گزشتہ روز یعنی دو مارچ کو بلوچ کلچر ڈے منایا گیا جس کا مقصد اپنی ثقافت اورشناخت کو برقرار رکھنا تھا مگر ثقافت تب زندہ رہتی ہے جب زبان زندہ رہے آج بہت سی زبانیں موت اور زیست کی کشمکش میں مبتلا ہیں مادری زبان انسان کی شناخت، ابلاغ، تعلیم اور ترقی کا بنیادی ذریعہ ہے لیکن جب زبان ناپید ہوتی ہے تو اس کے ساتھ مختلف النوع کی ثقافت کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے اور ان میں شامل مختلف روایات، منفرد انداز فکر اور ان کا اظہار بہتر مستقبل کے بیش قیمتی ذرائع بھی ختم ہو جاتے ہیں عالمی سطح پر گلوبلائزیشن پراسس کے باعث بیشتر زبانوں کو لاحق خطرات میں یا تو اضافہ ہو رہا ہے یا وہ ناپید ہوچکی ہیں ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں بولی جانے والی 36 فیصد مادری زبانوں کے خاتمے کا خطرہ ہے جن میں پاکستان کے شمالی علاقہ جات بلوچستان سرحد، کشمیر، بھارت اور افغانستان سے ملحقہ سرحدی علاقوں میں بولی جانے والی 27 چھوٹی مادری زبانیں شامل ہیں ان میں سے 7 زبانیں غیر محفوظ گردانی جاتی ہیں جن کو بولنے والے 87 ہزار سے 5 لاکھ تک ہیں اس کے علاوہ 14زبانوں کو خاتمے کا یقینی خطرہ لاحق ہے جن کو بولنے والوں کی تعداد کم سے کم 500 اور زیادہ سے زیادہ 67 ہزار ہے جبکہ 6زبانیں ایسی ہیں جن کو بولنے والے 200سے 5500 کے درمیان ہیں یہ زبانیں ختم ہونے کے شدید خطرے کا شکار ہیں مادری زبانوں کو لاحق خطرات کے حوالے سے پاکستان دنیا میں 28 ویں نمبر پر ہے جبکہ سب سے زیادہ 196 زبانوں کو بھارت میں خطرات لاحق ہیں امریکا کی 191 برازیل کو 190 انڈونیشیا کی 147اور چین کی 144زبانوں کی بقا کو خطرہ ہے زبانوں پر تحقیق کرنے والے امریکی ادارے Enthologue کے مطابق ملکوں کے حوا لے سے انگریزی سب سے زیادہ 112 ممالک میں بولی جاتی ہے اس کے بعد 60 ممالک میں فرنچ، 57 میں عربی، 44 میں ہسپانوی اور جرمن بھی 44 ممالک میں بولی جاتی ہے جبکہ اردو 23 ہندی 20 اور پنجابی 8 ممالک میں بولی جاتی ہے، سی آئی اے ورلڈ فیکٹ بک کے مطابق ملک میں 48 فیصد آبادی پنجابی، 12 فیصد سندھی، 10 فیصد سرائیگی، 8 فیصد پشتو، 8 فیصد ہی اردو، 3 فیصد بلوچی، 2 فیصد ہندکو ایک فیصد براہوئی جبکہ انگریزی اور دیگر چھوٹی زبانیں 8 فیصد بولی جاتی ہیں یونیسکو کے مطابق دنیا میں بولی جانے و الی زبانوں کی تعداد 6912 ہے دنیا میں بولی جانے و الی 33 فیصد زبانیں ایشیا اور 30 فیصد افریقا میں بولی جاتی ہیں
، دنیا میں دوسری زبان کے طور پر بولی جانے والی سب سے بڑی زبان انگریزی ہے کسی ایک ملک میں سب سے زیادہ 820زبانیں پاپانیوگنی میں بولی جاتی ہیں دنیا میں سب سے پہلی تحریری زبان 3200قبل مسیح کی مصری زبان ہے جبکہ 3500 سالہ قدیم چینی اور یونانی تحریریں آج بھی زندہ ہیں دنیا بھر میں 21 فروری کو مادری زبانوں کا عالمی دن منایا جاتاہے اسی مناسبت سے پوری دنیا کی طرح بلوچستان میں بھی مادری زبانوں کے حوالے سے مختلف پروگرامز کا انعقاد کیا گیا تھا
