیاریاں تیزی سے جاری ہیں عملہ کو تربیت فراہم کی جارہی ہے آرمی سے بھی مردم شماری کے لیے فوج کی خدمات حاصل کرلی گئیں ہیں جبکہ بلوچ قوم پرست جماعتوں کا شروع دن سے موقف ہے کہ بلوچستان میں موجودگی لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین سمیت تارکین وطن کی موجودگی میں مردم شماری شفاف نہیں ہوسکتی 2005 سے جاری شورش کے باعث لاکھوں بلوچ دیگر علاقوں کو نقل مکانی کرچکے ہیں صوبے میں جاری مزاحمت کے باعث گھر گھر خانہ شماری اور مردم شماری کرنا ممکن نہیں ہیجس کے باعث گزشتہ روز سراوان ہاؤس میں بلوچستان بھر سے قبائلی معتبرین سیاسی جماعتوں کا جرگہ نوابزادہ لشکری رئیسانی کی زیر صدارت منعقدہ ہوا جس میں سیاسی ومذہبی جماعتوں کے رہنماؤں و قائدین نے مردم شماری بارے اپنے تجاوزاور خدشات کا اظہار کیا جرگہ سے بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ خوش قسمتی ہے کہ اس جر گے میں بلوچستان کے کونے کونے سے سیاسی لوگ ، قبائلی عمائدین مجھ جیسے سابق وزیراعلیٰ شریک ہیں اور موجودہ بھی ہو تا تو مزہ کچھ اور ہو تا قدرت کی سرد ہوائیں چل رہی ہے ریاست کی گرم ہوائیں سے بچھنا ہو گا مردم شماری سے کوئی انکار نہیں کر تا لیکن مردم شماری کے حوالے سے جو طریقہ کار ہے ان کی ضرورت ہو تی ہے ملک میں مردم شماری ہو تی ہے تو تعلیم، صحت اور دیگر ضروریات زندگی کو مد نظر رکھتے ہیں مگر بد قسمتی سے ملک میں15 سالوں سے ایوانوں اور عدالتوں میں چیخ چیخ کر کے گمشدگی کے تعدادکے بارے میں بتائے کر تے ہیں لیکن کوئی اس کے تعداد نہیں بتا تے جن کے بچے گم ہے حکومت اور کمیشن کہتے ہیں کہ سینکڑوں میں ہے لیکن جن کے بچے لاپتہ ہے وہ تعداد ہزاروں میں بتا تے ہیں ذمہ دار لوگ کہتے ہیں کہ جو گم شدہ ہے وہ افغانستان ، انڈیا یا جنت میں ہے ہمیں تو جلے ہوئے گاؤں کا حساب بھی نہیں بتا تے 15 سالوں میں کتنے گھروں کو جلائے گئے جواب دینے والے اتنے بااختیار اور طاقتور ہے کہ ہم ان کے سامنے کچھ بھی نہیں ہے دنیا ئی حقائق سے انکار نہیں کر سکتے یہاں کے وسائل کی تقسیم ترقی کی رفتار کا تعین مردم شماری سے کیا جا تا ہے جو طاقتور ہو گا وہ اپنے لئے سب سے زیادہ مال رکھتے ہیں پنجاب 1947 سے 1971 تک ملک کو اس لئے ون یونٹ بنایا کیونکہ ہم اس وقت بلوچ، پشتون، سندھی، ہزارہ نہیں تھے سب کو اس لئے اکھٹا کیا گیا کہ بنگلہ دیش کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر نے کے کوشش کریں بلوچستان میں مجموعی طور پر مردم شماری کے حوالے سے بہت بڑا مسئلہ ہے اس سے پہلے بھی مردم شماری ہو چکی ہے 1998 میں مردم شماری ہوئی پشتون بلوچ روایات کے برعکس جو استقبال کیا گیا وہ اس کا اندازہ کوئی نہیں کر سکتا ہم شروع دن سے یہی مطالبہ کرتے ہیں کہ غیر ملکیوں کا اندراج نہ کیا جائے اس وقت بھی قصور یہی تھا جس پر کچھ عناصر نے احتجاج کیا اگر اس حالت میں مردم شماری کرائی گئی تو یہ اجتماعی خودکشی ہو گی انہوں نے کہا کہ2005 سے صوبے میں پانچواں آپریشن کیا گیا جس کی وجہ سے ہزاروں لوگ نقل مکانی کر گئے آواران میں انتخابات کے دوران 20 ہزار ووٹ کاسٹ ہو تے تھے2013 کے انتخابات میں صرف500 ووٹ کاسٹ ہوئے اور الیکشن کمیشن کے سامنے 25 ووٹ سامنے آئے جس پر ایم پی اے منتخب ہوا ڈپٹی اسپیکر بھی بنا اور قائمقام اسپیکر بھی بنا مردم شماری اور انتخابات میں فر ق ہو تا ہے سرکاری فورسز کی نگرانی میں ووٹ کاسٹ ہو تا ہے مردم شماری کا طریقہ کار انتخابات سے مختلف ہو تا ہے مردم شماری کے دوران گھر گھر جانا ہو تا ہے دنیا وی قوانین میں معذوروں کے لئے الگ کالم ہو تا ہے یہاں پر بد قسمتی سے صحت مند کے لئے الگ کالم نہیں ہو تا تو