کوئٹہ : پشتونخواملی عوامی پارٹی کے صوبائی صدر سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا ہے کہ فوجی عدالتوں کے قیام سے دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہوگا پالیسیاں تبدیل،گڈ اینڈ بیڈ کا تصور ختم اور پارلیمنٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد سے ہی دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہے ہم ملک کو حقیقی جمہوری فیڈریشن بنانے کے خواہشمند ہیں ہم کسی صورت غلط مردم شماری کوتسلیم نہیں کریں گے ،پٖشتونوں کو زبردستی انتہاء پسندی کی طرف دھکیلنا افسوسناک ہے ردالفساد کو ردالپشتون میں تبدیل کرنا نہ انصافی ہے میڈیا ہمیں درپیش مسائل کو اجاگر کرے یہ بات انہوں نے جمعہ کی شب پشتونخواملی عوامی پارٹی کی جانب سے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی بی ڈی ایم میں شرکت کیلئے ملک بھر سے آنے والے صحافیوں کے اعزاز میں دیئے گئے عشایئے سے خطاب کرتے ہوئے کہی ۔اس موقع پر صوبائی وزیر ڈاکٹر حامد اخان اچکزئی ،وزیراعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات سردار رضامحمدبڑیچ ،ارکان صوبائی اسمبلی آغا لیاقت ، ،ولیم برکت،سپوزمئی اچکزئی ،عارفہ صدیق،میئر کوئٹہ ڈاکٹر کلیم اللہ خان سمیت دیگر بھی موجود تھے تقریب میں نظامت کے فرائض رکن صوبائی اسمبلی نصراللہ زیرے نے انجام دیئے تقریب سے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی ایڈہاک کمیٹی کے چیئرمین محمد ریاض اور بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے صدر خلیل احمد نے بھی خطاب کیا۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ پاکستان نام کی حد تک فیڈریشن ہے ہماری جماعت چاہتی ہے کہ ملک ایک حقیقی وفاقی جمہوریت فیڈریشن ہو جو ملک عوام اور تمام اقوام کیلئے ضروری ہے مگر ہم محسوس کر رہے ہیں کہ ملک میں عملی طور پر ون یونٹ کا ماحول ہے داخلہ ،خارجہ پالیسیوں ،ترقی ،سی پیک سمیت تمام فیصلوں میں ون یونٹ جیسا ماحول ہے جو نہیں ہونا چاہئے ملک میں پارلیمنٹ کی بالادستی ہونی چاہئے مگر بدقسمتی سے اکیسویں صدی میں 70سال گزرنے کے باوجود ہماری پارلیمنٹ کی بالادستی نہیں ملک کو باتوں سے نہیں بلکہ حقیقی جمہوری فیڈریشن بناکرمضبوط کیا جاسکتا ہے یہ ملک مختلف اقوام کا مشترکہ گھر ہے یہاں پر کسی کی بالادستی نہیں ہونی چاہئے پشتون بلوچ ،سندھی ،پنجابی ،سرائیکی سب کو برابری کی بنیاد پر لیکر چلنا چاہئے تمام پالیسیاں اور تمام فیصلے ان اقوام کی مرضی اور مشاورت سے ہونے چاہئے ہمارے حکمران یہ کہتے نہیں تھکتے کہ وہ انگریز سامراج کو نہیں مانتے مگر بدقسمتی سے انکے فیصلوں کو مانتے ہیں انگریزوں نے پشتونوں کو چار حصوں میں تقسیم کیا جو آج بھی موجود ہے ہم انگریز کی تقسیم کو نہیں مانتے ،انہوں نے کہا کہ اب تو ہماری شہریت کو بھی چیلنج کیا جارہا ہے تاریخ میں تو غلاموں کو بھی شہریت حاصل تھی مگر ہمیں اس سے بھی محروم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس طرح مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کیلئے ٹاڈاکا قانون تھا جس کی ہم سب نے مخالفت کی مگر یہاں پورے ملک میں نادرا کی ایک اور پشتونوں کیلئے الگ پالیسی ہے ہمارے 4لاکھ شناختی کارڈ بلاک ہیں ہمارے لئے شناختی کارڈ کا حصول ناممکن بنادیا گیا ہے سی پیک میں ہمیں ہر قسم کی ترقی سے محروم کردیا گیا ہے غیر ملکی سفیروں اور عالمی این جی اوز کو صوبے کے حالات کا بہانہ بناکر آنے سے روکا جاتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ملک کا 72فیصد علاقہ کم ترقی یافتہ علاقوں پر مشتمل ہے ہمارے صوبے میں کوئٹہ کے سوا پورا صوبہ کم ترقی یافتہ ہے یہی صورتحال ملک کے دوسرے حصوں کی ہے مگر 80فیصد فنڈز ترقی یافتہ علاقوں کیلئے ہیں جو ناقابل قبول ہیں انہوں نے کہا کہ حکومت کو ایک آئینی پارلیمانی ترمیمی کمیٹی بنانی چاہئے تاکہ جو چیزیں 16ویں ترمیم میں رہ گئی ہیں انکو مکمل کیا جائے ہم ملک میں پشتونوں کی تقسیم کو تسلیم نہیں کرتے ۔انہوں نے کہا کہ فوجی عدالتوں کے ذریعے دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہوگا اس کیلئے پالیسیاں تبدیل کرنا ہونگی ۔انہوں نے کہا کہ اس صوبے میں 70سال سے مردم شماری غلط ہوئی جسے مزید تسلیم نہیں کریں گے ہم شفاف مردم شماری چاہتے ہیں جس میں ایک بھی غیر ملکی شامل نہیں ہونا چاہئے لیکن غیر ملکیوں کو بہانہ بناکر ایک بھی مقامی پشتون کو مردم شماری سے باہر نہیں ہونا چاہئے شفاف مردم شماری کیلئے جو بھی طریقہ کار طے کیا جائے ہم اسکے لئے تیار ہیں۔