بلوچی لبزانکی دیوان کے زیر اہتمام کوئٹہ میں منعقدہ تقریب سے سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا کہنا تھا کہ 50 کی دہائی میں جب اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا گیا تو بنگالیوں نے احتجاج شروع کیا اور مجیب الرحمن سے جب پوچھا گیا کہ وہ کیوں احتجاج کررہے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ زبان ہمالیہ سے زیادہ بھاری ہے مگر بدقسمتی سے ہم اپنی زبانوں سے انکار کررہے ہیں اور یہی زبانیں ہماری پہچان کا سبب ہے ، 18 ویں ترمیم کا سلسلہ جب شروع ہوا تو نیشنل پارٹی نے موقف اختیار کیا کہ ان زبانوں کو آئینی طو رپر محفوظ کیا جائے اور ہم نے بہت کوشش کی کہ ایسا ممکن ہو مگر یہ مطالبہ نہیں مانا گیا ،جب ہم نے صوبے میں حکومت بنائی تو ہم نے مادری زبانوں کو نصاب میں شامل کرنے کے لئے قانون بنایا ، حکومت نے مادری زبانوں کو نصاب میں شامل کیا مگر اس سلسلے میں جو دشواریاں پیش آرہی ہیں ان کو دور کرنا ذمہ داران کا کام ہے وہ علاقوں کو مد نظر رکھ کر مسئلے کا حل نکالیں ، کسی بھی زبان کو جب تک حکومتی سرپرستی حاصل نہیں ہوگی وہ زبان فروغ نہیں پاسکتی ، میرے دور میں ہم نے ایک سال کو میر گل خان نصیر کا سال قرار دیا اور فیصلہ کیا کہ جو بھی اس سال گل خان نصیر پر کتاب لکھے گا ان کی چھپائی حکومت کرائی گی اس سے لکھنے اور پڑھنے پر بہت اچھا اثر پڑاجس اکیڈمی نے ہمیں اپروچ کیا ہم نے فنڈنگ کی ۔ جب تک ایک بلوچ ، پشتون ، پنجابی رہے گا یہ زبانیں ختم نہیں ہوسکتی ہم ان کو بچانے کی ہر صورت میں کوشش کریں گے ، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے بچوں کو مادری زبانوں میں پڑھائیں بلوچی زبان کے معروف ناول نگار و دانشور منیر بادینی کا کہناتھا کہ زبان ہی وہ ذریعہ ہے جس کے ذریعے آپ دوسروں کو سمجھا سکتے ہیں اور لوگ آپ کو سمجھ سکتے ہیں دنیا میں شاہکار لیٹریچر مادری زبانوں میں ہے اس کی اہم وجہ زبان پر عبور ہے جس زبان پر عبور حاصل ہو اس میں لکھنے میں آسانی ہوتی ہے جو زبان لکھی اور پڑھی جاتی ہو اوہ مٹتی نہیں اگر سب کو مادری زبانوں میں تعلیم دی جائے تو تمام مسائل حل ہوں گے ، سینئر صحافی و دانشور عرفان احمد بیگ کا کہناتھاکہ دنیا کی سب سے پیاری زبان مادری زبانی ہوتی ہے بچہ ماں کی پیٹ میں آوازیں سننا شروع کردیتا اور 5 سال کی عمر تک 90 فیصد تک اپنی مادری زبان سمجھ لیتا ہے زبان احساسات ، جذبات ، تجربات اور رویوں کو سمجھنے کا ایک اہم ذریعہ ہے، یونیسکو کے بلوچستان میں سربراہ قیصر جمالی کاکہناتھاکہ 1999 میں