معذوروں کی کیا حیثیت ہو گی انہوں نے کہا کہ سی پیک کے کانوائے سڑک میں کرفیولگا کر فورسز کی نگرانی میں ژوب سے گوادر تک کانوائے لے جایا گیا مردم شمار اور خانہ ہی نہیں جبکہ کسی علاقے میں مردم نہ ہو تو وہاں کیا مردم شماری ہو گی کچھ گھر آپ لو گوں نے گرائیں تو کچھ زلزلے سے گر گئے بلوچستان کے مختلف علاقوں کیچ، پنجگور، ڈیرہ بگٹی، قلات، بولان سمیت دیگر علاقوں سے چالیس فیصد آبادی نقل مکانی کر چکی ہے جو شورش ہے ان کا خاتمہ نہیں کیا جا تا شورش کا خاتمہ آپریشن یا گن شپ ہیلی کاپٹر سے نہیں بلکہ سیاسی طور پر ختم کرنا ہو گا جب سے بلوچستان میں شورش ہوئی ہے کسی نے سیاسی طور پر حل کر نے کی کوشش نہیں کی 4 سیٹیں ملنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلوچستان اور افغانستان کے قریبی تعلقات اور رشتے ہیں یہ رشتے چند وزارتوں اور ممبر شپ کے محتاج نہیں ہے جب بلوچستان میں حالات خراب تھے تو ہمارے اکابرین نے افغانستان میں پنا ہ لی ہم فخر کر تے ہیں بلوچ بھی مہا جر کی حیثیت افغانستان میں آباد ہے جب یہاں حالات بہتر ہوئے تو وہ واپس آئے بلوچستان سے افغانستان کی حالت قدرے بہتر ہے وہاں پر مسجدوں، امام بارگاہوں میں دھماکے نہیں ہو رہے یہاں پر تو کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں ہے یو این ایچ سی آر کے مطابق 1978 میں مہا جرین کے آمد کا سلسلہ شروع ہوا پہلے21 ہزار مہا جرین بلوچستان میں آباد ہوئے یہ سلسلہ آہستہ آہستہ بڑھتا گیا 1 لاکھ 93 ہزار پھر3 لاکھ86 ہزار تک پہنچے ماہانہ 10 ہزار کے مہا جرین کا اضافہ ہو تا گیا دسمبر1980 میں14 لاکھ17 ہزار تک پہنچے پھر ماہانہ ایک لاکھ مہا جرین کا یہاں آنا شروع ہو گیا اور پھر یہ آبادی بڑھتی بڑھتی چالیس لاکھ تک پہنچ گئی انہوں نے کہا کہ دو برادر قومیں صدیوں سے آباد ہے جن کو کوئی بھی الگ نہیں کر سکتا کچھ عناصر اسمبلیوں کی سیٹوں میں اضافے کی خاطر اور اپنا اجاداری کو تقویت دینے کے لئے مردم شماری میں مہا جرین کا اندراج کر رہے ہیں اگر خدنخواستہ برادر اقوام کے درمیان تقسیم کا فیصلہ کیا گیا تو بیٹھ کر جرگے کے ذریعے فیصلہ کرینگے اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی کا کہنا تھا کہ مردم شماری ہر حال میں ہونی چا ہئے کسی کو بھی اس مسئلے پر انا کا مسئلہ نہ بنائے تمام چیزوں پر سنجیدگی سے غور کر نا چا ہئے مردم شماری کو متنازعہ نہ بنایا جائے ہم خود مختار نہیں ہے مہا جرین کے حوالے سے بین الاقوامی پالیسی پر حکمران فیصلہ کرینگے جب تک اسٹیبلشمنٹ اپنے فیصلے تبدیل نہیں کرینگے تو ہم اپنے فیصلوں میں کبھی بھی خود مختار نہیں ہونگے حالات سے آگاہی اورحالات کے تناظر میں کردار ادا کر نا ہو گا اگر سارے مہا جر بھی شامل ہوجائے تو وفاق سے زیادہ فائدہ حاصل کرینگے ترقی رقبے کے لحاظ سے منتشر آبادی اور پسماندگی ٹیکس ومساوات کی بنیاد پر دیئے جا تے ہیں اس لئے اس مسئلے پر غور وفکر کرنا ہو گا نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا کہناتھا کہ بلوچستان میں پہلے اس طرح جر گہ نہیں دیکھا آج جس مسئلے پر جرگے کو بلایا گیا ہے وہ انتہائی اہم ایشو ہے آج کے قائدین کے تقاریر سے حوصلہ افزائی ہو ئی ہے جو بلوچستان کے خلاف سازش کر ے گا اس کے خلاف متحد ہو کر لڑنا ہو گا جر گہ جو بھی فیصلہ کرے نیشنل پارٹی بھر پور حمایت کرے گی تمام تارکین وطن کو واپس بھیجا جائے اور بلوچ آئی ڈی پیز کو فوری طور پر آباد کیا جائے کچھ بلوچ اضلاع میں حالات خراب ہے اب بھی حالات ٹھیک نہیں ہے بلوچستان ہمارا تاریخ وطن ہے سب کو مل کر کام کرنا ہو گا بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے مرکزی نائب