نوشکی : گزشتہ روز جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے مرکزی جنرل سیکٹری اور سینٹ کے ڈپٹی چیرمین مولانا عبدالغفور حیدری نے نوشکی انام بوستان چوک پر جلسہ عام سے خطاب کرتے ھوئے ایک اہم بات کی جانب اشارہ کیا کہ اس جلسہ عام میں شریک لوگوں کی شرکت اور نوشکی کیعوام کی جانب سے جمعیت کے رہنماوں کی استقبال سے یہ ظاہر ھورہی ہے کہ مستقبل میں نوشکی کا ایم پی اے کا سیٹ جمعیت علمائے اسلام کا ہی ہے۔ مولانا صاحب نے قبل از وقت اہم پیشن گوئی کی ہے۔معلوم نہیں کہ مولانا صاحب نے یہ بات کس بنیاد پر کہہ دیا۔ عوام کی ہجوم کو دیکھ کر یا اس بات کے پس منظر میں کچھ اور ہی بات ھو گی۔ کیونکہ اسی جلسہ میں مولانا صاحب کے ایک اہم ساتھی نے کہا کہ مولانا منظور مینگل نیشنل اسمبلی کی کوئیٹہ چاغی نشست جیت چکا تھا مگر کچھ نادیدہ قوتوں نے ان کی جیت کو ہار میں تبدیل کردیا۔ اگر بات ایسی ہے جیسا کہ کہا گیا ہے تو مولانا عبدالغفور حیدری نے لوگوں کی تعداد کو دیکھ کر نہیں بلکہ کچھ اور مدنظر رکھ کر یہ بات کہء ھوگی کہ نوشکی میں مستقبل جے یو آئی کا ہے۔ ٹیھک کہا ھو گا۔ چونکہ بلوچستان بلخصوص سرحدی علاقوں کی نشستوں کو ووٹ کی بنیاد پر نہیں ملکی خارجہ پالیسی کی بنیاد پر دی جاتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آئیندہ کوئیٹہ چاغی سے کامیاب ایم این اے بھی جے یو آئی ہی کا ھوگا۔ اور مولانا منظور مینگل مستقبل کا ایم این اے ھو گا۔ اور اگر سیٹ اپ نے کامیاب مزاکرات کیئے ہیں۔تو مستقبل میں بلوچستان کی وزارت اعلی کا عہدہ بھی جمعیت ہی کا ھو گا اور خود مولانا عبدالغفور حیدری ہی وزیر اعلی ھونگے اور یوں بلوچستان کی کی تاریخ میں پہلی بار وزارت اعلء کا عہدہ کسی مولانا کو دی جائیگی۔ اب سوال یہ پیدا گا کہ اس حکومت میں جمعیت کے ساتھ اور کس کی اشتراک یا شراکت داری ھوگی۔ دوسری اہم سوال یہ پیدا ھو گا کہ جمیعت کو کس قیمت پر یہ وزارت اعلی کا عہدہ دیا جائے گا۔ اس کیلئے پاکستان پیپلز پارٹی بھی بعض شرائط مان جانے کیلئے تیار ھو گا۔ اور پی پی پی کے کو چیرمین آصف علی زرداری تو مفاہمت اور جوڑ توڑ کے ماہر ہے۔ کیا بلوچستان میں ایک بار پھر فیفٹی فیفٹی کا فارمولہ استعمال ھوگا۔ڈھائی سال تیرے ڈھائی میرے یعنی وفاق میں بر سر اقتدار رہینے والی پارٹی کا حصہ بھی وزارت اعلی ھو گا۔ کیونکہ ڈاکٹر عبدالمالک کے بعد جمیعت ہی کے لیڈروں میں یہ کوالٹی ہے کہ وہ اقتدار آدھے راستے میں ہی دوسرے فریق کے حوالے کر سکتے ہیں۔ چونکہ معاہدات کے پابند لوگ ہیں جے یو ائی والے۔ اور آج کے جلسے میں مولانا عبدالغفور نے ایک قوم پرست جماعت کی جانب اشارہ کرتے ھوئے کہا کہ اصل میں ہماری جماعت ہی متوسط اور غریب طبقے کی جماعت ہے۔ وہ قوم پرست پارٹی نہیں۔ ان باتوں سے یہ بھی ظاہر ھوتا ہے کہ مستقبل میں این پی کا اقتدار میں حصہ نیہں ھو گا اس کی جگہ بی این پی عوامی ہی موضوع پارٹی رہیگی۔اور چند آزاد حثیت کے لوگ بھی منتخب ھونگے اور سنیئر ممبر پی پی پی کا ھو گا۔ وغیرہ یہ سب آنے والے انتخابات کے متوقع نتائج کے بارے ایک منظر کشی ہے۔ اور اس میں تبدیلی کی متوقع ہے اور تبدیلی بی این پی مینگل کی حق میں بھی ھو سکتی ہے۔لیکن اسکے امکانات بہت ہی کم ہے۔ اسکے بہت سے وجوہات ہے۔ سردار اختر جان مینگل کیلئے فیصلے لینا آسان نہیں ھو گا۔ شاہد یہ فیصلہ وہ کچھ مجبوریوں کی بنا پر کر بھی جائے۔ قبل از وقت ہے کچھ کہنے کی پوزیشن نہیں ہے اس وقت۔ اب آتے ہیں مختصر اس بات کی جانب کہ جمیعت کو حکومت دینے کی قیمت کیا ھوگی۔ اس کا ایک حصہ انتخابات سے قبل وصول ھو گا اور دوسری قسط انتخابات کے بعد ادا کرنی ھو گی۔ اسلئیے انتخابات میں بلوچستان میں کسی جماعت کو واضع اکثریت نہیں مل سکے گی۔ ایک مخلوط حکومت اور درمیانی قوت کو فیصلہ کن کردار کا مالک بنا دیا جا سکتا ہے۔۔مزید تجزیہ آنے والے وقت میں واضع طور کرنے کی کوشش کرینگے۔