یونیسکو نے 21 فروری کو مادری زبانوں کا عالمی دن قرار دیا مادری زبان ہمارے خیالات اور کلچر کی عکاسی کرتا ہے ، مقامی زبانوں کی ترقی وترویج کے لئے انہیں پڑھنے ، پڑھانے سمیت اسے ذریعہ تعلیم بنایا جانا ضروری ہے اس کے علاوہ مقامی زبانوں میں فلم ، ڈراموں سمیت سنیما کا فروغ بہت ہی اہمیت کا حامل ہے جس کے لئے سب کو کردار ادا کرنا چاہیے ، ڈائریکٹر اکیڈمی ادیبات افضل مراد کا کہناتھاکہ مقامی زبانوں کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ انہیں نہ صرف پڑھایا جائے ان میں تحریر اور پڑھنا بھی اہم ہے جب تک انہی زبانوں میں لکھی گئی تحریروں اور کتابوں کر پڑھنے والا نہیں ہوگا اس وقت تک ان کو ترقی نہیں دی جاسکتی ہے ،ہزارگی اکیڈمی کے علی ہمدم کا کہناتھاکہ 21 فروری دنیا بھر میں مادری زبانوں کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے مگر آج بھی بہت سی زبانیں موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا ہے ہزارگی زبان جو یہاں کی مقامی زبانوں میں سے ایک ہے مگر ان کی ترقی و ترویج کے لئے حکومتی سطح پر انہیں کسی قسم کا تعاون حاصل نہیں جو افسوسناک ہے تمام زبانوں کو یکساں حیثیت دیئے بغیر ترقی ممکن نہیں ہے موسیٰ جان خلجی کاکہناتھا کہ علم کا حصول ماں کی گود سے شروع ہو تا ہے بچے کو اگر گھر میں بولی جانے والی زبان کی بجائے دوسری زبان میں تعلیم دی جائے تو ان کی ذہنی قوت پر اثر پڑے گا اسی لئے ہمارے اکابرین نے روز اول سے مادری زبانوں کو ذریعہ تعلیم بنانے کے لئے جدوجہد کی تاکہ بچوں کی آگاہی کا علمی سلسلہ براہ راست قائم ہو جاپان ، ایران ، ترکی اور مغربی ممالک نے مقامی زبانوں کو ذریعہ تعلیم بنا کر آج دنیا میں ایک مقام بنا چکے ہیں، پشتو ادبی غورزنگ کے محمد یوسف ساحل کاکہنا تھا کہ مادری زبانوں کی فروغ وقت کی اہم ضرورت ہے باچاخان کو انگریز سامراج نے اس لئے سزا دی کہ انہوں نے پشتو پڑھانا شروع کیا تھاجو انگریز سامراج نہیں چاہتا تھا صوبائی حکومت نے نصاب میں مادری زبانوں کو شامل تو کیا ہے مگر ابھی تک یہ مکمل طور پر لاگو نہیں ہے جس پر نظرثانی اور مزید کام کی ضرورت ہے،اس سے قبل بلوچی لبزانکی دیوان کے چیئرمین یاران بلوچ نے سمینار کے شرکاء کا شکریہ ادا کیا
کوئٹہ ہی میں ایک اور تقریب براہوئی اکیڈمی کے زیراہتمام منعقد کی گئی تھی جس سے خطاب کرتے ہوئے ڈائریکٹرجنرل کیو ڈی اے نوراحمد پرکانی پاکستان کے وائس چیئرمین افضل مینگل ،پروفیسرحسین بخش ساجد ،صابر ندیم،براہوئی اکیڈمی کے سیکریٹری جنرل پروفیسر سوسن براہوئی ،پروفیسر شیرمحمد سرپرہ ،پروفیسر عبدالحفیظ سرپرہ،شائین بارانزئی ،عظیم ذاکر،ابراہیم ابر،عبدالکریم عابد دشت کلانی ،پروفیسر عبدالوحید پرکانی ودیگر کا کہنا تھا کہ گذشتہ مردم شماری میں