صدر سید احسان شاہ نے جرگے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جر گے نے مردم شماری کے حوالے سے جر گہ بلا کر قومی فریضہ ادا کیا پنڈال سے اعلامیہ جاری ہو تا ہے یہ بہت اہمیت کا حامل ہے قراردادوں کی طرح جر گے کے اعلامیہ کو سرد خانے میں نہ ڈالا جائے بی این پی عوامی مردم شماری کی مخالف نہیں ملک میں مر دم شماری ہونی چاہئے ایسا نہ ہو کہ مردم شماری مزید مسائل پید کرے صوبے کا حق نہیں دیا جا رہا ایک سیاسی کی دعوت پر وزیراعظم پشین آرہے ہیں وہ مردم شماری کے حق میں دلائل دینگے مشکل مسئلہ نہیں لیکن حکمرانوں کے عزائم ٹھیک ہو حکمران مردم شماری اپنے مرضی سے کر اتے ہیں کسی ایک مہاجر کے خلاف نہیں بلکہ جو بھی تارکین وطن ہے بی این پی عوامی ان کے خلاف ہے کچھ سیاسی جماعتیں اپنی ذاتی عناد کے لئے منفی ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں انہوں نے کہا کہ بلوچ علاقوں سے آپریشن کی وجہ سے نقل مکانی کر نے والے لو گوں کو واپس بلایا جائے اور ان کو مردم شماری میں شامل کیا جائے بلوچستان کے مجموعی امن وامان کی صورتحال خراب ہے ایسے حالات میں مردم شماری کیسے ہو گی صوبائی حکومت نے ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی جو لوگ معائنہ کر نے گئے تھے ان کی لاشیں ملی اس حالت میں مردم شماری کیسے ممکن ہے جمعیت علماء اسلام نظریاتی کے قائمقام امیر مولانا عبدالقادر لونی نے کہا کہ بلوچستان امتحانات سے گزر رہے ہیں دنیا کر چکے ہیں لیکن اہل بلوچستان دن بدن مایو س ہو تے جا رہے ہیں ہمیں مایوسی کے سواکچھ نہیں ملا ہمارے وسائل ہم پر نہیں بلکہ کسی اور پر خرچ ہو رہے ہیں جمعیت علماء اسلام نظریاتی مردم شماری میں غیر ملکیوں کو کسی بھی صورت شامل نہیں کرینگے مردم شماری اہم ایشو ہے پشتون وبلوچ کا تنازعہ نہیں ہو نا چا ہئے 98 میں مردم شماری سے بائیکاٹ کی وجہ سے جو نقصان اٹھا رہے ہیں وہ آج بھی پورا نہیں ہوا یہ نہ سوچ لیں کہ مردم شماری کا بائیکاٹ کریں غیر ملکیوں کومردم شماری سے دور کیا جائے اپنے مفادات میں کسی بھی غیر ملکی کو شریک نہیں کرینگے سب سے زیادہ نقصان پشتونوں کا ہو رہا ہے سی پیک ، سیندک اور ریکوڈک جیسے منصوبوں پر ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا رکن صوبائی اسمبلی میر عاصم کر د گیلو کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں مردم شماری سے کوئی انکار نہیں کر رہے تا ہم چالیس لاکھ افغان مہا جرین کو فوری طور پر وطن واپس بھیجا جائے 19 سال سے مردم شماری نہیں ہوئی تو ایک دوسال مزید مردم شماری کو ملتوی کر کے انتظار کیا جائے جن لو گوں نے مردم شماری کا بائیکاٹ کیا گیا اس کانقصان ہمیں اٹھانا پڑ ھ رہا ہے نیشنل پارٹی (حئی) گروپ کے سربراہ اور بلوچ قوم پرست ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ نے بھی مردم شماری پر اپنے تحفظات کااظہار کیاان کا کہنا تھا کہ ملک اور خاص طور پربلوچستان میں غیر جمہوری قوتوں کا مسلط کر دہ نظام یہاں کے عوام پر مسلط ہے ہم کل بھی اختیار تھے اور آج بھی بے اختیار تھے وفاق کا صرف نام ہے یہاں جمہوریت بھی برائے نام ہے جو اسمبلیاں وجود رکھتی ہے وہ بھی بے اختیار ہے بلوچ عوام کو کسی بھی صورت اقلیت میں تبدیل نہیں ہونے دینگے وفاق آج بھی ہمارے وسائل پر قابض ہے سی پیک کا منصوبہ ہو یا دیگر میگا پروجیکٹس ہمارے خلاف ہر طرف سے ساز ہو رہی ہے کہ بلوچستان کو کس طرح ختم کر نا ہو گا افغان مہا جرین کو چالیس سے برداشت کیا اب ان کو واپس وطن جانا چا ہئے جماعت اسلامی کے سابق صوبائی امیر عبدالمتین اخونزادہ نے کہا کہ سیاست کیو ں خوف میں مبتلا ہو تا ہے معاشرے میں بالادست لوگ ہے وہ سارے معاملات کو چلاتے ہیں ہم کیسے جمہوری لو گ کہ مردم شماری پر کیو ں اتفاق نہیں ہو تا سپریم کورٹ کے حکم پر بلدیاتی انتخابات میں لیکن اختیارات نہیں دیئے مردم شماری کو اچھے ماحول میں ہونی چاہئے ماضی میں ایک قوم پرست جماعت نے بائیکاٹ کر کے صوبے کے عوام نے جو نقصان اٹھایا وہ ہمارے لئے قابل افسوس ہے ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی کے چیئرمین عبدالخالق ہزارہ نے کہا کہ جس سر زمین پر آباد ہے دنیا کی نظریں بلوچستان پر لگی ہوئی ہے غیر ملکی کمپنیاں یہاں سر مایہ کاری کر نے کے حق میں سویت یونین کو گرم پانی کے لئے مختلف راستے تلاش کر رہے ہیں سی پیک پر بلوچستان کو نظرانداز کیا گیا دوریوں کو ختم کر نا ہو گا مردم شماری پر جو خدشات وتحفظات ہے ان کو دور کر نا چا ہئے دنیا نے ترقی کر لی ہم اب بھی مایوسی کے عالم میں ہے سینیٹر نوابزادہ سیف اللہ مگسی کا کہنا تھا کہ ماضی میں مردم شماری میں سیاسی انفرادی اور قبائلی لوگوں کی مفادات کو سامنے رکھا جاتا رہا ہے جس کے باعث آج ہمیں مختلف مشکلات کا سامنا ہے 1998ء میں ایک ضلع کی آبادی تین لاکھ 72 ہزار تھی جو آج 21 لاکھ کو پہنچ چکی ہے اسکی آبادی میں 450 فیصد اضافہ ہوا ہے ادارے نہیں سیاسی قیادت بھی اس سے بری الزمہ نہیں ہے آج بلوچستان بھر سے معتبرین کی ایک ایجنڈے پر متفق ہونا ہماری جیت ہے بی ایس او کے سابق چیئرمین واحد بلوچ کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کے حکمرانوں نے ہمیشہ ہمیں دست و گریباں کرکے اپنے مقاصد حاصل کئے ہیں برسوں سے ہمارے وسائل کو لوٹا جارہا ہے اگر مسلمان ہونے کے ناطے حکومت افغان مہاجرین پر مہربان ہوئی ہے تو ہمیں بتایا جائے کہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ حج اور عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے سعودی عرب جاتے ہیں ایک دن ویزہ ختم ہونے پر ا نکو جیلوں میں ڈالا دیا جاتا ہے اگر مسلمان ہونے کا اتنا خیال ہے تو لاکھوں کی تعداد میں موجود ان مہاجرین کو لاہور کا شہری بنایا جائے ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا دو بھائی تیسرا حساب ہے جو غیر ملکی ہے وہ غیر ملکی رہے گا وہ ایم پی اے نہیں بن سکتا گزشتہ الیکشن میں 19 پولنگ اسٹیشنز سے109 ووٹ کاسٹ ہوئے ہیں ڈیرہ بگٹی، کوہلو، خاران، مکران، قلات، مستونگ، اسپلنجی میں حالت ٹھیک نہیں ہے حکومت اپنے لیے بھی مشکلات کھڑی نہ کرے ہمارے لیے بھی ۔ نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما رکن قومی اسمبلی سرداد کمال خان بنگلزئی کا کہنا تھا کہ اس وقت لاکھوں شناختی کارڈز بلاک ہیں اس لیے کے ان کے خاندان میں ایسے لوگ داخل ہوچکے ہیں جن کا اس سرزمین سے کوئی تعلق نہیں ہے ماضی میں ایک ووٹ کی خاطر غیر ملکیوں کو شناختی کارڈ جاری کرائے گئے ہیں ووٹر لسٹوں میں انکا اندارج کرایا گیا ہے ہمارے حلقوں میں شامل غیر ملکیوں کو اب باہر نکالنا ہوگا مردم شماری ہمارے آنے والی نسلوں کے مستقبل کا سوال ہے جس پر مصالحت نہیں کی جاسکتی جہاں الیکشن ہائی جیک ہوتے ہوں وہاں مردم شماری شفاف کیسے ہوسکتی ہے ہمیں اس مسئلہ پر سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگابلوچستان نیشنل پارٹی کے سینئر نائب صدر ملک ولی کاکڑکا کہنا تھا کہ بلوچ قوم کو خدشہ ہے کہ اگر لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری کرائی گئی تو وہ خسارے میں ہونگے آج لاکھوں کی تعداد میں اندرون بلوچستان سے لوگ دیگر علاقوں میں نقل مکانی کرچکے ہیں وہاں بھی ان کا اندراج نہیں ہوا ہے اگر وہ وہاں سے واپس اپنے علاقوں میں منتقل ہوجاتے ہیں تو یہاں