براہوئی زبان کو بطورزبان شامل نہ کرنے سے براہوئی زبان اوراس کے بولنے والوں کو زندگی کے تمام شعبوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے مادری زبانوں کی اہمیت سے کوئی بھی انکارنہیں کرسکتاہے اور جن جن قوموں نے مادری زبانوں کو ترقی دی ہیں وہ آج ترقی یافتہ قوموں میں شمار کئے جاتے ہیں، مادری زبان کے اظہارکا پہلا ذریعہ ہے اور یہ انسان کی اصل شناخت ہوتی ہے کہ اسی سے انسان کی تہذیب اورثقافت عیاں ہوتی ہے،علم کاسب سے بہترین زریعہ مادری زبان ہے اس سلسلے میں ضروری ہے کہ براہوئی سمیت تمام مادری زبانوں کو تعلیم کا ذریعہ بنایا جائے تاکہ ہماری قوم صیحح معنوں میں تعلیم حاصل کرتے دنیا کے دیگر قوموں کے ہم پلہ ہوسکیں ،براہوئی زبان کو بچانے اورترقی دینے کے حوالے سے براہوئی اکیڈمی کے اقدامات قابل تحسین ہیں جوکہ زبان کو دیگر زبانوں کے برابر لانے کے لیے مثبت اور موجودہ تقاضوں کے مطابق اقدامات اٹھاکر زبان کا حق اداکررہاہے مقررین کا کہنا تھا کہ براہوئی زبان کو بچانا ہم سب کی مشترکہ زمہ داری ہے موجودہ حالات اورعالمی تبدیلوں کو مدنظر رکھتے ہوے براہوئی زبان میں ٹیلی وژن چینلز اورایف ایم ریڈیو چینلز کھولنا اشد ضروری ہے اس کے لیے براہوئی زبان کے سرمایہ داروں کو چائیے کہ وہ آگے آکر اس شعبے میں سرمایہ کاری کریں تاکہ جدید چیلنجز کے مطابق براہوئی زبان کو ترقی دی جاسکے
کوئٹہ میں ہی تیسری تقریب راہشون ادبی دیوان بلوچستان کی زیراہتمام منعقد کی گئی تھی جسکے مہمان خاص بلوچی کے معروف دانشور ڈاکٹر شاہ محمد مری تھے، جبکہ مقررین میں براہوئی ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین شبیر شاہوانی، براہوئی افسانہ نگار وحید زہیر، اکادمی ادبیات کے علاقائی ڈائریکٹر افضل مراد ، ڈاکٹر عنبرین مینگل، پروفیسر ڈاکٹر لیاقت سنی، گل شیر بلوچ، آصف بلوچ، نصیب ساگر اور اے ڈی بلوچ تھے اس موقع پر مقررین کا کہنا تھا کہ قربانیوں کے بعد اس دن کو منانے کے قابل ہوئے ہیں زبان کے ترقی سماج کی ترقی ہے زبان کے حوالے سے ایک جنگ خود سے لڑنا ہے براہوئی کو دراوڑی کہلانا اب قصہ پارینہ بن چکا ہے، اس حوالے سے ہمیں راسخ العقائد نظریات کو ترک کرنے کی ضرورت ہے جتنی کرپشن سیاسی حکومتوں کے دور میں ہوتا ہے ان کا آدھا پیسہ صرف ایک بار زندگی میں زبانوں کی بقا اور فلاں کے لیے خرچ کیے جائیں توزبان کے حوالے سے بہت سے مسائل ختم ہونگے، ہمیں اس ڈر سے نکلنا ہوگاکہ براہوئی زبان کو خطرات لاحق ہے کیونکہ جس زبان میں تخلیقی کام ہو رہے ہیں اس زبان کو کوئی خطرہ نہیں پروگرام میں براہوئی ، بلوچی کے معروف ڈرامہ نگار اے ڈی بلوچ نے براہوئی زبان میں ایک اسٹیج ڈرامہ پیش کیا