بھی انکا اندراج نہیں ہوگا 1998ء میں ہونے والی مردم شماری کا کچھ دوستوں نے بائیکاٹ کیا جس کا غمیازہ آج پشتون عوام بھگت رہی ہے مردم شماری ہونی چاہیے تمام قبائل کی خواہش بھی یہی ہے جب کارا باغ ڈیم ایشو پر بلوچ قوم کے اکابرین نے پشتونوں کا ساتھ دیا اور بلوچستان اسمبلی سے اس کی مخالفت میں قرار داد منظور کرائی گئی تو آج انکے خدشات پر ہم نے انکا ساتھ نہیں دیا تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کریگی ذاتی مفادات کے لیے برادرا قوام کے درمیان دوریاں پیدا کرنے والے ماضی کی تاریخی روایات کو ضرور مد نظر رکھیں کچلاک میں ہمارا خاندان وہاں کے ملک ہیں لیکن آج ہزاروں کی تعداد میں وہاں غیر ملکی آباد ہوچکے ہیں بلوچوں نے ہر مشکل میں ہمارا ساتھ دیا ہے اگر آج اگر انکی شناخت کو خطرہ لاحق ہے تو ایسے میں ہم نے انکا ساتھ نہ دیا تو یہ ایک تاریخی المیہ ہوگا مہاجرین یہاں مہمان ہیں اور ہم اپنا گھر انکے سپرد نہیں کرسکتے یہاں دو بھائیوں میں بھی حساب ہوتا ہے بیٹھا باپ میں جائیداد کی تقسیم کے دوران بھی حساب کیا جاتا ہے حکومت کی ذمہ داری ہے کہ مردم شماری بارے تحفظات کا ازالہ کرے۔تحریک انصاف کے مرکزی رہنما نوبزادہ ہمایون جوگیزئی کا کہنا تھا کہ مردم شماری انتہائی حساس مسئلہ ہے افغان مہاجرین کو شناخت کرنا کوئی مشکل کام نہیں انہیں لہجے سے شناخت کیا جاسکتا ہے افغان مہاجرین نے مقامی لوگوں کا حق مارا ہے کل آنے والے آج سرکاری عہدوں پر فائز ہیں نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما اسحاق بلوچ کا کہنا تھا کہ تاریخی اجتماع اس بات کی غمازی ہے کہ بلوچ پشتون سمیت تمام اقوام ایک ہیں وفاق کی ذمہ داری ہے کہ قومیتوں کے شناخت کا تحفظ کرے ملک میں 1984,1981,1971,1961,1951, میں مردم شماریوں کی نسبت اس وقت پاپولیشن گرونت کافی بڑھ چکاہے 11 اضلاع جہاں مردم شماری ممکن نہیں ہے سکول مساجد امام بارگائیں شاہرائیں محفوظ نہیں ہیں ممکن نہیں کہ افغان مہاجرین کو مردم شماری سے دور کیا جائیگا پاکستان مختلف قوموں کی مشترکہ آفاقی وحدت ہے متنازعہ مردم شماری سے بلوچستان کے لیے مزید بحرانوں میں اضافہ ہوگا الیکشن کے دوران گھر گھر جانے کے باوجود 400 ووٹ کاسٹ ہوئے ہیں کوہلو ڈیرہ بگٹی مکران سے لاکھوں لوگ نقل مکانی کرچکے ہیں جو ایک بڑا المیہ ہے ۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما معروف قانون دان ساجد ترین ایڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا حکم ہے کہ تمام صوبوں میں 18 سالوں بعد مردم شماری ہونے چاہیے جس چیف جسٹس نے حکم جاری کیا ہے یہی چیف جسٹس ازخود نوٹس کے مخالف تھے مردم شماری کو آئینی تقاضہ قرار دینے والے بتائیں کیا لاپتہ افرادکی بازیابی آئینی تقاضا نہیں ہے صوبے کے حقوق سلب کئے گئے ہیں تمام سیاسی قیادت قبائلی عمائدین کا جرگہ میں بیٹھنا یہ عہد کرنا ہے کہ اس کو آگے بڑھایا جائیگا اگر بھائیوں کے درمیان نا انصافی ہوگی تو ایک خاندان آگے کیسے چل سکے گا غیر ملکی تارکین وطن کی موجودگی میں مردم شماری قبول نہیں عدالت سے رجوع کیا گیا ہے ایک اور پٹیشن فائل کرینگے جرگہ کا شرکاء کے تعاون سے آگے بڑھا جائیگا میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے اپوزیشن کونسلر رحیم کاکڑ کا کہنا تھا کہ ہم وفاق کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ یہ2017 کا بلوچستان ہے 1947 کا نہیں یہاں کے تمام مقامی لوگ ہمارے وجود کا حصہ ہیں کسی غیر ملکی کو مردم شماری میں شامل نہیں ہونے دینگے جنہیں مہاجرین سے دلچسپی ہے تو انہیں اپنے پاس بلالے ہمیں کوئی اعتراض نہیں یہ رکشہ کا پرمٹ نہیں ہے کہ انکی مدت میں چھ چھ ماہ کی توسیع کی جاتی ے بلوچ اورر پشتون دو جسم ایک جان ہے انکو کوئی جدا نہیں کرسکتا کوئٹہ شہر کا فیصلہ لاہور کے چک نمبر 16 میں کیا جاتا ہے منافقوں کا قبر تک پیچھا کرینگے وش نیوز کے احمد اقبال بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں شورش کی وجہ سے 60 فیصد آبادی اپنے علاقوں سے نقل مکانی کرچکی ہے ہر ریاست کے قوانین ہیں ہمیں بھی اپنے ریاستی قوانین بنانے چاہیے تاکہ یہاں آنے والے چائے وہ افغانی ہوں ایران ہوں چائنیز ہوں قانون کی پاسداری کریں مولانا ابو تراب کا کہنا تھا کہ قبائلی اتحاد کے خواہاں ہیں مہاجرین کا مسئلہ قابل افسوس ہے اس سے قبل بھی جنرل ضیاء الحق پرویز مشرف مہاجر تھے اس وقت لندن کا مئیر مہاجر ہے بین الاقوامی قوانین اور انسانی قوانین کے تحت مردم شماری لازمی ہے مگر اس سارے عمل سے افغان مہاجرین کو دور رکھا جائے جمعیت نظریاتی کے قاری مہر اللہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صوبے کے مسائل پر تمام قبائلی معتبرین کی جرگہ میں شرکت کا خیر مقدم کرتے ہیں حکمران صوبے پر رحم کریں یہاں لوگوں کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں یہاں کے لوگوں پر شفقت کا ہاتھ رکھنے کی ضرورت ہے افغان مہاجرین جو بھی ہوں انکا انخلاء نا گزیر ہے جمہوری وطن پارٹی کے مرکزی رہنماء نوراللہ وطن دوست کا کہنا تھا کہ اس وقت ایک لاکھ 48 ہزار بگٹی مہاجرین دیار غیر میں سکونیت اختیار کرچکے ہیں انکو مردم شماری میں شامل کرنا وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے افغان مہاجرین کو انکو کیمپوں تک محدود رکھا جائیسابق صوبائی وزیر شاہنواز مری کا کہنا تھا کہ مری اور کوہلو ایریا سے 18 سے 20 فیصد لوگ حالت کی سنگینی کی وجہ سے نقل مکانی کرچکے ہیں افغان مہاجرین ہمارے مہمان ہیں مہمان کی طرح رئیں مری قبیلے کے لوگ افغانستان میں کافی عرصہ رئیں مگر وہاں جائیدادیں نہیں خریدی نہ وہاں کی دستاویزات حاصل کی جب حالت معمول پر آئے تو اپنے وطن واپس لوٹ آئے مہمانداری ایک دو دن ہوسکتی ہے مگر ہم نے انکی 30 سالوں تک مہمان نوازنی کی ہے مردم شماری بارے تحفظات کا ازالہ کرنا وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے صاف شفاف مردم شماری ہمارا حق ہے قبائلی رہنما سردار حیات خان بادینی نے بھی مردم شماری پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے افغان مہاجرین کی انخلاء تک مردم شماری کے فیصلے کو ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا انکا کہا تھا کہ لاکھوں کی تعداد میں غیر ملکیوں کی موجودگی بلوچ قوم کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی سازش ہے جو کسی صورت قبول نہیں کی جائیگی جمعیت س کے عبدالواحد بازئی کا کہنا تھا کہ یہ بات واضح ہے کہ مردم شماری ہر صورت ہونی چاہیے یہ ہمارے مفاد میں ہے کہ بلوچستان اس وقت حالت جنگ میں ہے صوبے مزید تنازاعات کا متحمل نہیں ہوسکتا مردم شماری بارے سیاسی جماعتوں کے تحفظات درست ہیں حکومت مسئلہ کے حل کے لیے اقدام اٹھائے کاکڑ جمہوری پارٹی کے شمس الدین کاکڑ کا کہنا تھا کہ پشتون اور بلوچ ہزاروں سالوں سے ایک ساتھ رہتے آئے ہیں تاہم افغان مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری منعقد نہیں ہوسکتی آج اندرون بلوچستان سے لاکھوں لوگ دیگر علاقوں کو نقل مکانی کر چکے ہیں صاف و شفاف مردم شماری کے انعقاد کے لیے یہاں کی سیاسی جماعتوں کے تحفظات کا ازالہ کیا جائے امین اللہ کاکڑ کا کہنا تھا کہ افغان مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری نہیں کرائی جائے آج لاکھوں کی تعداد میں بلوچ نقل