کوئٹہ ہی میں چھوتھی تقریب بلوچستان نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام منعقدہ کی گئی تھی جس کے مہمان خاص بی این پی کے مرکزی ہیومین رائٹس سیکریٹری موسیٰ بلوچ تھے تقریب سے غلام نبی مری جاوید بلوچ یونس بلوچ میر غلام رسول مینگل ملک محی الدین لہڑی ڈاکٹر علی احمد قمبرانی لقمان کاکڑملک ابراہیم شاہوانی آغا خالد شاہ دلسوزحاجی ابراہیم پرکانی میر قاسم پرکانی ہدایت اللہ جتک جان محمد مینگل جاوید جھلاوان ملک محمد حسن مینگل شوکت بلوچ علی احمد پرکانی ظفر نیچاری نے خطاب کیا مقررین کا کہنا تھا کہ قوموں کی تاریخی ارتقائی عمل میں کسی قوم کی زبان کی اہمیت سے انکار نہیں جو اقوام نے اپنی قومی مادری زبان کو ذریعہ شعور وعمل بنایا وہ کامیابی اور جدید دنیا سے ہم آہنگ ہوکر ترقی کے سفر کو چھو لیا دنیا میں کم وبیش چھ ہزارزبان بولی جاتی ہے جن میں سے آدھے زبان ختم یاتاریخ کا حصہ بن جائینگے کیونکہ مادری زبانوں کے حوالے سے بلوچستان میں سرکاری سطح پرکوئی سرپرستی نہیں کی جارہی ہے جبکہ بلوچستان میں مادری زبانوں پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے جس کی وجہ سے بلوچستان میں مادری زبانوں پر دیگر زبانوں کو عاوی کی جارہی ہے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کسی بھی سماج وقوم کی ترقی میں بنیادی کردار شعور سے وابستہ ہے لیکن بلووچستان کی تعلیمی سلیبس میں مادری زبانوں کواعلان تک رائج کیا گیا ہے لیکن تین سال کے طویل عرصے میں کتب وغیرہ تاحال اسکول اورطلباء سے دور ہے جبکہ ہماری زبانون میں دیگر زبانوں کے الفاظ بھی داخل ہوچکے ہیں جس ہماری مادری زبانوں کی اصل الفاظ کم یا ختم ہورہے بلوچستان میں مادری زبانوں کے حوالے سے کام کرنے کی اشد ضرورت ہے جس پر توجہ نہیں دی گئی توہماری مادری زبانوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے کیونکہ کسی بھی قوم کی بقاء شناخت کے لئے زبان بنیادی عنصر ہے جس کے بغیر قوم کی شناخت ثقافت بھی اپنا اثر اور وجود کھو دیتے ہیں ابتداء سے ہمارا مطالبہ رہا ہے کہ بلوچستان میں مادری زبانوں کو نصاب کا حصہ بناکر تحقیقی تخلیقی مواد سے لیس جدید سائینٹیفک انداز میں بڑھنے کا موقع دیا جائے لیکن اس پر عدم توجہی قابل مذمت ہے جو استحصالی پالیسیوں کا حصہ ہے اکیسویں صدی میں بلوچستان کے عوام انسانی بنیادی حقوق سے محروم ہیں حقوق کی پاداش میں شہادت کے عمل کو بلوچ قوم کا مقدر بنا دیا گیا ہے