مکانی کرچکے ہیں ایسے میں مردم شماری مزید مشکلات پیدا کریگی ریاستی پالیسی کے تحت افغان مہاجرین کو یہاں لایا گیا تھا اب انکا انخلاء بھی ریاست کی ذمہ داری ہے مگر افسوس ریاست مصالحت کا شکار ہے سردار بابر موسیٰ خیل کا کہنا تھا کہ مردم شماری ہماری ضرورت ہے مگر لاکھوں کی تعداد میں موجود افغان مہاجرین کے انخلاء اور نقل مکانی کرنے والے بلوچوں کی آباد کاری کی جائے قدوس ساسولی، کا کہنا تھا کہ افغان مسئلہ سے بلوچستان کو سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے مردم شماری کی حمایت کرتے ہیں مگر مہمان کو مہمان او رمیزبان کو میزبان پکارا جائے مارچ کے مہینے میں مردم شماری کا اعلان اہل بلوچستان کے خلاف سازش ہے چونکہ شدید سردی کے باعث اکثر وگ گرم علاقوں کو منتقل ہوچکے ہیں وفاقی حکومت یقین دہانی کرائے کہ مردم شماری کے عمل کو کیسے شفاف بنایا جاسکتا ہے ملک قیوم کاکڑ کا کہنا تھا کہ مردم شماری ہونی چاہیے مگر پہلے ریاست اپنی پالیسی وضع کرے ایک غریب ازبک مزدور کو پکڑ کر بارڈر پار بھیج دیا جاتا ہے مگر یہاں بیٹھے بڑے بڑے پلازوں کے مالک اور سرکاری ملازمتوں پر قابض افغان مہاجرین پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا جرگہ جو بھی لائحہ عمل طہ کریگی مکمل ساتھ دینگے ولی محمد غبزئی کا کہنا تھا کہ ہماار خطہ گزشتہ 15 سالوں سے مشکلات میں گھیرا ہے مقروض قوم اپنے فیصلوں میں آزد نہیں ہوتاشفاف مردم شماری سے دیگر صوبوں کے مساوی عوامی نمائندگی کے حقوق حاصل ہونگے تا ہم مردم شماری بارے تحفظات کا ازالہ کیا جائے بلوچوں کی اکثریت افغانستان میں آباد ہے اور افغانوں کی بڑی تعداد یہاں بلوچستان میں آباد ہیں دونوں برادر اقوام کے درمیان مضبوط رشتے ہے دراڑ نہ ڈالنے دینگے جرگہ میں موجود با اثر لوگ مسئلہ پر مشاورتی کونسل تشکیل دیکر وفاق سے رابطہ کرے تاکہ مسئلہ کا پر امن حل نکالا جاسکے لالا یوسف خلجی کا کہنا تھا کہ بلوچستان ایک قبائلی علاقہ ہے یہاں کے مسائل جرگہ کے ذریعے حل کئے جاتے ہیں ہم باہرسے مال غنیمت اکٹھا کرکے لاتے ہیں تو دوسری جانب یہاں سے مال غنیمت باہر جارہا ہے اب بہت ہوچکا بلوچ پشتون قیادت کو مسئلہ کے حل کے لیے ایک ہونا پڑے گاقاہر شاہ عبداللہ زئی کا کہنا تھا کہ مردم شماری ہونی چاہیے مقامی افراد پر اسکے منفی اثرات کے تدارک لیے اقدامات کئے جائیں۔جرگہ کا اعلامیہ نوابزادہ لشکری رئیسانی کا علامیہ جاری کرتے ہوئے کہناتھا کہ قومی یکجہتی جرگہ کا انعقاد انتہائی تاریخی اہمیت کا حامل ہے اس کے دورس مثبت نتائج برآمد ہونگے وقت اور حالات کی نزاکت کا تقاضہ ہے کہ اہل بلوچستان یکجہتی کا مظاہرہ کریں تاریخ بتاتی ہے کہ جن قوموں نے صلا ومشاورت سے قومی مسائل پر مشترکہ حکمت عملی بنا کر لائحہ عمل مرتب کی تو وہ کامیاب وکامران ہوئے اور تاریخ کے اوراک میں انہیں گراں قدر الفاظ میں یاد کیا جا تا ہے18 فروری کو مردم شماری کے سلسلے میں قومی یکجہتی جر گہ میں ژوب سے لے کر گوادر تک سیاسی جماعتوں، بلوچ وپشتون، قبائلی عمائدین ودیگر برادری کی شرکت اس بات کی غمازی کر تا ہے کہ بلوچستان کے عوام اہم مسائل پر مشترکہ سوچ وفکر اور حکمت عملی پر بھر پور یقین رکھتے ہیں اور انہیں اپنی تاریخی ذمہ داری کا شدید احساس وادراک ہے یہ ایک نا قابل تردید تاریخ حقیقت ہے کہ پاکستان کثیر القومی، کثیر الثقافتی اور کثیر اللسانی وفاق ہے وفاق پاکستان کے دستوری ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ریاست میں موجود قو میتوں کی شناخت اور ڈیمو گرافی کا تحفظ کرے اور کسی بھی ایسے عمل سے گریز کرے جس سے قومیتوں کی شناخت اور حیثیت کو خطرہ لاحق ہو گزشتہ تین