پانچویں تقریب بھی کوئٹہ میں شون ادبی دیوان ‘ سیوت ‘ سخاوت ‘ شال ‘ بولان ‘ چلتن ‘ بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے زیراہتمام منعقدہ کی گئی تھی سیمینار کی صدارت منظور بلو چ نے جبکہ مہمان خاص ڈاکٹر دین محمد بزادار تھے پروفیسر منظو ربلوچ کا کہنا تھا کہ ہمارا لکھنے والا منقسم اور دوغلی شخصیت کا مالک ہے جو عوام اور اس کے زبان پر حکمران طبقات اور اشرافیہ کو اہمیت دیتا ہےِ جہاں نوالہ چرب ہو گا یہ وہیں پائے جائیں گے یہ تقریب بارہ گھنٹے سے زائد تک جاری رہی جس میں خواتین اور عوام کی شرکت قابل دید تھی منظور بلوچ کا کہناتھا کہ براہوئی زبان کو حقیقی خطرات لاحق ہیں براہوئی زبان میں مختلف تو کجا اب تک ڈھنگ کا کام نہیں ہوا زبان کے غمگسار ہی اس زبان کے سب سے بڑے مجرم ہیں بلوچوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ مردم شماری ان کے ساتھ ایک مذاق ہے براہوئی زبان اور اس مسئلہ کے حوالہ سے استعمال کرنے والے شرمناک کردار کے حامل ہیں تقریب سے ڈاکٹر دین محمد بزدار نے بھی خطاب کیا انہوں نے موجودہ صورتحال میں بلوچی اور براہوئی زبانوں کو درپیش مسائل کا جائزہ لیا اور کہا کہ بلوچ قوم کی تین بڑی قومی زبانیں ہیں جن میں بلوچی ‘ براہوئی اور سرائیکی شامل ہیں بعد ازاں محفل مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا جس سے شاکر ندیم ‘ منظور بلوچ ‘ پروفیسر اقبال ناظر ‘ پروفیسر مان منصور ‘ پروفیسر ذوالفقار یوسف ‘ سائر عزیز ‘ اعجاز سنگت ‘ شبیر ساگر بلوچ ‘ یوسف موج ‘ابراہیم ہینن ‘ تنویر سحر ‘ جمیل فریاد ‘ اسحاق ناز ‘ اسد نصیب ‘ ادریس سحر ‘ سمیع شاکر ‘ سلام صائم ‘ جاوید کوثر ‘ یونس کرد ‘ خالد زیب ‘ حیدر حسرت اور دیگر نے اپنا کلام پیش کیا تقریب کا آخری حصہ حسیب جان شاہوانی کی یاد میں محفل موسیقی کا انعقاد کیا گیا اس مجلس میں عبید اللہ ‘ برمش بلوچ نے اپنے خوبصورت گیتوں سے عوام کو محظوظ کیا آغا عبدالقادر شاہ نے بانسری پر گیت پیش کئے یہ محفل رات گئے تک جاری رہی ۔ خضدارمیں بھی زبانوں کے عالمی دن کے موقع پر براہوئی ادبی اکیڈمی کی جانب سے تقریب کا انعقاد کیا گیا تھاتقریب کے مہمان خصوصی بلوچستان ریذیڈیشنل کالج خضدار کے پرنسپل ممتاز ماہر تعلیم محمد عالم جتک تھے جبکہ تقریب کی صدارت ممتاز ادیب دانشور پروفیسر عبد الوا حد مینگل نے کی اعزازی مہمانوں میں انجینئرحبیب قادر زہری ، ڈویثرنل پبلک کالج خضدار کے پرنسپل طاہرہ احساس جتک تھیں تقریب میں زبان کے عالمی دن کی مناسبت سے پروفیسر کرم خان مولانا عبد اللہ محمد زئی ، خضدار پریس کلب کے سابق صد محمد صدیق مینگل ، ذوق براہوئی و دیگر مقررین نے خطاب کیا اس موقع براہوئی ادب و زبان کے حوالے سے بلوچستان و جہالاوان کے شعراء نے اپنا کلام پیش کر کے براہوئی زبان کے قدیم لغات و ثقافت کو اجا گر کیا مقررین کا کہنا تھا کہ براہوئی زبان بر صغیر کا قدیم ترین بولی ہے براہوئی زبان تین ہزار سال قبل کا ایک زبان ہے دنیاء کے قدیم ترین زبانوں میں براہوئی زبان کا شمار ہوتا ہے لیکن حال ہی میں یونیسکو کی جانب سے جو رپورٹ پیش کیا گیا ہے اس میں براہوئی زبان کو ان زبانوں میں شمار کیا گیا ہے جو آئندہ صدی میں ختم ہونے والے زبانونیں ہیں اس رپورٹ کی اشاعت کے بعد یہ فکر ہم سب کو لاحق ہونا ضروری ہے کہ ایک سازش کے تحت براہوئی زبان کے خلاف سازشیں عروج پر ہیں جب ہمارے مادری زبان کو اس قسم کے خطرات لاحق ہوں جو ہماری پہچان ہے تو ان خطرات سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس بارے میں منصوبہ بندی کریں اس بارے میں براہوئی لغت کے ادین اور شعراء و نثر نگاروں پر اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ براہوئی زبان کی خدمت کا پیشہ تیز کر دیں خاص طور نوجوان نسل اس بارے میں ثابت قدمی کا ثبوت دے اپنے مادری زبان بولیں اور اس میں ارود انگریزی کی آمزیش سے گریز کریں ۔قلات میں بھی مادری زبانوں کے دن پر سیمینار اور مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں قیقان ادبی دیوان قلات ،براہوئی اکیڈمی خالق آباد منگچر ،کوہ ماران ادبی کاروان خالق آباد منگچر سمیت ،صحافیوں ،سیاسی،ادبی ، سماجی رہنماؤں ،شعراء و ادیب ،افسانہ نگار، محقق سمیت کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی ،جن میں،اللہ بخش شاکر ، میریوسف شاہوانی ،منیر زیب ،حفیظ صائد،محسن براہوئی ،قیوم حسرت ساسولی ،صحافیوں فیض نیچاری ،ریاض احمد شاہوانی ،ظفر اللہ جالب سمیت دیگر شامل تھے اس موقع پرشعراء نے مادری زبانوں کے حوالے سے اشعار پیش کئے پر مقررین کا کہنا تھا کہ براہوئی زبان ایک قدیم زبان ہے زبان کی افادیت اور اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ، ہمیں اپنے رسم و رواج اور زبان کی شناخت کو مٹانے سے بچانے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ، ہم نے آگاہی مہم شروع کیا ہے تاکہ آنے والے مردم شمار ی میں متعلقہ فارم میں زبانوں کے حوالے کے جو خانہ دیا گیا ہے اس خانے میں براہوئی زبان پر نشان لگا کرمادری زبان سے محبت کا ثبوت دیں ۔کیوں کہ یہ ہم سب کا فرض ہے کہ اس مہم میں بھر پورحصہ لیں اور اپنے مادری زبان سے محبت کے ساتھ ساتھ اپنی ذمہ داری سمجھ کر اس حوالے سے اپنا قومی فرض سمجھ کر اپناحق اداکریں براہوئی زبان کی بقاء اور تشخص کیلئے ہمیں مل کر کردار ادا کرنا ہوگا اور خصوصی طور پر مردم شماری میں زبان براہوئی کو منتخب کرکے زبان کو زندہ رکھنے کیلئے براہوئی زبان پر نشان لگا کر اس حوالے سے آگاہی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے ۔ سبی پشتونخوامی عوامی پارٹی ، پشتونخوا اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے زیر اہتمام ریلی نکالی گئی شرکاء نے پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے ریلی کا اختتام جلسہ پر ہوا جس سے خطاب کرتے ہوئے احمد خان لونی ، سید نور احمد شاہ ، جلال احمد خجک ودیگرکا کہنا تھا کہ د ور جدید میں مادری زبان کی بدولت قومیں ترقی اور خوشحالی کی جانب گامزن ہوتی ہیں دیگر ملکوں میں مادری زبان کو سیکھایا جاتا ہے بد قسمتی سے بلوچستان کے کئی علاقوں میں مادری زبان سیکھانے کیلئے اساتذہ کرام کی کمی کی وجہ سے بچے اپنی مادری زبان سیکھ نہیں سکتے صوبائی حکومت نے اسکولوں میں مادری زبان سیکھانے کے احکامات تو جاری کئے