دہائیوں سے غیر ملکی افراد کا پاکستان مسکن رہا ہے ان کے قیام سے سنگین سیاسی ، معاشرتی اور معاشی مسائل سے جنم لیا ہے اور پاکستان بالخصوص بلوچستان کے عوام مختلف حوالوں سے عدم تحفظ کی صورتحال سے گزررہے ہیں حالیہ مردم شماری میں قوی امکان ہے کہ غیر ملکی افراد کی شمولیت ہو گی ان کی نشا ند ہی نہیں کی گئی اور وہ حالیہ مردم شماری میں شامل کئے گئے تو بلوچستان کے مقامی بلوچ اور پشتون اور دیگر برادری کی ڈیمو گرافی میں تبدیلی وقوع پذیر ہو گی جرگہ مطالبہ کر تی ہے کہ غیر ملکی افراد کیلئے محکمہ شماریات وفاق اور دیگر متعلقہ ادارے ایسے اقدامات کریں تاکہ ان کی شمولیت کی روکا جا سکے گزشتہ کئی عرصے سے بلوچستان کے کئی اضلاع میں مخدوش اور خراب امن وامان کی صورتحال کی وجہ سے کثیر تعداد میں لو گوں نے اپنے آبائی علاقوں سے نقل مکانی کر چکے ہیں ان کی شمولیت مردم شماری میں یقینی بنائی جائے اور ان کو واپس اپنے آبائی علاقوں دوبارہ بسانے کیلئے اقدامات کئے جائیں گزشتہ خانہ شماری میں اساتذہ، پیرا میڈیکل اسٹاف دیگر ملازمین نے عدم تحفظ کی بناء پر بائیکاٹ کیا تھا بلوچستان میں دور دراز علاقوں میں عوام تک رسائی کیلئے اور ان کے نام مردم شماری میں شامل کر نے کے لئے وفاقی حکومت، محکمہ شماریات ودیگر ادارے متبادل حکمت عملی وضع کریں تاکہ ان اضلاع کے مقامی افراد کے اندراج کو یقینی بنایا جا سکے جرگہ یہ سمجھتی ہے کہ صاف وشفاف اور غیر متنازعہ مردم شماری کیلئے ضروری ہے کہ مردم شماری سے قبل وفاقی حکومت درج بالا تحفظات اور خدشات کا تدارک کرے اور ان کے حل کیلئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں اگر مردم شماری سے قبل ارباب اقتدار واختیار نے ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا تو ممکنہ مردم شماری نہ صرف متنازعہ ہوگا بلکہ وفاق کیلئے ایک سنگین بحران پیدا کر نے کا سبب ہو گا جس کے انتہا ئی منفی اثرات مستقبل میں پیدا ہونگے اور اس کے ذمہ داری حکمران ہونگے ،لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین سے متعلق آئی ایم ایف کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ملک میں اب بھی پچیس لاکھ مہاجرین موجود ہیں افغان مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری سے مزید پیچدگیاں پیدا ہوجائیں گی بلوچ قوم پرستوں کی 1980ء سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ تارکین وطن چاہے وہ کوئی بھی زبان بولتے ہوں انہیں ان کے ملکوں کو واپس بھیجا جائے یہی موقف صوبے کی دیگر قوم پرست جماعتوں کا بھی ہے بلوچستان میں ایک بڑا مسئلہ مزاحمت کے باعث پیدا شدہ صورت حال ہے جس کی وجہ سے مکران ڈویژن ‘ کوہلو‘ ڈیرہ بگٹی ‘ آواران سمیت مختلف علاقوں سے بہت بڑی تعداد میں عوام اپنے گھروں سے نقل مکانی کر چکے ہیں لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین کے ہوتے ہوئے منصفانہ مردم شماری ممکن نہیں ہے موجودہ صورتحال میں مردم شماری کرانا درست نہیں ہوگاکچھ سیاسی جماعتیں مردم شماری کو متنازع بنارہی ہیں مردم شماری سے متعلق مسائل کا حل مل بیٹھ کر نکالنا چاہیے ایسی پالیسی بنائی جائے جوبلوچ پشتون سمیت تمام اقوام کو قابل قبول ہو مردم شماری سے متعلق چار نکات پرعمل کیاجائے افغان مہاجرین کو واپس بھیجا جائے نقل مکانی کرنیوالے بلوچوں کوواپس اپنے علاقوں میں آباد کیا جائے ووٹ کی لالچ کی خاطرغیرملکیوں کودستاویزات دیئے گئے ہیں پیسہ لیکرغیرملکیوں کو سرحد عبور کرانے کا کھیل بند ہونا چاہیے بہت سارے لوگوں کے ریکارڈمیں غیرمتعلقہ افراد شامل ہے الیکشن کے نتائج تبدیل ہوسکتے ہیں تو مردم شماری بھی ہائی جیک ہوسکتی ہے