لیکن اساتذہ کے نہ ہونے سے اس کے فائدہ حاصل نہیں ہوسکے مقررین کا کہناتھاکہ پشتون زبان دنیا کی خوبصورت زبانوں میں ایک زبان ہے جو دنیا کے کونے کونے میں بولی اور سمجھی جاتی ہیں حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ پشتون زبان کو اسکولوں اور کالجز میں سیکھانے کیلئے اساتذہ کرم کی فراہمی کو ممکن بنائے جلسہ عام سے پنجاب کے ایک علاقہ میں پشتون قوم کے افراد سے ہتک عزت کا رویہ کرنے پر شدید الفاظوں میں مذمت کی مقررین کا کہناتھاکہ پشتون قوم ملک میں باعزت وقار کے ساتھ رہنا چاہتی ہیں سازش کے تحت پگڑی اور ڈارھی رکھنے والوں کے ساتھ امتیازی سلوک اپنایا جاتا ہےُ پشتونخوامیپ اور پی ایس او ہی کے زیر اہتمام کراچی ، پشاور ، ڈیرہ اسما عیل خان،کوہاٹ، ژوب،لورالائی سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں بھی تقاریب منعقدہ کی گئیں تھیں
مادری زبانوں کے عالمی دن کے موقع پر کوئٹہ سمیت بلوچستان بھرمیں درجن بھر تقریبات کا اہتمام کیا گیا تھا تمام ادبی تنظمیوں نے مختلف ٹولیوں میں تقریبات منعقدکرکے زبانوں کے تحفظ کا عزم کا اظہار کیا ہونا تو چاہیے تاکہ تمام تنظمیں اس دن کی مناسبت سے یکسوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک جگہ اکھٹا ہونے کو ترجیحی دیتے اور زبانوں کی بقاء اور تحفظ کے حوالے سے متفقہ حکمت عملی مرتب کرتے اور اپنی زمہ داریوں کا احساس کرتے آج بہت سی زبانیں موت اور زیست کی کشمکش میں مبتلا ہیں بلاشبہ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان کے دور حکومت میں مادری زبانوں کی ترقی وترویج اور انہیں نصاب کا حصہ بنانے کیلئے اقدامات اٹھا ئے گئے تھے تاکہ ان کی افادیت کا اجاگر کیا جاسکے اور مادری زبانوں کو آئینی طور پر محفوظ کیا جائے جن ممالک نے مادری زبانوں کو ذریعہ تعلیم بنایا آج وہ دنیامیں ایک مقام حاصل کرچکے ہیں کسی بھی قوم کی بقاء شناخت میں زبان بنیادی عنصر ہے جس کے بغیر قوم اپنی شناخت ثقافت اپنا اثر رسوخ اور وجود کھودیتی ہے زبانوں کے عالمگریت کے پیش نظر بقاء کے سنگین خطرات کا سبب نوبادیاتی نظام اور ادب کے نام پر قائم مخصوص گرواں ہیں جو زبان سے محبت کے علمبردار ہیں وہی زبانوں کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کررہے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سطحی پر زبانوں کو لاحق خطرات حوالے سے بروقت اقدامات کئے جائیں ۔